یہ بہرحال ایک خوش فہمی ہے کہ فوج کے خلاف کسی کاوش پر پاکستانی قوم میاں محمد نواز شریف یا آصف علی زرداری ایسے لیڈروں کی مدد کر سکتی ہے۔ پاکستانی عوام کو انہوں نے کیا دیا ہے؟
تربوز کی فصل کبھی بے حساب اٹھتی ہے۔ رسد اور طلب کے ابدی قانون کے تحت دام گرجاتے ہیں تو سبزی منڈی کے باہر کاشتکار ٹرک چھوڑ کر فرار ہو جاتے ہیں۔ ٹی وی چینلوںکے طفیل ، دانشوروں کی ایسی ہی بھرمار ہوئی ہے ”کاتا اور لے دوڑی‘‘ والے۔ایک سادہ اور سرسری سے خیال کو وہ تھام لیتے ہیں۔ صبح سے شام تک اس کی جگالی کرتے رہتے ہیں۔
ترکی میں بغاوت برپا کرنے کی کوشش پردانشور بروئے کار آئے۔ فکر و نظر کے ایسے ایسے چراغ جلائے کہ سننے والے دنگ رہ گئے۔ کچھ نے اشارے کنائے اور کچھ نے صاف الفاظ میں کہا کہ پاکستانی عوام کو بھی فوج کی ایسی ہی مزاحمت کرنی چاہیے۔ سرکاری لیڈروں نے موقع غنیمت جانا اور جمہوریت کا راگ الاپنا شروع کیا۔ اس کی تقدیس اور عظمت کا۔
وزیر اعظم نواز شریف نے فرمایا: تاریک قوتوں نے جمہوریت کی بساط لپیٹنے کی کوشش کی۔وزیر اطلاعات شیخ رشید نے سینہ کوبی کی کہ پاکستانی عوام کو چار بار مارشل لاء کا سامنا کرنا پڑا۔
ہمارے لیڈر قوم کے کمزور حافظے پر انحصار کرتے ہیں۔ بار بار اور برسوں تک عوام کو انہوں نے دھوکہ دیا ہے۔ اب یہ خیال ان میں راسخ ہو چکا کہ جب چاہیںانہیں وہ اُلّو بنا سکتے ہیں۔ کوئی ہوش مند آدمی فوجی حکومت کی حمایت نہیں کر سکتا۔ اگر یہ معاشرے کو ثمربار کرنے والا نسخہ ہوتا تو دنیا کی کوئی اور قوم بھی اس کو اختیار کرتی۔ مشتاق احمد گورمانی مرحوم نے کہا تھا: ”لوہے کا یہ حق تسلیم نہیں کیا جا سکتا کہ وہ انسانوں پر حکومت کرے‘‘ ۔ترقی اور خوشحالی کا انحصار سیاسی استحکام پر ہوتا ہے۔ مارشل لاء نہیں ہوتا؛چہ جائیکہ کہ وہ کسی قوم کے فروغ اور بالیدگی کا باعث بنے۔
پہلا مارشل لاء نافذ ہوا تو پرویز رشید کے قائد ذوالفقار علی بھٹو اس کا حصہ بنے اور آٹھ برس تک فوجی آمر کے نفس ناطقہ بنے رہے۔ سکندر مرزا کی کابینہ میں شامل تھے۔ ایک خط میں انہیں لکھا کہ وہ قائد اعظم سے بڑے لیڈر ہیں۔ فوراً بعد فیلڈ مارشل ایوب خان کے عاشق ہو گئے۔ انہیں ایشیا کا ڈیگال اور عصر حاضر کا صلاح الدین ایوبی کہا کرتے۔ فوج کی چھتری تلے بنائی گئی کنونشن لیگ کے وہ سیکرٹری جنرل تھے۔ 1964ء میں محترمہ فاطمہ جناح کے خلاف فوجی صدر کے متبادل امیدوار۔ وہ ان کے بی ڈی نظام کے مدح خواں تھے اور اس وقت تک رہے، جب تک ایوب خان ان سے ناراض نہ ہو گئے۔یحییٰ خان والے مارشل لاء کی سازش میں بالواسطہ طور پر بھٹو شریک تھے۔
