منتخب کردہ کالم

پاکستانیوں کا شادی کلچر (ترازو) محمد بلال غوری

یوں تو ہمارا طرز معاشرت ہر اعتبار سے ہی تضادات کا مجموعہ ہے مگر گزشتہ چند روز شادیوںکی نذر ہوئے تو اندازہ ہوا کہ ایسی تقریبات بھی عجیب و غریب نوعیت کے تضادات کے بغیر مکمل نہیں ہوتیں۔لحاظ اور مروت کو ایک طرف رکھ چھوڑیں تو اس طرز عمل کے لیے تضاد کے بجائے منافقت کا لفظ زیادہ موزوں اور مناسب محسوس ہوتا ہے۔
قول و فعل کے تضاد کا آغاز شادی کے لیے لڑکی کی تلاش کے ساتھ ہی شروع ہو جاتا ہے ۔جب پوچھا جاتا ہے کہ کس طرح کی دلہن ڈھونڈی جائے توہر کنوارہ نوجوان سعادت مند کہلانے کی خواہش میں یہی گھسا پٹا جملہ دہراتا ہے کہ صورت کے بجائے سیرت اچھی ہونی چاہئے ،خوبصورتی کے بجائے عادات و اطوار کو ملحوظ خاطر رکھیں ۔مگر نہاں خانہ دل میں یہی تمنا ہوتی ہے کہ لڑکی مس ورلڈ نہ ہو تو مس پاکستان ضرور ہو۔یہی وجہ ہے کہ جب کہیں رشتے کی بات چلتی ہے تو سیرت کو ترجیح دینے والے اپنی بہن کے ذریعے تصویریں منگوا کر زوم کرکر کے دیکھتے نظر آتے ہیں۔حالانکہ جیون ساتھی کے انتخاب کے معاملے میں شرمانے اور اپنی خواہش کو دبانے کی کیا ضرورت ہے۔ انسان جبلتاً حسن پرست ہے اور ہر خوبصورت چیز کو پسند کرتا ہے۔اور پھر سائنسدانوں نے آج تک کوئی ایسا آلہ ایجاد نہیں کیا جس سے سیرت ،کردار اور عادات و اطوار کا سراغ لگایا جا سکے ۔یہ تو بلف گیم ہے جس میں شخصیت کے پرت شادی کے بعد ہی کھلتے ہیں تو کیوں نہ جو چیز صاف دکھائی دے رہی ہے اس کی بنیاد پر فیصلہ کر لیا جائے۔
شادی کی تقریبات کا آغاز ہوتا ہے تو ناچنے اور گانے والوں کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں ۔خواجہ سرا بلائے جاتے ہیں،راتوں کو مُجرا ہوتا ہے ۔جہاں یہ سب نہ بھی ہو تو ڈھول کی تھاپ پر رقص تو ضرور ہوتا ہے ۔رسوم و رواج کی ادائیگی کے دوران شریعت یاد نہیں آتی لیکن جیسے ہی سہرابندی ہوتی ہے اوربارات روانہ ہونے لگتی ہے تو مسلمانیت بیدار ہوجاتی ہے۔دلہا کی گاڑی کے آگے حسب استطاعت مرغے یا بکرے کا صدقہ دیا جاتا ہے اور دلہا کو روانگی سے پہلے مسجد کی یاترا کروائی جاتی ہے۔ایک اور تضاد یہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ وہی مرد جو چند لمحے پیشترحضرات کے لیے مخصوص پنڈال میں ناچنے والیوں پر نوٹ نچھاور کرکے آ رہے ہوتے ہیں اگر انہیں اپنی بیوی یا بہن رقص کرتی نظر آ جائے تو ان کی غیرت جوش مارنے لگتی ہے اور قیامت برپا ہو جاتی ہے۔بعض لوگ شادی کے موقع پر خواتین کے پردے کے حوالے سے بہت حساس ہوتے ہیں اور ان کی غیرت گوارا نہیں کرتی کہ کوئی غیر مرد ان کی خواتین کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھے لیکن یہ غیرت مند حضرات اپنی خواتین کے پردے کے حوالے سے جس قدر حساس ہوتے ہیں ،دوسروں کی خواتین کے پردے کے بارے میں اتنے ہی بے حس واقع ہوتے ہیں۔
شادی کی بے پناہ رسموں کو پتھر پر لکیر سمجھا جاتا ہے اور ان سے روگردانی کسی صورت برداشت نہیں کی جاتی۔لیکن جب سے پارلر اور مووی کا کلچر آیا ہے بہت سی رسمیں اپنی موت آپ مر گئی ہیں۔مثال کے طور پر ایک دور تھا جب دلہن گھونگھٹ کیا کرتی تھی تاکہ اس پر کسی کی نظر نہ پڑے ۔یہاں تک کہ اپنے اہلخانہ سے بھی پردہ کیا جاتا ۔ یہ گھونگھٹ نکاح کے بعد دلہا اتارتا اور پھر سب رشتہ دار نظارہ کرتے اور منہ دکھائی کے طور پر کچھ نہ کچھ نقد ادا کرتے۔مگر اب معاملہ اس کے برعکس ہے۔پارلر والے ، مووی میکر اور باراتی دلہن کو پہلے دیکھتے ہیں اور سب سے آخر میں دلہا کی باری آتی ہے۔
