آپ کو پاک بھارت تعلقات سمجھنے کے لیے دو ڈاکٹرین سمجھنا ہوں گے‘ یہ کولڈ اسٹارٹ ڈاکٹرین اور اجیت دوول ڈاکٹرین ہیں۔
ہم پہلے کولڈ اسٹارٹ ڈاکٹرین کی طرف آتے ہیں‘ آپ کو یاد ہو گا13 دسمبر 2001ء کو پانچ شدت پسندوں نے بھارت کی پارلیمنٹ پر حملہ کیا تھا‘ حملے میں 12 لوگ مارے گئے تھے‘ بھارت نے الزام لگایا یہ لوگ پاکستانی اور مولانا مسعود اظہر کے ساتھی ہیں‘ بھارت نے یہ الزام لگانے کے ساتھ ہی پاکستان پر فوج کشی کا اعلان بھی کر دیا‘ وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی نے فوج کو حکم دیا اور بھارتی فوجیں پاکستانی سرحد کی طرف چل پڑیں‘ بھارت 32 لاکھ 87 ہزارمربع کلو میٹر پر پھیلا ایک طویل ملک ہے۔
انڈین آرمی برما‘ لداخ‘ کلکتہ اور گوا کے دور دراز علاقوں میں تعینات تھی‘ بھارت کو اپنی فوج پاکستانی سرحدوں پر شفٹ کرنے میں خاصا وقت لگ گیا‘ بھارت کی فوج اور جنگی سازو سامان چار ہفتوں میں پاکستانی بارڈر تک پہنچا‘ یہ وقت پاکستان کے لیے کافی تھا‘ پاکستان بھارت کے مقابلے میں چھوٹا ملک ہے‘ پاکستانی چھاؤنیاں بھارتی سرحد سے زیادہ دور نہیں ہیں چنانچہ ہم نے تین چار دن میں اپنی فوج سرحد پر شفٹ کر لی‘ نائین الیون کا واقعہ تازہ تازہ ہوا تھا‘ امریکا اور یورپ کو جنرل پرویز مشرف کی ضرورت تھی لہٰذا جنرل مشرف نے بھارتی تیاری کے ان چار ہفتوں میں عالمی برادری کو بھی موبلائز کر دیا‘ یورپ اور امریکا درمیان میں آگئے۔
اقوام متحدہ نے بھی بھارت کو روکنا شروع کر دیا اور پاکستان نے اپنے میزائل اور جوہری ہتھیار بھی باہر نکال لیے‘ یہ تمام چیزیں مل کر دباؤ بنیں اور بھارت بالآخر اس دباؤ کے سامنے جھکنے پر مجبور ہو گیا‘ بھارتی فوجیں پیچھے ہٹ گئیں‘ بھارت کو اس ایکسرسائز کے دوران اربوں روپے کا نقصان بھی ہوا اور اسے عالمی سطح پر جگ ہنسائی کا سامنا بھی کرنا پڑا‘ بھارتی حکومت کو خفت اور سیاسی زخم بھی اٹھانا پڑے‘ بھارتی پسپائی سے پاکستان کے بین الاقوامی امیج اور جنرل پرویز مشرف دونوں کو فائدہ ہوا‘ فوج کی اس ناکامی نے بھارت کو تیسرے آپشن پر مجبور کر دیا‘ یہ تیسرا آپشن دوسری جنگ عظیم کے دوران جرمن فوج کی بلٹس کریگ (Blitzkrieg) اسٹرٹیجی تھی‘ جرمن زبان میں بلٹس کریگ کا مطلب ’’بجلی کی تیزی سے وار‘‘ ہے‘ نازی فوج دوسری جنگ عظیم میں اتحادیوں اور روسی فوجوں پر بجلی کی طرح حملہ آور ہوتی تھی۔
جرمن اپنی آرٹیلری‘ ٹینکوں‘ انفنٹری اور جنگی طیاروں کو اچانک موبلائز کرتے تھے اور دشمن کے جاگنے سے پہلے پورا شہر اڑا دیتے تھے‘ بھارت کے عسکری ماہرین نے بلٹس کریگ اسٹرٹیجی پر کام کیا اور کولڈ اسٹارٹ کے نام سے ایک ڈاکٹرین تیار کیا‘ یہ ڈاکٹرین پاکستان پر 24 گھنٹے میں اچانک اور خوفناک حملے پر مشتمل ہے‘ یہ حملہ زمینی اور فضائی ہو گا اور بھارتی فوج پاکستانی فوج کے سنبھلنے‘ جوہری ہتھیار باہر نکالنے اور عالمی برادری اور اقوام متحدہ سے رابطے سے پہلے آپریشن کر کے واپس چلی جائے گی تاکہ جب پاکستان ’’ری ایکٹ‘‘ کرے تو دنیا کو بھارت کے بجائے پاکستان جارح نظر آئے‘ بھارت نے کولڈ اسٹارٹ ڈاکٹرین پر عمل کرتے ہوئے 2011ء کے مئی اور دسمبر میں پچاس ہزار فوجی پاکستانی سرحد پر جمع کیے اور وجے بھاؤ اور سدرشن شکتی کے ناموں سے باقاعدہ مشقیں کیں‘ بھارت اس ڈاکٹرین پر عمل کے لیے بین الاقوامی سطح پر باقاعدہ فضا ہموار کر رہا ہے۔
