منتخب کردہ کالم

پاکستان‘ بھارتی اور اسرائیلی گٹھ جوڑ کا مقابلہ کر سکتا ہے…..نذیر ناجی

منہ پھیر کے گزرنے کا وقت نہیں

پاکستان‘ بھارتی اور اسرائیلی گٹھ جوڑ کا مقابلہ کر سکتا ہے…..نذیر ناجی

اسرائیل اور بھارت کا اسلام دشمن گٹھ جوڑ‘ خصوصاً پاکستان کے خلاف‘ دن بدن بڑھتا ہی جا ر ہا ہے، جس سے حالات کشیدہ ہونے کا قوی امکان ہے۔ اسی تناظر میں عالمی میڈیا سے ایک مضمون پیش خدمت ہے۔ ملاحظہ فرمائیے:
”پاکستان کے ایٹمی میزائل پروگرام کی ترقی اور اسرائیل کے بھارت کے ساتھ بڑھتے ہوئے فوجی روابط ‘عسکری اعتبار سے ایک دوسرے سے لاتعلق نہیں رہ سکتے۔ رسمی سفارتی تعلقات کی غیر موجودگی اور عوامی سطح پر پائے جانے والے نفرت انگیز بیانیے کی وجہ سے ضروری ہے کہ اسلام آباد اور یروشلم کے درمیان کسی قسم کا در پردہ رابطہ موجود ہوتا اور ایک دوسرے کے عزائم کے بارے میں غلط فہمیاں پروان نہ چڑھنے پاتیں۔ پاکستان اور اسرائیل کے درمیان شک اور عدم اعتماد پایا جاتا ہے۔ پاکستان میں اسرائیل کے بارے میں بدترین تصوارت موجود ہیں۔ دسمبر 2016ء کے اختتام پر پاکستان اور اسرائیل کے درمیان ایٹمی تصادم کی ایک جھوٹی کہانی ٹویٹر پر گردش میں رہی۔ “AWD News” نے دعویٰ کیا کہ اسرائیل کے وزیرِ دفاع نے دھمکی دی ہے کہ اگر پاکستان نے شام میں فوجی دستے بھیجے تو اسے ایٹمی حملے سے تباہ کر دیا جائے گا۔ یہ ایک بے بنیاد اور من گھڑت کہانی تھی کیونکہ اس ویب سائٹ نے موشے یالان کو اسرائیلی وزیردفاع سمجھا (حالانکہ وہ گزشتہ مئی کو مستعفی ہو چکے تھے) پاکستانی وزیر دفاع نے اس کا جواب دیتے ہوئے‘ اسرائیل کو تنبیہ کی ”پاکستان بھی ایک جوہری قوت ہے‘‘۔
اسرائیل اور بھارت کے درمیان بڑھتے ہوئے سکیورٹی تعلقات‘ سازش کی تھیوریوں کو پنپنے میں مدد دیتے ہیں۔ اسرائیل اور بھارت‘ پاکستان کے خلاف جارحانہ فوجی عزائم رکھتے ہیں۔ اس پس منظر میں حیرت کی کوئی بات نہیں کہ گزشتہ ماہ جنوری میں اسرائیلی وزیراعظم کے بھارت کے دورے پر‘ پاکستان کی طرف سے جارحانہ بیان بازی دیکھنے کو ملی۔ وزیرِ خارجہ خواجہ محمد آصف نے بیان دیا کہ ”پاکستان‘ بھارت اور اسرائیلی گٹّھ جوڑ کے خلاف اپنا دفاع کر سکتا ہے۔ یہ گٹّھ جوڑ اسلام دشمنی کا نتیجہ ہے‘‘۔ اس پر اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے کہا کہ ”ہم پاکستان کے دشمن نہیں۔ پاکستان کو بھی ہم سے دشمنی نہیں رکھنی چاہیے‘‘۔ امریکی انتظامیہ کی طرف سے پاکستان کی فوجی امداد کی معطلی کے حالیہ فیصلے سے یہ تاثر ابھرا کہ اب امریکہ بھی پاکستان مخالف الائنس کاحصہ بن چکا ہے۔ چیئرمین سینیٹ