جنرل محمد ضیاء الحق کے مارشل لاء کی پرویز رشید کے ممدوح نے مخالفت کی۔ اس لیے نہیں کہ جمہوریت انہیں عزیز تھی بلکہ اس لیے کہ اقتدار سے وہ محروم ہو گئے تھے۔دل و جان سے جمہوریت کے قائل ہوتے تو فیلڈ مارشل کی ڈٹ کر حمایت کیوں کرتے؟ بلوچستان پر فوج کشی کیوں فرماتے‘ ایف ایس ایف کے نام سے ذاتی لشکر کیوں استوار کرتے؟ آزاد کشمیر کے منتخب صدر، سردار عبدالقیوم کو اقتدار سے الگ کر کے جیل میں کیوں ڈالتے؟
12 اکتوبر 1999ء کو جنرل پرویز مشرف کے اقدام سے قبل، میاں محمد نواز شریف ہر ایک مارشل لاء کے حامی رہے۔ اگرچہ سیاست میں ان کا خاندان سرگرم نہ تھا، شریف خاندان سے رہ و رسم رکھنے والے جانتے ہیں کہ فیلڈ مارشل کے وہ مداح تھے، اس وقت تک یحییٰ خان کے بھی، جب ملک ٹوٹنے کے بعد ساری قوم ان سے نفرت نہ کرنے لگی۔ جنرل محمد ضیاء الحق کے تو وہ دستِ راست تھے‘ بلکہ ان کے نائب جنرل جیلانی کے۔ جنرلوں کی خوشنودی سے وہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ بنے اور انہی کی سرپرستی میں وزیر اعظم۔ 1989ء میں ان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہو جاتی، اگر آئی ایس آئی ان کی پشت پناہی نہ کرتی۔ 1990ء میں آنجناب کی انتخابی مہم میں اتنا اہم کردار ان کے سیاسی رفقاء کا نہ تھا، جتنا فوجی قیادت اور اس کی خوشنودی کے طالب، چندے کے انبار لگانے والوں کے کاروباری طبقات کا، جو پیپلز پارٹی سے نفرت کرتے تھے۔ پیپلزپارٹی کے پرویز رشید ‘جہانگیر بدر شاہ عالم مارکیٹ گئے تو تاجروں کی انجمن نے انہیں دس لاکھ روپے پر ٹرخا دیا۔ نون لیگ سے انہوں نے خود رابطہ کیا اور سترلاکھ کی خطیر رقم پیش کی۔ شاہ عالم مارکیٹ پر کیا موقوف، ملک بھر کے تاجر اور صنعت کار ان کے پیچھے صف باندھ کر کھڑے تھے۔ وہی کیا، اسامہ بن لادن بھی۔ خالد خواجہ مرحوم کے بقول مدینہ منورہ کے گرین ہوٹل میں، میاں صاحب سے ملاقات کرنے والے اسامہ نے بھی 1989ء اور 1990ء میں انہیں ڈیڑھ ارب روپے کے عطیات دیئے۔ تب افغان مجاہدین کے وہ پرجوش حامی تھے۔ جنرل پرویز مشرف کے مارشل لاء کی نذر ہوئے تو فوج کے مخالف ہو گئے، وگرنہ وزیر اعظم کی حیثیت سے ہر سال وہ جنرل محمد ضیاء الحق کے مزار پر جاتے اور ان کا مشن مکمل کرنے کا اعلان کیا کرتے۔ جنرل محمد ضیاء الحق کون تھے اور ان کا مشن کیا تھا؟
پاکستان اور ترکی کے حالات کا کیا موازنہ۔ بجا کہ ترکی کے اسلام پرستوں نے بھی پہاڑ جیسی غلطیاں کیں، خاص طور پر طیب اردوان نے، سعودی عرب کی طرح جنہوں نے داعش کی مدد کی اور ایک عفریت کو جنم دیا۔ کرپشن کے ان پر الزامات ہیں اور اس سے بھی زیادہ اپوزیشن کا ناطقہ بند کرنے اور پڑوسی ممالک میں مداخلت کے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ انہوں نے ایک بادشاہ سلامت بننے کی کوشش کی۔ دوبار وزیر اعظم بنے اور پھر آئین میں تبدیلی لا کر زیادہ تر اختیارات ایوانِ صدر کو منتقل کر دیئے، جب انہوں نے یہ منصب سنبھالنے کا فیصلہ کیا۔
