پاکستانی فیمینزم اور انڈے سے نکلا ہوا چوزہ…حسنین جمال
کبھی کبھی قسمت ہوا کے ایک ایسے تیز بگولے کی طرح تمارے پیچھے بھاگ رہی ہوتی ہے جو ہر دو گھڑی بعد اپنی ڈائریکشن بدل سکتا ہے۔ تم کسی اور سمت میں جانا چاہو، ہوا کا بگولہ وہاں تمہارے پیچھے بھاگتا ہے، تم دوبارہ مڑ جاؤ، کسی اور طرف بھاگنا چاہو، بگولہ بھی وہیں مڑ جاتا ہے۔ تم بار بار اس گھمن گھیری سے نکلنے کی کوشش کرو، وہ ہر بار تمہیں اپنے اندر پھنسا کر گھومنے پہ مجبور کر دیتا ہے۔ کیوں؟ کیوں کہ یہ بگولہ تم سے ملنے کوئی بہت دور سے نہیں آ رہا ہوتا، یہ ادھری ہوتا ہے ، یہیں، یہ تمہاری پیشانی کو جکڑے ہوتا ہے ، یہ تمہارے اندر ہوتا ہے ، یہ تمہارے عین باہر ہوتا ہے اور تمہیں اس کے حصار میں پھنسے رہنا ہوتا ہے ۔ تمہارے پاس کرنے کو ہوتا بھی کیا ہے ؟ موراکامی کہتا ہے کہ بجائے خوفزدہ ہونے کے اور ادھر ادھر ہاتھ پاؤں مارنے کے ، تمہیں ایک کام کرنا ہو گا۔ تم اپنی آنکھیں بند کرو، کانوں پہ ہاتھ رکھو اور چپ کر کے شرافت سے اس کے اندر کود جائو، اپنا آپ اسے سونپ دو۔ اندر کوئی دھوپ نہیں ہو گی، کوئی چاندنی بھی نہیں ہو سکتی، کوئی سمت نہیں ہو گی اور نہ ہی وقت کا کوئی احساس ہو گا۔ ہاں شاید وہاں ریت یا مٹی کے چھوٹے اور باریک ترین ذرے ہوں، ہم سے پہلے پھنسے لوگوں کی پریشانیوں کے چھوٹے چھوٹے ریشے ہوں اور تھوڑی بے آرامی ہو، اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہو سکتا۔ لیکن تم اگر ایک عورت ہو تو تم اتنا سا کام بھی اپنی مرضی سے نہیں کر سکتی۔ ایک چھلانگ بھی نہیں لگا سکتی، تمہیں باندھا جاتا ہے اور بگولے کے سپرد کر دیا جاتا ہے ۔ یہاں میری بیٹی، اس جگہ، بالکل یہیں پھر فیمینزم یاد آتا ہے۔
”بابا آپ فیمینسٹ (عورتوں کے برابر حقوق کا حامی) ہیں نا؟‘‘ آئلہ نے سوال پوچھا تو میں نے اوپر والی لمبی تقریر نہیں کی (کرنا چاہتا تھا) صرف سر ہلا دیا۔ ”میں نہیں ہوں بابا، مجھے ہر وقت یہ سب اچھا نہیں لگتا۔ مطلب عورتیں جو مرضی کہتی رہیں، جب دل چاہے کسی بھی بات پہ رولا ڈال دیں؟‘‘ بیٹا تم اس لیے نہیں ہو کہ تمہارا باپ ایک طرح کا فیمینسٹ ہے ۔ اس نے تم پہ وہ پابندیاں کبھی نہیں لگائیں جو ہر روایتی خاندان میں لگتی ہیں۔ تم اپنی مرضی سے ہنس سکتی ہو، دوستوں سے مل سکتی ہو، فلمیں ڈرامے دیکھ سکتی ہو، چوّی گھینٹے سوشل میڈیا (ایکسیپٹ انسٹا گرام) پہ لُچ تل سکتی ہو، گا سکتی ہو، ڈانس تمہیں آتا نہیں ورنہ وہ بھی کر سکتی ہو، کچھ بھی پڑھ سکتی ہو، شکلیں پینٹ کر سکتی ہو، کچھ بھی پوچھ سکتی ہو، مجھ سے اور ماں سے برابری کی سطح پہ بات کر سکتی ہو تو کیوں تمہیں فیمینزم اچھا لگے گا؟ فیمینزم ان کے لیے ہوتا ہے جو اس معاملے میں ”ہیو ناٹس‘‘ ہیں۔ جن کی سانسوں پہ بھی پہرا ہوتا ہے، جو گھر کی کھڑکی اپنی مرضی سے نہیں کھول سکتیں، جو دروازے پہ جانے سے بہتر سمجھتی ہیں کہ کمرے میں رہا جائے ، جنہیں دن رات کم ترین ہونے کے سبق ہر حوالے سے پڑھائے جاتے ہیں، جن کے نزدیک مرد سے کم تر ہونا معاشرتی جہالت کے بجائے عقیدہ ہوتا ہے ، اگر تھوڑا علم حاصل کر لیں تو پاکستانی معاشرے میں وہ اس سب سے تنگ آ کے بالآخر ایک دن فیمینزم کا سہارا لیتی ہیں‘ اور ان کا فیمینزم وہ نہیں ہوتا جو تمہیں ایما واٹسن یا دیپیکا پڈوکون یا پریانکا چوپڑا یا جسٹن ٹروڈو سکھاتا ہے ، ان کا فیمینزم تو میرے بچے اپنے لیے کوئی بھی حق حاصل کرنے کی پہلی سیڑھی ہوتا ہے۔
ٹو کٹ دا لانگ کریپ شارٹ، فیمینزم کہتا ہے کہ عورت کی پرسنیلیٹی ہر حوالے سے مرد کی ذات سے الگ ایک مکمل چیز ہے ، اسے ویسے ہی دیکھا جائے اور سمجھا جائے ۔ دیکھو تمہیں بتایا جاتا ہے کہ عورت کمزور ہے ، نرم و نازک ہے ، لیکن وہی عورت آج کل تپتی گرمیوں میں روزہ رکھ کے میاں کی افطاری سے دو گھنٹے پہلے چولہے پہ کھڑی ہوتی ہے تو اس سے زیادہ بہادر کون لگ سکتا ہے ؟ کون مرد جائے گا اور ہولناک گرمی میں ایسے خوار ہونا پسند کرے گا؟ تمہیں افسانوں ڈراموں میں بتایا جاتا ہے کہ سوتیلی ماں ظالم ہوتی ہے ، سوتیلا باپ بھلا کیوں ظالم نہیں ہو سکتا؟ ساس ہمیشہ دنیا جہان کی بری ترین عورت پیش کی جاتی ہے ، سسر کیوں نہیں ہو سکتا؟ آج تک کسی ناول میں دیور نے ایسا کوئی ظلم کیا ہے جس قسم کے نندیں پہاڑ توڑتی ہیں؟ چلو یہ سب بھی چھوڑ دو بیٹی، اصل موضوع پہ آ جاؤ۔ اس میدان میں آؤ جس کے لیے یہ سارا کھڑاگ اٹھایا گیا ہے۔
جب ملالہ کو گولی ماری جائے اور سارا قصور بھی ملالہ کا نکلے ، جب مختاراں مائی کے ساتھ زیادتی ہو اور مجرم بھی مختاراں مائی کہلائے ، جب طیبہ کو مار مار کے اس کا حشر برا کر دیا جائے اور میڈیا جاگے تو ملزم جج اور اس کی بیوی کو صرف ایک سال قید کی سزا ملے ، جو بعد میں معطل ہو جائے اور اس کالم کے لکھتے وقت تک معطل ہی ہو، جب ایک گانے والی کو اس لیے گولی مار دی جائے کہ وہ پریگننٹ ہے اور کھڑے ہو کے گا نہیں سکتی، جب قندیل بلوچ کو اس لیے مار دیا جائے کہ وہ نکھٹو بھائی کی سو کالڈ غیرت کے لیے للکارتا ہوا سوال بن گئی ہو، جہاں برطانیہ سے بلا کے سمیعہ شاہد کو اس کے اپنے ہی باپ نے مار دیا ہو (ایک باپ اپنی بیٹی کو جان سے مارتے ہوئے کیا سوچ رہا ہوتا ہو گا؟) جرمنی سے بلا کے ڈاکٹر عظمیٰ کو اس کے شوہر نے قتل کر دیا ہو، چھبیس سال کی ثنا چیمہ کو گلا دبا کے مارا گیا ہو، کوہاٹ والی عاصمہ رانی کی لاش آج تک انصاف کی طلبگار ہو، 19 سال کی فرح کو اٹلی سے پاکستان لا کے اس کا ابارشن کروایا گیا ہو (اس کے ایک عورت پہ کیا اثرات ہو سکتے ہیں، بال برابر آئیڈیا بھی ہم میں سے کسی کو نہیں ہو سکتا، اس سے پوچھیں جس غریب نے بھگتا ہو!) اور بیٹا جب خدیجہ خنجروں کے ان گنت وار سہنے سے بچ جائے اور وہ انصاف کے لیے ایک کونے سے دوسرے کونے تک دوڑتی پھرے اور ملزم مکھن میں سے بال کی طرح صاف نکل جائے تو پھر بندہ کہتا ہے کہ یار کچھ نہیں کر سکتے تو بے غیرت ہو کے مرنے سے بہتر ہے فیمینسٹ ہو کے زندہ رہ لو، یہی تمہارے باپ کی غیرت ہے ، یہی اس کے نزدیک بہتر راستہ ہے ۔ وہ راستہ جس پہ چلتے ہوئے تم سمیت ملک بھر کی بچیوں، لڑکیوں، عورتوں کو شاید کبھی، کئی سو سال بعد آزادی سے ، عزت سے ، سر اٹھا کے ، برابری کی سطح پہ سانس لینے کا حق مل سکے۔
اپنا دیسی فیمینزم تو بس اتنا سا ہے بچے ۔ ولایت والے جانیں جو ان کے مسائل ہیں، وہ تو پیدا ہی اس وقت ہوتے ہیں جب عورت کی آزادی کے سات آسمان طے ہو گئے ہوں اور آٹھویں پہ قدم رکھنے کے لیے جستجو کی جائے ، کوشش کی جائے ۔ جہاں حال ایسا ہو کہ سالم عورت کا وجود کھٹکتا ہو، اشتہاروں میں اس کی تصویر پہ کالک ملی جاتی ہو، گھروں میں وہ مشین سمجھی جائے ، دفتروں میں برابر کام کرے اور تنخواہ کم لے ، بازار میں گاڑی والے اس کے عین پیچھے جا کے ہارن مارنا اپنا بنیادی تفریحی حق سمجھتے ہوں، اکیلی سڑک پہ جائے تو اسے دیکھ کے اس کے پاس جا کر چلتی موٹر سائیکل روک کے آوارہ گفتگو کی جائے اور پاس سے ٹریفک ایسے گزرتی رہے جیسے یہ معمول ہو، سیاسی جلسوں میں آئے تو لوگوں کی دل لگی بنے … تو ادھر کا فیمینزم بس انڈے سے نکلے ایک چوزے جتنے حقوق مانگتا ہے بیٹا، انصاف مانگتا ہے ، پورے پاکستان کی بیٹیوں کے حق کی بھیک کا کشکول اٹھائے کھڑا ہوتا ہے ۔ جو دے جائے اس کا بھلا جو نہ دے تو اس کی ایسی کی تیسی