منتخب کردہ کالم

پاکستان اور معروضی حقائق…….اقبال خورشید

اکتوبر آ گیا، مگر شہر ہنوز گرمی کی گرفت میں ہے۔
ایسے ہی ایک گرم دن آرمی چیف، قمر جاوید باجوہ نے کراچی میں معیشت اور قومی سلامتی کے موضوع پر منعقدہ سیمینار میں بڑھتے قرضوں پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔ اور جب ڈی جی آئی ایس پی آر، میجر جنرل آصف غفور نے جامعہ کراچی میں کہا کہ مسلمان ہونے کے لیے نعرے لگانا ضروری نہیں، تب بھی شہر کی سڑکیں گرمی کی شدت سے سنسان تھیں۔
کراچی میں کچھ عرصے سے سناٹا ہے۔ سیاست ادھر جمود کا شکار ہے۔ پیپلز پارٹی سے خیر کی کیا امید کہ اِسے شہرِ قائد سے غرض نہیں۔ پورا سندھ نہیں، بس لاڑکانہ اور خیر پور کو دیکھ لیں۔ جو علاقے اِس کا ووٹ بینک ہیں، اِن نو برسوں میں وہاں کون سا انقلاب آ گیا۔ ایم کیو ایم نے اگر ماضی میں کچھ ڈلیور کیا بھی تو تشدد کے داغ نے اِس کی کارکردگی کو گہنا دیا۔ اب یہ جماعت ٹکڑوں میں بٹی ہے۔ ممکن ہے، 2018ء کے انتخابات میں ایم کیو ایم لندن سے جوجھنے کو پی ایس پی، آفاق احمد اور فاروق ستار گروپ الائنس بنا لیں، مگر فی الحال فقط بیانات ہیں اور وہ بھی روایتی۔ میئر کا اختیارات نہ ہونے کا شکوہ اور مصطفی کمال کا اپنے سابق قائد پر غداری کا الزام کثرت سے دہرائے جانے کے باعث اپنی خبریت کھو چکے ہیں۔ تحریکِ انصاف اور ن لیگ نے کراچی کی طرف نظر فرمانا تک گوارا نہیں کیا۔ شاید یہ راکھ ہو چکا ہوتا، اگر قیام امن کے لیے جامع اور مربوط فوجی آپریشن شروع نہ ہوتا۔ ایسا آپریشن، جو ماضی کے آپریشنوں سے مختلف تھا۔ ٹہنیاں نہیں، جڑیں کاٹی گئیں۔ بے شک ہر آپریشن کی طرح اس پر بھی اعتراضات ہوئے، انسانی حقوق کی تنظیموں نے تحفظات کا اظہار کیا، مگر اِسی کے وسیلے کچھ امن قائم ہوا، کراچی کی معیشت کچھ مستحکم ہوئی، بزنس کمیونٹی کو ریلیف ملا۔ یہی بزنس کمیونٹی گزشتہ دنوں آئی ایس پی آر اور ایف پی سی سی آئی کے تحت ہونے والے سیمینار میں آرمی چیف کی سامع تھی۔
گو کراچی کے سیاسی منظر پر جمود کی دھند ہے، مگر پنجاب میں، ہمیشہ کی طرح بھرپور ہلچل ہے، جو کہیں کہیں خطرے کی حد عبور کرتی معلوم ہوتی ہے۔ جمہوریت کا نعرہ بلند ہوا ہے۔ علم ن لیگ کے ہاتھ میں ہے۔ کیا یہ جدوجہد واقعی جمہوریت کی بقا کے لیے ہے یا ذاتی مفاد اِس کا محور ہے؟ وقت جلد فیصلہ سنا دے گا۔
