گزشتہ روز سعودی عرب کا 88واں قومی دن منایا گیا۔ مختلف عرب ممالک میں سعودی عرب کے قومی دن کو نمایاں کرنے اور سعودی قوم کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے سرگرمیاں دیکھنے میں آئیں۔ کویت، متحدہ عرب امارات اور مصر میں بھی سعودی عرب کے قومی دن کی جھلکیاں دیکھنے کو ملیں۔ مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں واقع ‘قاہرہ ٹاور‘ کو سعودی عرب کے قومی پرچم کے سبز رنگ کی مناسبت سے سبز رنگ میں مزین کیا گیا تھا۔ قاہرہ ٹاور کو مصر کے دارالحکومت کے اہم ترین سیاحتی مقامات اور لینڈ مارک کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ یہ ٹاور 1961ء میں دریائے نیل کے کنارے پر تعمیر کیا گیا۔ اس ٹاور کی اونچائی 187 میٹر ہے اور اس کی چوٹی سے قاہرہ کے بیشتر حصے کا نظارہ کیا جا سکتا ہے۔ گزشتہ روز وزیر اعظم عمران خان نے سعودی عرب کے قومی دن پر پیغام دیا کہ سعودی عرب کی مضبوطی عالمِ اسلام کی مضبوطی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سعودی عرب کی ترقی ہر پاکستانی کے دل کی آواز ہے‘ ہر مشکل گھڑی میں سعودی عرب نے پاکستان کا ساتھ دیا اور پاکستانی عوام اِس جذبے کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
سعودی عرب تعلیم کے میدان میں بھی تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔ سعودی عرب کی جامعات اور تعلیمی ادارے اعلیٰ تعلیمی معیار کے حامل ہیں۔ اس کی سب سے معروف یونیورسٹی شاہ فہد یونیورسٹی ہے۔ یہ سعودی عرب کے شہر دھران میں واقع ایک سرکاری یونیورسٹی ہے۔ سعودی عرب کی یونیورسٹیوں میں سے یہ اپنے انجینئرنگ اور سائنسی شعبہ جات کی تعلیم کے لیے بہت مشہور ہے۔ یہ دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں میں یہ 200ویں نمبر پر ہے۔ یہ مشرق وسطیٰ کی ایم آئی ٹی کے نام سے مشہور ہے۔ شاہ عبدالعزیز یونیورسٹی کا شمار میں بھی سعودی عرب کی بہترین جامعات میں ہوتا ہے۔ جدہ میں واقع ہے۔ یہ 1967ء میں قائم ہوئی۔ اس میں ڈاکٹریٹ طلبا کی تعداد نو سو جبکہ پوسٹ گریجوایٹ دو ہزار کے قریب ہیں۔ سعودی عرب میں کھانوں کا انداز بھی مختلف ہے۔ سعودی روٹی خبز کا تقریباً تمام کھانوں میں استعمال کیا جاتا ہے ۔ بھنی ہوئی بھیڑ، مرغی، فلافل، شورمہ اور فول بھی دیگر مشہور کھانوں میں شامل ہیں۔ روایتی قہوہ خانے ہر جگہ موجود ہیں تاہم اب ان کی جگہ بڑے کیفے لے رہے ہیں۔ بغیر دودھ کی سیاہ عربی چائے کا استعمال ہر جگہ کیا جاتا ہے۔ ہفتہ وار تعطیل جمعہ کو ہوتی ہے۔ اسلامی سال کے آغاز پر یکم محرم کو تعطیل ہوتی ہے۔ عیدین کے علاوہ یکم رمضان‘ معراج شریف اور بارہ ربیع الاول کو بھی تعطیل ہوتی ہے۔ سعودی عرب میں شماریات کے قومی ادارے کے مطابق مملکت کی مجموعی آبادی 3 کروڑ 25 لاکھ 52 ہزار 336 افراد ریکارڈ کی گئی ہے۔ سعودی سرکاری خبر رساں ایجنسی کے مطابق 2016ء کے آبادیاتی سروے کے مقابلے میں 2017ء کی مردم شماری میں آبادی کی سالانہ شرح نمو 2.52 فیصد رہی۔ مجموعی آبادی میں مردوں کا تناسب 57.48 فیصد اور خواتین کا 42.52 فیصدہے۔ مردم شماری کے نتائج کے مطابق مجموعی آبادی میں سعودی باشندوں کی تعداد2 کروڑ 64 لاکھ 970 ہے۔ سعودی باشندوں میں جنس کی تقسیم کے لحاظ سے مردوں کا تناسب 50.94 فیصد اور خواتین کا 49.06 فیصد ہے ۔ سعودی عرب شاید دنیا کا واحد ملک ہے جہاں تیل پانی سے بھی سستا ہے۔ سعودی شہری گاڑیوں کے بہت شوقین ہیں۔ یہاں کی آبادی سوا تین کروڑ لیکن گاڑیاں چھ کروڑ سے بھی زائد ہیں۔ بابرکت پانی زم زم پورے مکہ اور پورے سعودی عرب میں استعمال ہوتا ہے اور پوری دنیا میں جاتا ہے لیکن آج تک کم نہیں ہوا۔ مکہ کے اندر کبھی باہمی جھگڑا نہیں ہوتا۔ چوری چکاری کے واقعات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ لوگ سونے کی دکانیں کھلی چھوڑ کر نمازیں پڑھنے چلے جاتے ہیں۔ یہاں دو سو سے زائد قسموں کی کھجور پیدا ہوتی ہے۔ گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ نے اس سال جدہ میں سعودی عرب کی نیشنل واٹر کمپنی کے پینے کے صاف پانی کے آبی ذخیرے کو دنیا کا سب سے بڑا آبی ذخیرہ قرار دیا ہے۔ اس کی استعداد بیس لاکھ کیوبک میٹر ہے۔ یہاں زیادہ تر اشیا درآمد کی جاتی ہیں لیکن پھر بھی سستی فروخت ہوتی ہیں۔ یہاں ترقیاتی کام کے لئے حکومت جو پیسہ دیتی ہے اس کی ایک ایک پائی صحیح جگہ خرچ کی جاتی ہے۔ یہاں کے ریسٹورنٹ البیک میں مزیدار چکن روسٹ دنیا کی ملٹی نیشنل ریسٹورنٹ سے زیادہ فروخت ہوتا ہے۔ مکہ پہاڑی علاقہ ہے پھر بھی چار سے لے کر بارہ لائنوں تک کی چوڑی سڑکیں موجود ہیں۔ یہاں کوئی سرسوں کے تیل کو نہیں پوچھتا بلکہ سورج مکھی اور مکئی کا تیل زیادہ استعمال ہوتا ہے۔ یہاں ہریالی اور سبزہ انتہائی کم ہے لیکن پھر بھی سموگ کا کوئی وجود ہے نہ ہی سانس لینے میں کوئی دشواری ہوتی ہے۔ مکہ میں بجلی کی تمام لائنیں زیر زمین ہیں۔ یہاں حکومت ہر پڑھنے والے بچے کو چھ سو سے آٹھ سو ریال ماہانہ دیتی ہے۔ حفظ کرنے والے بچوں کی خاص قدر کی جاتی ہے اور اچھے قاری اور حافظ بچوں کو پی ایچ ڈی اساتذہ کے برابر وظیفہ دیا جاتا ہے۔ خواتین کو گاڑی چلانے کی اجازت ملنے کے بعد کئی خواتین نے ہوائی جہاز اڑانا سیکھنے کے لئے بھی درخواست دے دی ہے۔ پہلی مرتبہ سینما گھر کھولے گئے ہیں جہاں پاکستانی فلموں کی بھی نمائش متوقع ہے۔ ماضی میں فٹ بال سٹیڈیم میں خواتین کو جانے کی اجازت نہیں تھی۔ یہ پابندی ختم کر دی گئی ہے۔