سب سے بڑی اور غالب حقیقت مگر یہ ہے کہ اسلام پرستوں کے اقتدار میں ترکی نے تیزی سے ترقی کی۔ دو تین برس پہلے تک وہ دنیا کی دوسری سب سے زیادہ تیزی کے ساتھ ترقی کرتی معیشت تھی۔ طاقت گمراہ کرتی ہے اور پوری طاقت مکمل طور پر۔ طیب اردوان بھی اس سے محفوظ نہ رہ سکے۔ جمہوریت کے بھی وہ کوئی بڑے عاشق زار نہیں۔ الیکشن 2008ء کے ہنگام وہ پاکستان تشریف لائے۔ عمران خان اور جماعت اسلامی کے لیڈروں کو انہوں نے جنرل پرویز مشرف کے ڈنڈے تلے ہونے والے انتخابات میں شرکت کے لیے قائل کرنے کی کوشش کی۔ یہ کوشش ناکام رہی‘ جن کا مقصد قاف لیگ کو اقتدار سونپنا تھا۔
بغاوت کی ناکامی کا سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ پوری ترک فوج کی نہیں، صرف چند ہزار فوجیوں کی حمایت اسے حاصل تھی۔ سب سے زیادہ یہ کہ طیب اردوان کے 13سالہ اقتدار میں عوام کی زندگیاں بدل گئیں۔ نام نہاد سیکولر حکومت میں حال یہ تھا کہ ہفتے بھر کی ضروریات خریدنے کے لیے تھیلا بھر کر نوٹ لے جائے جاتے۔ آج ترکی لیرا دنیا کی مضبوط ترین کرنسیوں میں سے ایک ہے۔ اپنا مفاد اور اپنی عزت کسے عزیز نہیں ہوتی۔ اپنی خامیوں، خرابیوں اور کوتاہیوں کے باوجود ترک جمہوریت نے اپنی قوم کے دکھوں کا مداوا کیا۔ عراق پر اتحادی حملے کے ہنگام نیٹو افواج نے ترک سرزمین استعمال کرنے کی کوشش کی تو ناکام بنا دی گئی۔ قومی خودداری پر انہوں نے کبھی سمجھوتہ نہ کیا۔ بالکل برعکس وزیر اعظم پاکستان پر الزام ہے کہ دشمن بھارت کے لیے وہ نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ نریندر مودی کی تقریب حلف وفاداری میں شرکت کرنے گئے تو بھارتی میڈیا کی پاکستان دشمن شخصیات اور بھارتی تاجروں سے ملاقاتیں کیں۔ ہائی کمیشن کو مطلع کیے بغیر۔ ان میں ایک سجن جندال نے بعد ازاں کھٹمنڈو میں بھارتی وزیر اعظم سے ان کی خفیہ ملاقات کا اہتمام کیا۔ لندن میں چالیس روزہ قیام کے دوران جس واحد ممتاز غیر ملکی نے ان سے ملاقات کی، اس کا نام حامد کرزئی ہے… اور حامد کرزئی کی بنیادی پہچان پاکستان دشمنی ہے۔ پاکستان دشمنی اور بھارت دوستی ۔
مارشل لاء ہرگز نہ لگنا چاہیے۔ بار بار کے تجربات سے واضح ہو چکا کہ فوج جو کچھ تعمیر کرتی ہے بالآخر وہ تباہ ہو جاتا ہے۔ ملکوں اور قوموں کے استحکام اور فروغ کا انحصار سول اداروں پہ ہوتا ہے، فوج کی قوت و حشمت پر نہیں، خواہ اس نے کتنے ہی عظیم کارنامے انجام دیئے ہوں۔
یہ بہرحال ایک خوش فہمی ہے کہ فوج کے خلاف کسی کاوش پر پاکستانی قوم میاں محمد نواز شریف یا آصف علی زرداری ایسے لیڈروں کی مدد کر سکتی ہے۔ پاکستانی عوام کو انہوں نے کیا دیا ہے؟