جمہوریت بے شک بہترین نظام ہے۔ ملک چلانے کا اختیار سول ڈھانچے ہی کا ہونا چاہیے، لیکن اگر اس ڈھانچے کو کرپشن کا کیڑا لگ جائے، تو نظام کی پوری عمارت ڈھے جاتی ہے۔ اصول الگ شے ہے، حقائق الگ شے۔ امریکا سمیت جو ممالک دنیا بھر میں جمہوریت کے نفاذ کے ٹھیکے دار ہیں، درحقیقت اُنہی کی سازشوں کے باعث آج کئی ترقی پذیر ممالک سیاسی اور معاشی عدم استحکام کا شکار نظر آتے ہیں۔ اِس فہرست میں پاکستان بھی شامل ہے۔ ایسے ہی ”خیر خواہوں‘‘ کی وجہ سے افغانستان، عراق اور شام جنگ کی دلدل میں دھنس گئے۔ الغرض، نقص جمہوریت میں نہیں، اُس کا پاٹ پڑھانے والوں کی نیتوں میں ہے، جنہوں نے جب چاہا جمہوریت کا راگ الاپا، اور جب چاہا، ترقی پذیر ممالک میں جمہوریت کا بستر گول کیا۔ آمر لا بٹھایا۔ کیا بھٹو صاحب سے امریکا کی ناراضی کو ہم تاریخ کے صفحات سے منہا کر سکتے ہیں۔ مصر کا واقعہ تو تازہ ہے، جہاں سیسی کو امریکا کی مالی معاونت حاصل رہی۔ بشارالاسد کے مظالم ایک تلخ حقیقت ہیں، مگر اُسے کمزور کرنے کے لیے سامراجی قوتوں کا داعش کو تحفظ اور حمایت فراہم کرنا بھی کڑوا سچ ہے۔ ٹرمپ نے اپنی الیکشن مہم میں ہیلری کلنٹن پر یہی الزام لگایا تھا۔ قصہ مختصر، جمہوریت کے گن گانے والے ہی ترقی یافتہ ممالک کے سیاسی عدم استحکام کا سبب بنے۔
آج ہمارے کچھ طبقات، جو خود کو روشن خیال اور جمہوریت پسند کہہ کر متعارف کرواتے ہیں، پارلیمنٹ کی حمایت پر کمربستہ ہیں۔ اُن کی نیتوں پر شک نہیں۔ اُن کا یہ موقف بھی درست کہ وہ کسی سیاسی جماعت کی نہیں، بلکہ اصول کی حمایت کر رہے ہیں۔ البتہ کیا ہم اس حقیقت کو نظر انداز کر سکتے ہیں کہ اُن کی یہ کوششیں، براہ راست یا بالواسطہ، جن کے مفاد میں ہیں، اُنہوں نے خود جمہوریت کو مضبوط کرنے کے لیے کبھی کوئی ٹھوس اقدام نہیں کیا۔ گزشتہ دس برس میں استحکامِ پارلیمان کے لیے کیے جانے والے ”انقلابی اقدامات‘‘ کی فہرست بنا لیجیے، قلعی کھل جائے گی۔ بلدیاتی نظام ہی کا اطلاق نہ ہو سکا۔ اور کیا ہم یوسف رضا گیلانی کو نااہل کرنے کے ن لیگی مطالبے کو نظر انداز کر سکتے ہیں؟ میں بھی روشن خیال طبقے کے ساتھ جمہوریت کے حق میں آواز اٹھاتا ہوں، مگر ساتھ یہ عقیدہ بھی رکھتا ہوں کہ ہم اپنا بویا ہی کاٹتے ہیں۔ ماضی سے فرار ممکن نہیں۔
جب آپ دنیا کے سب سے زیادہ غیر مستحکم خطے میں بستے ہوں، سی پیک عالمی قوتوں کی آنکھ میں کھٹک رہا ہو، مشرق میں ہندوستان ہو، مغرب میں افغانستان، ٹرمپ کا لہجہ دھمکی آمیز ہو، جنوبی ایشیا سے متعلق امریکی پالیسی تبدیل ہو چکی ہو، سرحد پر داعش جیسا خطرہ منڈلاتا ہو اور اندرون ملک سیاست اور معیشت‘ دونوں ڈگمگا رہے ہوں۔۔۔ ایسے میں اداروں کے درمیان تنائو مزید مہلک ہو جاتا ہے۔ دشمن کی خواہش یہی کہ یہ تنائو تصادم کی شکل اختیار کر لے۔ پارلیمنٹ، عدلیہ اور فوج کے درمیان ہم آہنگی وقت کا اہم ترین تقاضا ہے۔ اداروں کو شخصیات پر فوقیت حاصل ہے۔ اصول اپنی جگہ، مگر آپ معروضی حقائق کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔ ہر اصول حقائق کے تناظر میں متعلقہ یا غیر متعلقہ ٹھہرتا ہے۔
فوج ملک کا مضبوط ترین ادارہ ہے۔ پاکستان کے جغرافیے، بھارت کی سازشوں، کشمیر ایشو، خطے میں عالمی قوتوں کی دل چسپی، گرم پانیوں کا راستہ اور عدم استحکام کے شکار افغانستان کے باعث پاک فوج کی اہمیت کیا دوچند نہیں ہو جاتی؟ گزشتہ ستر برس میں کئی کٹھن مراحل آئے۔ ہم انتشار کا شکار رہے۔ دو لخت ہوئے۔ پارلیمان اور عدلیہ، دونوں نے کئی اتار چڑھائو دیکھے۔ ایسے میں فوج وہ واحد ادارہ تھا، جو لسانی، مذہبی، نسلی تقسیم کے ہولناک مسئلے سے نبرد آزما ہونے میں کامیاب رہا، اور جس نے دہشت گردی کے خلاف ایک پُرپیچ جنگ میں، دشمن کی سازش کے باوجود اپنا وقار اور اتحاد قائم رکھا۔ ایسے میں کیپٹن صفدر کی پارلیمنٹ میں کی جانے والی تقریر، مطالبات اور نعرے ہمیں چونکاتے ہیں۔ کیا ان مطالبات کو لاعلمی ٹھہرایا جا سکتا ہے؟ سچ تو یہ ہے کہ ن لیگ تصادم کی راہ پر چل رہی ہے۔ اور اِس کا آغاز پاناما سے نہیں ہوا۔ جنرل راحیل شریف ہی کے زمانے میں تنائو تھا۔ ڈان لیکس میں کتنا کچھ ہوا۔ حالات بگڑے، مگر سمجھ داری سے سنبھال لیے گئے۔ ٹوئٹ واپس ہوا۔ البتہ جے آئی ٹی کی تفتیش اور پاناما کیس کے فیصلے کے بعد پھر ن لیگ کے لہجے میں تلخی در آئی۔ نادیدہ قوتوں کا ذکر ہونے لگا۔ فاصلہ بڑھنے لگا۔ بی بی سی نے سابق فوجیوں کی تنظیم وٹرنر آف پاکستان کی، جنرل علی قلی کی صدارت میں ہونے والے اجلاس کی جو تفصیل شایع کی، اُس کے مطابق حقانی نیٹ ورک، مشترکہ آپریشن، کلبھوشن، آرمی چیف کا دورہ کابل اور احتساب عدالت میں رینجرز کی تعیناتی جیسے معاملات اشارہ ہیں کہ سب ایک صفحے پر نہیں۔
بڑھتے قرضوں، منتشر معیشت اور سیاسی انتشار کے اس دور میں حالات کا تقاضا ہے کہ حقائق کو پیش نظر رکھتے ہوئے سوچ سمجھ کر قدم اٹھایا جائے۔ آمروں پر تنقید ضرور کیجیے، انھیں کیفر کردار تک پہنچائیں، اگر رائج احتساب کے طریقے پر اعتراض ہے، تو قانون سازی کیجیے، مگر ملک کے دفاع کے لیے جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والے سپاہیوں کو تقسیم کرنے سے اجتناب برتیں۔ اِس کے نتائج ہولناک نکلیں گے۔