یہ انٹرنیشنل اور لوکل میڈیا میں پٹھان کوٹ اور اڑی جیسے واقعات کا خوفناک واویلا کر رہا ہے‘ یہ واویلا بھارتی اور عالمی برادری کو یہ یقین دلانے کے لیے کیا جا رہا ہے کہ پاکستان کی طرف سے بھارت پر مسلسل دہشتگردانہ حملے ہو رہے ہیں اور یہ ہمیں جواب دینے پر مجبور کر رہا ہے‘ بھارت کا خیال ہے یہ جب پاکستان کے خلاف کولڈ اسٹارٹ کرے گا تو دنیا یہ یقین کر لے گی پاکستان نے بھارت کو حملے کے لیے مجبور کر دیا تھا‘ یوں بھارتی حملے ’’جسٹی فائی‘‘ ہو جائیں گے‘ یہ وہ سوچ ہے جس کی وجہ سے بھارت دہشتگردی کی معمولی وارداتوں پر بھی آسمان سر پر اٹھا لیتا ہے۔
ہم اب آتے ہیں اجیت دوول ڈاکٹرین کی طرف‘ اجیت کمار دوول سابق پولیس آفیسر ہے‘ یہ بھارت کا جیمز بانڈ کہلاتا تھا‘ یہ جارحانہ انٹیلی جنس آپریشنز اور دہشتگرد تنظیمیں بنانے میں ماہر تھا‘ دوول کی ہسٹری شیٹ میں میزو رام‘ پنجاب اور کشمیر کے بے شمار آپریشنز شامل ہیں‘ یہ امرتسر کے گولڈن ٹمپل آپریشن‘ کشمیر کی درگاہ حضرت بل اور 1994ء میں کشمیر سے غیر ملکی سیاحوں کے اغواء جیسے آپریشنز میں بھی ملوث تھا‘ یہ سات سال پاکستان میں بھی جاسوسی کرتا رہا‘ یہ پاکستان میں کام کرنے والی جہادی تنظیموں سے بھی واقف ہے۔
یہ کس قدر چالاک انسان ہے آپ اس کا اندازہ 1980ء کی دہائی میں اس کی کارروائیوں سے لگا لیجیے‘ یہ پاکستانی ایجنٹ بن کر گولڈن ٹمپل میں داخل ہوا اور سکھوں کی تمام خفیہ معلومات حاصل کر لیں‘ اجیت دوول پاکستان کے بارے میں خوفناک عزائم رکھتا ہے‘ یہ سمجھتا ہے پاکستان کے ہاتھ میں جب تک ایٹم بم اور چین ہیں بھارت اس وقت تک پاکستان پر براہ راست حملہ نہیں کر سکے گا چنانچہ بھارت کو دوسرے آپشنز پر جانا ہو گا‘ اجیت دوول کے مطابق یہ آپشنز پاکستان میں سیاسی عدم استحکام‘ پاکستان کی بین الاقوامی سطح پر تنہائی اور پاکستان کے اندر دہشتگردی ہیں‘ اجیت دوول کا خیال ہے پاکستان میں اگر سیاسی عدم استحکام پیدا ہو جائے اور پاکستان کی سیاسی جماعتیں اور سیاسی قائدین ایک دوسرے سے الجھتے رہیں تو پاکستان کے عوام اور پاکستان کے دوست ملک دونوں بیزار ہو جائیں گے جس کے بعد پاکستان معاشی لحاظ سے بھی کمزور ہو جائے۔
پاکستان کا امیج بھی خراب ہو گا اور پاک فوج بھی ایک بار پھر اقتدار میں آنے پر مجبور ہو جائے گی اور یوں عالمی برادری پاکستان سے منہ موڑ لے گی‘ یہ سمجھتا ہے ہمیں عالمی سطح پر پاکستان کو اتنا بدنام کرنا چاہیے کہ دنیا پاکستان کو دہشتگردی کا ایپی سینٹر سمجھ لے‘ دنیا پاکستان پر اعتبار کرنا چھوڑ دے‘ عالمی ادارے‘ بزنس گروپس اور سرمایہ کار پاکستان کے اوپر سے گزرتے ہوئے بھی خوف کھائیں‘ عالمی میڈیا ہر پاکستانی کو دہشتگرد سمجھے اور دنیا کا کوئی سفارت خانہ پاکستانیوں کو ویزے جاری نہ کرے اور یہ سمجھتا ہے بلوچستان اور فاٹا پاکستان کی کمزوری ہیں‘ بلوچستان میں 70 سال سے احساس محرومی ہے جب کہ فاٹا 35 برس سے امریکا‘ روس‘ افغانستان اور پاکستان کا میدان جنگ بنا ہوا ہے۔
