منتخب کردہ کالم

پاکستان ویت نام نہیں .. کالم بلال غوری

پاکستان ویت نام نہیں .. کالم بلال غوری

ٹائی لگائے ہوئے کسی شخص سے مشورہ نہ کریں۔یہ لوگ آپ کو دیوالیہ کر دیں گے۔جنگ کے معاملے میں جرنیل اور پیسے کے معاملے میں بروکر کی رائے کبھی نہ لیں۔(لبنانی نژاد امریکی اسکالر ،نسیم نکولس طالب)
کبھی امریکیوں کی خوش بختی پر رشک آتا تھا مگر اب زمانہ ان کی بدبختی پر ترس کھاتا ہے۔امریکی مزاح نگار ،امبروز بیرس کے مطابق جنگ،امریکیوں کو جغرافیہ سمجھانے کے لئے خدا کی طرف سے اختیار کیا گیا ایک طریقہ ہے۔اور اب خیال آتا ہے خدانے امریکیوں کو سبق سکھانے اور نشان ِعبرت بنانے کے لیئے ڈونلڈ ٹرمپ جیسے مسخرے کو بطور صدر نازل کیا ہے۔دنیا بھلے اس کا تمسخر اڑائے اور قہقہے لگائے لیکن ہمیں اس غیر سنجیدہ شخص کی دھمکیوں کو سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے کیونکہ وہ بل کلنٹن ،جارج بش یا بارک اوباما جیسا کوئی معقول انسان نہیں بلکہ اس کی مثال ایک ایسے شخص کی سی ہے جو کسی علت یا جواز کے بغیر پتھر مار کر قریب کھڑی گاڑی کی ونڈ اسکرین توڑسکتا ہے۔اس نوعیت کا غیر متوازن شخص کسی سپرپاور کا بااختیار صدر بھی ہو تو یوں سمجھیں اس کے ہاتھ میں کوئی معمولی پتھر نہیں بلکہ بھاری بھرکم چٹان ہے جو آپ کی چھوٹی سی گاڑی کو پاش پاش کر سکتی ہے۔ ہمارے فیصلہ سازحسب سابق اس دھمکی سے بھی روائتی انداز سے نمٹنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ماضی میں ہمیں جب بھی ایسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا ہے تو سب سے پہلے ملکی سطح پر بڑھکیں مارنے کا مقابلہ منعقد ہوا ،پوری قوم میں سلطان راہی کی روح حلول کر جاتی رہی ، محمود و ایاز گنڈاسا ہاتھ میں تھامے منہ سے جھاگ اڑاتے ہوئے اپنے دشمن کو نوری نت سمجھ کر للکارتے رہے ،اخبارات میں انواع و اقسام کی انجمنوں اور فورمز کی جانب سے دشمن کے دانت کھٹے کرنے کے عہد سے متعلق بیانات شائع ہوتے رہے ،ٹی وی شوز میں دفاعی تجزیہ نگار اپنے جوش خطابت سے قوم کا خون گرماتے رہے، اخبارات میں لکھنے والے اپنے اپنے انداز میں قارئین کا حوصلہ بڑھاتے رہے ۔دشمن کو مزید ”یرکانے‘‘ کے لئے اسی پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلایا جاتا ، جسے ہم بیکار ،بے فائدہ اور بے ثمر سمجھتے ہیں ،اس اجلاس میں دھواں دھار تقریروں کے بعد ایک متفقہ قرارداد منظور کی جاتی ہے کہ پاکستان تر نوالہ نہیں ،کسی نے ہماری طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی غلطی کی تو اس کی آنکھیں پھوڑ دی جائیں گی۔پھر ہم یہ توقع کرتے ہیں کہ جس پارلیمنٹ کی قراردادوں کو ہم خود کوئی اہمیت نہیں دیتے، جس پارلیمنٹ کے فیصلوں کی ہمارے اپنے ملک میں کوئی وقعت نہیں ،دنیا اس پارلیمنٹ کی متفقہ قراردادوں کا وقار ضرور ملحوظ خاطررکھے گی۔چشم بددوراس مرتبہ بھی ہم اسی نسخہ کیمیا پر عمل پیراہیں،ڈونلڈ ٹرمپ کی دھمکیوں پر ہماری ”سلطان راہیت ‘‘جاگ چکی ہے اور ہر شخص گنڈاسا لیے پھر رہا ہے۔یوں لگتا ہے جیسے قومی پردہ سیمیں پر فلم مولا جٹ چل رہی ہے اور ہر فنکار کی زبان پر ایک ہی ڈائیلاگ ہے”نواں آیاں ایں سوہنیا ‘‘
یوں توگزشتہ چند روز کے دوران بیشمار فنکاروں نے اپنے فن کی طاقت سے شائقین کو مبہوت کئے رکھا مگر ایوان بالا کے معزز ارکان نے توجیسے سخن وری ،زباں آوری،نطق آمیزی ،جوہر خطابت ،علم طلاقت ،فنِ خطابت اور لذت تقریر کی دھاک بٹھا دی۔ایسی ایسی گوہر افشانیاں کہ ہر شخص عش عش کر اٹھا۔فرمایا ،پاکستان کو کمبوڈیا یا ویت نام نہ سمجھا جائے اور امریکہ نے حملہ کرنے کی غلطی کی تو پاکستان کو امریکی فوجیوں کا قبرستان بنا دیں گے ۔
