منتخب کردہ کالم

پاکستان اور ہندوستان کا باپ کون؟۔۔ محمد بلال غوری (ترازو)

پاکستان اور ہندوستان کا باپ کون؟۔۔ محمد بلال غوری (ترازو)
فاتح جنگجو جیتنے کے بعد لڑنے کا فیصلہ کرتے ہیں جبکہ ہارنے والے جنگجو میدان جنگ میں اترنے کے بعد فتح حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔(چینی جرنیل اور فلاسفر ، سن تو)جنگ مرد کے لیئے اتنی ہی تکلیف دہ ہے جتنا عورت کے لیئے عمل زچگی۔(مسولینی)جنگ وہ کھیل ہے جسے مسکراتے ہوئے کھیلا جاتا ہے ۔اگر آپ مسکرانا نہیں جانتے تو دانت چبائیں اور اگر یہ بھی نہیں کر سکتے تو پھر اس وقت تک جنگ سے گریز کریں جب تک دانت چبانا سیکھ نہ جائیں۔(ونسٹن چرچل)
آپ سوچ رہے ہونگے کرکٹ کے موضوع پر لکھے جا رہے کالم میں جنگ سے متعلق اقوال کیوں گھسیڑ لیے میں نے ۔ارے صاحب ! اگر آپ کرکٹ میں کشمیر اور بلوچستان کا گرم مصالحہ ڈال کر کھلاڑیوں کو سپاہی اور کھیل کے میدان کو محاذ جنگ بنا دیں گے تو اسی انداز میں ہی بات ہوگی۔گاہے خیال آتاہے آپریشن جبرالٹر سے معرکہ کارگل تک لڑی گئی متعدد پاک بھارت جنگوں سے پیشتر کرکٹ کے میدان میں دشمن کو چاروں شانے چت کرنے ،دھول چٹانے ،غرور خاک میں ملانے اور دانت کھٹے کرنے کا خیال سجھائی دیا ہوتا تو اس قدر خونریزی نہ ہوتی۔سرحد کے دونوں طرف کشیدگی آخری حدوں کو بھی چھو رہی ہوتی تو زیادہ سے زیادہ کیا ہوتا؟ پانی کی بوتلیں پھینکی جاتیں ،پلے کارڈ نذر آتش کئے جاتے، ٹی وی سیٹ توڑ دیئے جاتے،بس۔جنگی ہیروز کی فہرست میں کرنل شیر خان اور سنجے کمار کے بجائے شاہد آفریدی اورسچن ٹینڈولکر کے نام نمایاں ہوتے۔ویسے اب بھی جو رجحان چل نکلا ہے کچھ بعید نہیں کہ مستقبل میں نشان حیدر اور پرم ویر چکر جیسے اعلیٰ ترین اعزازات جنگوں میں بہادری کے جوہر دکھانے والے فوجیوں کے بجائے سرفراز اور کوہلی جیسے کھلاڑیوں کے لیئے مختص ہو جائیں ۔
ہمیں اتفاقات سے بہت انس ہے تو یہ کیسے ہو سکتا تھا کہ اس میچ سے متعلق کوئی حسن اتفاق سامنے نہ آتا۔کرکٹ سے دلچسپی رکھنے والوں نے 1992ء کے ورلڈ کپ اور 2017ء کی چیمپئنز ٹرافی میں بہت سی مماثلتیں اور مشابہتیں تلاش کی ہیں۔مثلاً یہ کہ تب بھی پاکستانی ٹیم ٹورنامنٹ کی سب سے کمزور ٹیم تھی اور محض قسمت کے سہارے فائنل تک پہنچی تھی ،تب بھی رمضان المبارک کا مہینہ سایہ فگن تھا اور پوری قوم دعائیں کر رہی تھی۔ایک اور اتفاق جو بعض دوستوں کو بہت ناگوار گرے گا کہ ہم نے 1992ء کا ورلڈ کپ جیتا تو وزیراعظم نوازشریف تھے اور اب بھی وہی اس عہدے پرمتمکن ہیں۔ہاں مگر اس جیت میں نوازشریف کا کوئی کردار نہیں بالکل ایسے ہی جیسے ہم چیمپئنز ٹرافی میں بھارت کے خلاف گزشتہ میچ نجم سیٹھی کی وجہ سے ہارے اور موجودہ میچ قوم کی دعائوں کی وجہ سے جیتے یا پھر سیلیکٹر انضمام الحق کے سہ روزہ لگانے کی وجہ سے قسمت کی دیوی ہم پر مہربان ہوئی۔کوئی اور وجہ بھی ہو سکتی ہے ،آپ چاہیں تو اس جیت کا کریڈٹ کوچ مکی آرتھر ،کپتان سرفراز،فخر زمان ،شاداب،حسن علی یا محمد عامر میں سے کسی کو بھی دے سکتے ہیں۔بعض ناہنجار خوامخواہ اس جیت کا کریڈٹ نجم سیٹھی کو دینا چاہ رہے ہیں،ایسا سوچنے والا کوئی پٹواری ہی ہو سکتا ہے۔