میاں رضا ربانی نے خبردار کیا کہ امریکہ‘ اسرائیل اور بھارت کے درمیان اشتراک بڑھ رہا ہے چنانچہ اسلامی دنیا کو اتحاد کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس خطرے سے نمٹنا چاہیے۔ یہ بات واضح نہیں کہ یہ مخاصمت آمیز رویہ کیا ظاہر کرتا ہے؟ پاکستان کے رہنما اسرائیل کو کیا سمجھتے ہیں؟ کیا وہ معروضی تصورات رکھتے ہیں یا اسرائیل کو مذہبی تصورات کے پسِ منظر میں دیکھتے ہیں؟ حسن ندیم نے حال ہی میں دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان کے اعلیٰ سطحی سکیورٹی افسروں‘ سیاست دانوں اور سفارت کاروں میں ”اسرائیل کو تسلیم کرنے اور اس کے ساتھ روابط بڑھانے‘‘ کی سوچ پیدا ہو رہی ہے لیکن وہ اس کا اظہار کرنے سے خائف ہیں۔ اس کی وجہ سیاسی اور مذہبی حلقوں کے شدید ردعمل کاخطرہ ہے۔
اسرائیل اور بھارت کے درمیان فوجی تعلقات‘ بھارتی فورسز کو جدید لڑاکا فورس بنا سکتے ہیں۔ پاکستان اس حقیقت کا ادراک رکھتا ہے اور جانتا ہے کہ اس کی وجہ سے جنوبی ایشیا میں طاقت کا توازن بگڑ جائے گا۔ یہ تعلقات بھارتی فورسز کو الیکٹرانک آلات اور نیٹ ورک کی بنیاد پر کام کرنے والے آلات کو‘ عسکری مقاصد کے لیے استعمال کرنے کے قابل بنا دیں گے۔ ان کی وجہ سے بھارت انٹیلی جنس‘ معلومات اور جدید جنگی ساز و سامان میں پاکستان سے بہت آگے نکل جائے گا۔ اس سے پاکستان کی فضائی اور سمندری حدود اور اہم تنصیبات خطرے سے دوچار ہو سکتی ہیں۔ سب سے اہم‘ اسرائیلی تعاون بھارت کو پاکستان کے میزائلوں کے مقابلے میں اپنا دفاع کرنے کی صلاحیت فراہم کر سکتا ہے۔
اس کا توڑ کرنے کے لیے پاکستان‘ روس اور چین کے ساتھ سکیورٹی تعلقات بڑھانے کی راہ پر گامزن ہے۔ پاکستان روایتی ہتھیاروں کی دوڑ میں بھارت کا مقابلہ نہیں کر سکتا‘ اس لیے پاکستان سیکنڈ سٹرائیک کرنے کی صلاحیت کو ترقی دینے اور ایٹمی جنگ لڑنے کی تیار ی کا سوچ سکتا ہے۔ اس طرح وہ بھارت کو حاصل بالا دستی توڑ سکتا ہے۔ پاکستان کے جوہری ہتھیاروں کی ترقی اسرائیل کے لیے ممکنہ طور پر خطرناک ہے۔ اگرچہ پاکستان کو بھارت اور اسرائیل کے بڑھتے ہوئے فوجی تعاون سے خطرہ ہے‘ پاکستان کی فوجی تیاروں کا ہدف اسرائیل کبھی بھی نہیں رہا لیکن تکنیکی میدان میں ہونے والی کچھ پیش رفت پاکستان کو اپنے ایٹمی میزائل‘ اسرائیلی سرزمین پر پہنچانے کے قابل بنا دیتی ہے۔ تاریخ میں پہلی مرتبہ اسرائیل خود کو کسی اسلامی ریاست کے ایٹمی میزائلوں کی زد میں دیکھ رہا ہے؛ چنانچہ پاکستان میں داخلی اور خارجی طور پر ہونے والی پیش رفت کو اسرائیلی پہلے سے کہیں زیادہ دلچسپی سے دیکھ رہے ہوں گے‘‘۔