اسی طرح شادی بیاہ کے دوران دیگر مواقع پر بیشک شریعت یاد نہ آئے مگر جیسے ہی نکاح نامے پر شرائط کا اندراج ہونے
لگتا ہے اور لڑکی کے حق مہر کا سوال ہوتا ہے تو جھٹ سے شریعت یاد آجاتی ہے ۔قیمتی ملبوسات ،انواع و اقسام کی رسومات ،بارات ،ولیمے اور دیگر مدات میں لاکھوں روپے خرچ کرنے والا دلہا اس موقع پر شریعت کو بیچ میں لاتا ہے اور محض چند ہزار روپوں میں چھوٹ جاتا ہے۔مہنگائی کے اس دور میں جہاں ایک سوٹ کی سلائی پانچ سو روپے سے زائد ہے،میں نے کئی شادیاںمحض پانچ سو روپے حق مہر کے عوض بھی ہوتے دیکھی ہیں۔اور طرفہ تماشا تو یہ ہے کہ جن دو افراد کے درمیان یہ سماجی معاہدہ ہو رہا ہوتا ہے ان میں سے کسی سے یہ پوچھنے کا تردد بھی نہیں کیا جاتا کہ شرائط کے ضمن میں کیا لکھا جائے اور کیا نہ لکھا جائے۔
رخصتی کے موقع پر بھی دلچسپ مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ایک طرف ہندو کلچر سے مستعار لی گئی وہ رسم اداکی جا رہی ہوتی ہے کہ دلہن چلتے وقت چاول یا گندم کے دانے اپنے ہاتھوں سے پیچھے پھینکتی جاتی ہے جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ والدین کے ہاں اس کا دانا پانی ختم ہو گیا ہے۔لیکن دلہن کو قران کے سائے میں رخصت کرنا بھی ضروری سمجھا جاتا ہے۔جب تک دلہن گاڑی میں نہیں بیٹھ جاتی ،کوئی نہ کوئی عزیز اس کے سر پر قرآن مجید کا سایہ کیے رکھتا ہے۔اسی طرح شادی چاہے سب کی رضا و رغبت سے ہو رہی ہو ،لڑکی چاہے کتنی ہی خوش کیوں نہ ہو،اسے رخصت ہوتے وقت رونے دھونے کی ایکٹنگ ضرور کرنا پڑتی ہے کیونکہ یہی رسم ِزمانہ ہے کہ باپ کی دہلیز چھوڑتے وقت رویا جائے۔رخصتی کے بعد اگلے دن ولیمے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ولیمے کے لیے ہر خاص و عام کو مدعو کیا جاتا ہے اور کارڈز بہت فراخ دلی سے بانٹے جاتے ہیں مگر اس کے مقابلے میں مہمانوں کی آمد کا تخمینہ صحیح نہیں لگایا جاتا۔جب اچانک احساس ہوتا ہے کہ لوگ زیادہ آگئے ہیں اور کھانے کا انتظام تو کم ہے تو ایک مرتبہ پھر رب یاد آتا ہے اور کھانے کاانتظام کرنے کے بجائے ذکر و اذکار اور دعائوں سے کام چلانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ رب سائیں اب تو ہی عزت رکھنا۔
سب سے اہم اور سب سے ضروری بات میں نے دانستہ بچا کر رکھی تھی اور وہ یہ ہے کہ مہندی ،بارات یا ولیمے سمیت شادی کی کوئی بھی تقریب ہو،جس طرح ہم کارڈ پر یہ لکھنا نہیں بھولتے کہ پابندی وقت کو ملحوظ خاطر رکھیں اسی طرح میزبان اور مہمان دونوں کو اس بات کا اِدراک و احساس ہوتا ہے کہ تقریب درج کیے گئے وقت پر ہرگز شروع نہیں ہو گی۔اگر ولیمے کے لیے 6بجے کا وقت مقرر کیا گیا ہے کہ خود منتظمین بھی سات بجے سے پہلے ہال میں پہنچنے کا تکلف گوارا نہیں کرتے۔9بجے نوبیاہتا دلہن پارلر سے تیار ہونے کے بعد تشریف لاتی ہے اور 9:30بجے روٹی کھل جاتی ہے کیونکہ 10بجے ہال بند ہونا ہوتا ہے۔اگر حکومت کی طرف سے دس بجے کی پابندی نہ ہو اور پولیس کا چھاپہ پڑنے کا اندیشہ نہ ہو تو پھر پاکستانی کلچر کا صحیح اندازہ ہوتا ہے ۔