پاک بھارت کرکٹ میچوں میں غیر معمولی جوش و خروش کی روایت تو بہت پرانی ہے لیکن سوشل میڈیا نے اس کھیل کو حق و باطل کا معرکہ بنا کر رکھ دیاہے۔یہی وجہ ہے کہ چیمپئنز ٹرافی کے فائنل میں پاکستان کی ناقابل یقین اور حیران کن فتح کے بعد بھی ٹویٹرانہ توپخانے سے گولہ باری اور فیس بکی جنگی طیاروں سے بمباری کا سلسلہ بلا تعطل جاری ہے۔ایک معرکہ تولندن کے اوول اسٹیڈیم میں برپا تھا لیکن اس سے کہیں زیادہ بڑی جنگ سوشل میڈیا کے محاذ پر لڑی جا رہی تھی۔چونکہ 18جون کو عالمی سطح پر فادرز ڈے منایا جا رہا تھا اس لیے دونوں طرف سے ایک دوسرے کو باپ ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زورلگایا جا رہاتھا۔بالی وڈ اسٹار رشی کپور نے پی سی بی کو پیغام دیتے ہوئے کہا ”پہلے تم نے ہاکی یا کھوکھو ٹیم بھیج دی تھی،،اب کرکٹ ٹیم ہی بھیجنا کیونکہ 18جون(فادرزڈیـ) کو تمہارا باپ کھیل رہا ہو گا۔اس جملے کے بعد تو ایسا گھمسان کا رن پڑا کہ باپ کا لفظ پاپ محسوس ہونے لگا۔میچ جیتنے کے بعد پاکستانیوں کے حوصلے بلندہوئے تو اخلاقی پستی بھی آخری حدوں کو چھونے لگی۔ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور کے ذاتی ٹوئٹر اکائونٹ سے ایک ویڈیو شیئر کی گئی جس میں بھارت کو ہیپی فادرز ڈے کا پیغام دیتے ہوئے یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ ہم تمہارے باپ ہیں۔بھارتی فلم ”شہنشاہ ـ ‘‘ کا وہ ڈائیلاگ وائرل ہو گیا جس میں امیتابھ بچن امریش پوری کو مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں”رشتے میں تو ہم تمہارے باپ ہوتے ہیں نام ہے شہنشاہ‘‘ ۔دل کی بھڑاس نکالنے والوں نے اس جملے کو کچھ یوں پیش کیا”رشتے میں تو ہم تہارے باپ لگتے ہیں ،نام ہے پاکستان‘‘کسی منچلے نے لکھا ”باپ باپ ہی ہوتا ہے اور آج باپ کا دن تھا بیٹے کا نہیں۔پاکستان نے باپ ہونے کا حق ادا کر دیا ‘‘جس پر ویدانت نامی بھارتی شہری نے جواب دیا ”بیٹا باپ تو تمہارا انڈیا ہی رہے گا‘‘
ایک ایسی ٹیم نے جو گزشتہ ایک دہائی سے بھارت کے مقابلے میں کوئی اہم میچ نہیں جیت پائی ،چند ماہ قبل جس کا ورلڈ کپ کے لیے کوالیفائی کرنا مشکل دکھائی دے رہا تھا،جو حسب روایت قسمت کی بیساکھی لیکر چیمپئنز ٹرافی کے فائنل میں پہنچی، کل تک جس کی کامیابی کا انحصار بارش اور دعائوں پر تھا،جس پر چند روز قبل ہونے والے پاک بھارت میچ میں حب الوطنی کے انرجی ڈرنک نے بھی اثر نہیں کیا،وہ حیرت انگیز اور غیر متوقع طور پر نہ صرف جیت جائے بلکہ بھارت جیسی ٹیم کو بدترین شکست سے دوچار کردے تو ہمارے جیسی جذباتی قوم کا آپے سے باہر ہونا سمجھ میں آتا ہے۔غریب آدمی جس کے پاس پھوٹی کوڑی نہ ہو ،اچانک اس کی لاٹری لگ جائے ،پرائز بانڈ نکل آئے یا راہ چلتے نوٹوں سے بھرا ہوا بیگ مل جائے تو اس سے متوازن رویے کی توقع نہیں کی جا سکتی ۔یہی وجہ ہے کہ جس طرح ہمارے ہاں جشن طرب میں اعتدال کا عنصر دکھائی نہیں دیتا ویسے ہی بھارت کی طرف اندوہ و کرب میں توازن نظر نہیں آتا۔پوری قوم کی طرح میں بھی اس موقع پرخوشی سے پھولے نہیں سما رہالیکن ایک سوال ذہن میں آتا ہے تو سارا مزا کرکرا ہو جاتا ہے۔کھیل ہو یاجنگ ،کبھی جیت ہوتی ہے تو کبھی ہار۔اگر خدانخواستہ ہمارے کھلاڑی تاریخ کا دھارا نہ بدل پاتے اور ہار جاتے تو کیا وہی مناظر یہاں دیکھنے کو نہ ملتے جو سرحد پار ٹی وی چینلز پر دیکھنے کو مل رہے ہیں؟تو کیا ایسی صورت میں باپ اور بیٹے کا رشتہ بدل جاتا؟ مستقبل میں اگر کبھی بھارتی ٹیم کا پلڑا بھاری رہا تو اس رشتے کا کیا ہو گا؟تکلف برطرف ،اگر کرکٹ کو کھیل کے بجائے جنگ کا درجہ دے دیا گیا ہے تب بھی جیت اور ہار کی صورت میں وقار کو ٹھیس نہیں پہنچنی چاہئے۔بقول چرچل جنگ وہ کھیل ہے جسے مسکراتے ہوئے کھیلنا چاہئے اور اگر مسکرانے کا موقع میسر نہ آئے تو پھر دانت چبائیں۔کسی کو اچھا لگے یا برا لیکن سچ تو یہی ہے کہ بھارت اور پاکستان میں سے کسی ایک کو بھی باپ کا درجہ حاصل نہیں۔دونوں ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہی سہی مگر آپس میں بھائی بھائی ہیں۔سچ تو یہ ہے کہ بھلے ناجائز ہی سہی مگردونوں کا باپ انگلستان ہے ۔