اس سے قطع نظر کہ پاکستان میں کس کی حکومت ہے‘ پاکستان اور سعودی عرب کے مابین دوستی ہر آنے والے دور میں مضبوط تر ہوتی چلی گئی۔ تحریک انصاف کی حکومت پہلی مرتبہ اقتدار میں آئی تو نئے وزیر اعظم عمران خان نے بھی اقتدار سنبھالتے ہی ہمسایہ ممالک اور دیگر عالمی دنیا کے ساتھ بہتر تعلقات استوار کرنے پر زور دیا۔ انہوں نے بھارت کو بھی مذاکرات کی دعوت دی اور تمام مسائل مل بیٹھ کر حل کرنے کا عندیہ دیا۔ ابتدا میں بھارت کی طرف سے اس کا مثبت جواب آیا لیکن بد قسمتی سے بھارت کی دُم ٹیڑھی کی ٹیڑھی رہی۔ اس کے فوجی کمانڈر کی طرف سے پاکستان پر حملے کی گیدڑ بھبکیاں سامنے آئیں تو اس کی اصلیت ایک مرتبہ کھل کر سامنے آ گئی۔ طاقت کے نشے میں چُور بھارت کو ابھی تک یہ معلوم ہی نہیں ہو سکا کہ پاکستان کو ئی تر نوالہ نہیں کہ جسے جب چاہے حملہ کر کے نوچ دیا جائے۔ اس سے قبل بھی بھارتی سورمائوں کی طرف سے ایسے احمقانہ بیانات سامنے آتے رہے ہیں لیکن پاکستان کی طرف سے بروقت اور توانا جواب آنے کے بعد بھارت کی سٹی گم ہو جاتی ہے اور وہ واپس اپنے بل میں چلا جاتا ہے۔ سعودی عرب وہ پہلا ملک تھا جس کا وزیر اعظم عمران خان نے پہلا دورہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس سے دونوں ممالک کے درمیان گہری دوستی کی علامتیں ظاہر ہوتی ہیں۔ سعودی عرب کے قومی دن سے دو روز قبل وزیر اعظم عمران خان نے سعودی عرب کا دو روزہ دورہ مکمل کیا۔ انہوں نے سعودی فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز اور ولی عہد محمد بن سلمان سے ملاقاتیں کیں۔ سعودی عرب کا کہنا تھا کہ وہ پاکستان کو اسلامی اصولوں پر فلاحی ریاست بنانے کے لیے جس قدر ہو سکے گا‘ نئی حکومت کی معاونت کرے گا۔ سعودی حکام نے وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے ملک کو سماجی اور معاشی طور پر اسلامی اصولوں کے مطابق فلاحی ریاست بنانے کے خواب کی تعریف کی اور یقین دہانی کرائی کہ سعودی لیڈرشپ اس کے لیے پاکستان کی جس حد تک ہو سکے گا مدد کرے گی۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ ‘ہماری حمایت سعودی عرب کے ساتھ ہے۔ ہم یہ بھی چاہتے ہیں کہ مسلم دنیا میں کہیں بھی کوئی تنازع یا لڑائی نہیں ہونی چاہیے۔ پہلے ہی لیبیا، صومالیہ، شام، افغانستان میں لڑائیاں جاری ہیں۔ مسلم دنیا میں لڑائیاں ہم سب کو کمزور کر رہی ہیں۔ پاکستان ان لڑائیوں کی آگ کو مفاہمت کے ذریعے بجھانے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہتا ہے۔ عمران خان کے اس دورے سے دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات کو بہت تقویت ملی ہے جو دونوں ملک کے عوام کے لئے انتہائی فائدہ مند ہے۔
سعودی عرب میں بھی تبدیلی کی لہر چل پڑی ہے۔ گزشتہ دنوں بہت سے شہزادوں کو کرپشن کے الزام میں نظر بند کیا گیا تھا اور اربوں ڈالر وصول کر کے ہی چھوڑا گیا۔ ایک تبدیلی پاکستان میں آ چکی ہے۔ پاکستانی عوام بھی سعودی طرز کے احتساب کے منتظر ہیں۔یہاں بھی کرپٹ لوگوں کو ہوٹلوں میں ڈال کر ان سے پیسہ وصول کرنا چاہیے۔ قانونی پیچیدگیوں کا فائدہ اٹھا کر بڑے مگر مچھ ہاتھ سے چھوٹ جاتے ہیں۔ یہ سلسلہ ختم اور اصل مقصد دولت کی فوری واپسی ہونا چاہیے۔ اس حوالے سے پاکستان کو سعودی عرب سے سیکھنا چاہیے تاکہ کرپشن کی دولت واپس لائی جا سک