قبائلی عوام پہلے روس کے ہاتھوں مار کھاتے رہے‘ پھر افغان مجاہدین نے ان کے سر اتارے‘ پھر امریکا نے ڈرون حملے شروع کر دیے اور آخر میں پاکستان نے بھی یہاں ضرب عضب لانچ کر دی لہٰذا یہ لوگ بری طرح زخمی ہیں‘ یہ سب کے خلاف ہیں‘ ہم اگر وہاں ’’سرمایہ کاری‘‘ کریں تو قبائلی پاکستان کو چند سال میں اتنا نقصان پہنچا دیں گے جتنا نقصان انڈیا 50 سال میں بھی نہیں کر سکتا‘ اجیت دوول کی یہ فلاسفی دوول ڈاکٹرین کہلاتی ہے‘ وزیراعظم نریندر مودی اجیت دوول کے فین ہیں چنانچہ انھوں نے وزیراعظم بنتے ہی 30 مئی2014ء کو اجیت دوول کو نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر بنا دیا‘ دوول اب بھارت کی قومی سلامتی‘ پاکستان کے اندر افراتفری پھیلانے اور مقبوضہ کشمیر کی تحریک کو دبانے میں مصروف ہے۔
ہم اگر پاکستان اور بھارت کے موجودہ حالات کا جائزہ لیں تو ہمیں محسوس ہوگا بھارت بیک وقت کولڈ اسٹارٹ اور دوول پالیسی پر کام کر رہا ہے‘ بھارتی جاسوس بلوچستان اور فاٹا دونوں کو اپنا مورچہ بنا چکے ہیں‘ بھارت دہشتگردوں کو اربوں روپے اور اسلحہ فراہم کر رہا ہے‘ یہ فاٹا میں افراتفری کے لیے افغانستان اور بلوچستان میں دہشتگردی کے لیے ایران کو استعمال کر رہا ہے‘ یہ پاک چین اقتصادی راہداری کو بھی روکنا چاہتا ہے‘ اس کی خواہش ہے پاکستان میں لوڈ شیڈنگ بھی ختم نہ ہو‘ ضرب عضب بھی کامیاب نہ ہو‘ کراچی کے حالات بھی ٹھیک نہ ہوں‘ پاکستان معاشی لحاظ سے بھی ’’ٹیک آف‘‘ نہ کر سکے اور پاک فوج اور سیاسی حکومتوں کے درمیان ورکنگ ریلیشنز بھی قائم نہ ہوں‘ آپ اگر ان حقائق کو سامنے رکھ کر پاکستان کے موجودہ حالات کا جائزہ لیں گے تو آپ بڑی آسانی سے پوری سازش سمجھ جائیں گے‘ آپ کو پورا پلاٹ سمجھ آ جائے گا۔
ہم اب آتے ہیں اس سوال کی طرف کہ نریندر مودی ایسا کر کیوں رہے ہیں؟ وجہ اندرا گاندھی ہیں‘ نریندر مودی سمجھتے ہیں اندرا گاندھی نے 1971ء میں آدھا پاکستان توڑ کر اپنا نام تاریخ میں لکھوا لیا‘ یہ پورے پاکستان کو توڑ کر اپنا نام اندرا گاندھی سے بلند کرنا چاہتے ہیں لیکن یہ بھول جاتے ہیں 1971ء اور 2016ء میں بڑا فرق ہے‘ پاکستان آج نیو کلیئر پاور بھی ہے اور اس کے دامن پر 1971ء کی شکست کے داغ بھی ہیں چنانچہ پاکستانی فوج کو ملک اور اپنی عزت کی بقا کے لیے آخری آپشن تک جاتے دیر نہیں لگے گی‘ بھارت کے دونوں ڈاکٹرین برصغیر کو ایٹمی جنگ کا میدان بنا دیں گے جس کے بعد پاکستان بچے یا نہ بچے لیکن انڈیا نہیں بچے گا اور یہ پاکستانیوں کا متفقہ فیصلہ ہے۔
’’ہم مر جائیں گے لیکن بھارت کو 1971ء کی تاریخ نہیں دہرانے دیں گے‘‘ یہ پاکستانی ڈاکٹرین ہے‘ یہ پاک فوج اور سیاسی قیادت کا مشترکہ فیصلہ ہے۔