جب ایوان بالا میں زوردار تقریروں کا سلسلہ جاری تھا تو میراذہن ویت نام جنگ میں اٹکا ہوا تھا۔کبھی نگوئن وان تھیو کا خیال آتا ،کبھی ہوچی منہ کانام دماغ میں گونجنے لگتا تو کبھی جنرل گیاپ کی شخصیت سامنے آ جاتی۔بیشتر لوگ تو ویت نام کو امریکہ کے خلاف مزاحمت کے استعارے کے طور پر جانتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ٹھگنے اور ناٹے قد کے ویت نامیوں نے ہر دور کی سپر پاور کا غرور خاک میں ملایا ہے۔منگولوں نے جب یورپ اور ایشیا کو فتح کرنے کے بعد اس خطے کی طرف پیش قدمی کی جسے ہم ویت نام کے نام سے جانتے ہیں تو ان لمبے تڑنگے منگولوں کو منحنی سے اور واجبی جسامت کے حامل ویت نامیوں سے تین مرتبہ بدترین شکست سے دوچارہونا پڑا۔1954ء میں ویت نامی جنگجو جنرل گیاپ نے ”دیابیان فو‘‘ کے مقام پر فرانسیسی فوج کو شکست دے کر اس وقت کی سپر پاور کا غرور خاک میں ملایا اور جب امریکہ نے ویت نام پر جنگ مسلط کی تو ان ویت نامیوں نے مزاحمت کی ایک نئی داستان رقم کی۔امریکہ کو ویت نام میں اس لیے گھٹنے ٹیکنے پڑے کہ ویت نامی سپہ سالار جنرل گیاپ کہا کرتے تھے ”میری ڈکشنری میں سرنڈر کرنے یا ہتھیار ڈالنے کا لفظ ہی نہیںہے‘‘ اور ویت نامیوں کے بابائے مزاحمت ہوچی منہ کا قول ہے ”دنیا کی سب سے قیمتی شے آزادی ہے‘‘ اس آزادی کے حصول کے لیے ہوچی منہ نے امریکیوں کو الٹی میٹم دیتے ہوئے کہا تھا ”ہم ایک امریکی فوجی کو قتل کریں گے اور اس کے بدلے تم ہمارے دس لوگ ماروگے لیکن آخر کار تم تھک جائو گے ،تم ہار جائو گے‘‘جنرل گیاپ نے ایک مرتبہ انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا :”امریکی اعداد وشمار کے بل بوتے پر جنگ لڑتے ہیں۔وہ اپنے کمپیوٹرز سے کہتے ہیں کہ یہاں جمع تفریق کرو،اب اس کا جزر لواور پھر اسی حساب کے زور پر لڑتے رہو۔اگراعداد وشمار کی یہ حکمت عملیاں کسی کام کی ہوتیں تو وہ ہمیں کب کا نیست و نابود کرچکے ہوتے۔شروع میں انہوں نے کہا کہ اس جنگ کو جیتنے کے لیے پچیس اور ایک کا تناسب ٹھیک رہے گا ،پھر انہیں احساس ہوا کہ یہ تو ناممکن ہے تو وہ چھ اور ایک کی نسبت پر آگئے ،یہاں بھی کامیابی نہ ملی تو تین اور ایک کا تناسب اختیار کیا گیا پھر انہیں لگا کہ یہاں تو سب ہی حریت پسند ہیں ،یہاں تو سب ہی جنگجو ہیں اس لیے یہ تناسب نہیں چلے گا۔‘‘ جنرل گیاپ اور ہوچی منہ کی قیادت میں ویت نامیوں نے جرأت و بہادری کی جو داستان رقم کی اس کی حکایت تو بہت طویل ہے اور میری خواہش تھی کہ یہاں اور وہاں کے حالات کاکچھ تقابل قارئین کے سامنے رکھا جائے تاہم اس کالم کی تنگ دامنی کے باعث ایسا ممکن نہیں ۔البتہ آپ سب جانتے ہیں کہ ویت نام کے برعکس ہماری تاریخ تو سرنڈرز اور بلنڈرز سے بھرپور ہے۔ماضی بعید میں جانے کی کیا ضرورت ہے ،ماضی قریب میںریمنڈ ڈیوس کی رہائی اور ایبٹ آباد آپریشن کی مثالیں ہی کافی ہیں۔ چنانچہ سینیٹ میں ہونے والی یہ بات بالکل درست ہے کہ امریکہ پاکستان کوویت نام سمجھنے کی غلطی ہرگز نہ کرے ۔برا ہو اس نگوڑی جمہوریت کا جس نے امریکہ کے سامنے چاروں شانے چت ہونے اور ڈالر لینے کا ایک نادر موقع ضائع کروادیا ۔فرانسیسی مدبر اور سابق وزیر اعظم جارج کلمینیو نے کہا تھا،جنگ جیسا سنجیدہ معاملہ محض جرنیلوں پہ نہیں چھوڑا جا سکتا۔
کبھی امریکیوں کی خوش بختی پر رشک آتا تھا مگر اب زمانہ ان کی بدبختی پر ترس کھاتا ہے۔امریکی مزاح نگار ،امبروز بیرس کے مطابق جنگ،امریکیوں کو جغرافیہ سمجھانے کے لئے خدا کی طرف سے اختیار کیا گیا ایک طریقہ ہے۔اور اب خیال آتا ہے خدانے امریکیوں کو سبق سکھانے اور نشان ِعبرت بنانے کے لیئے ڈونلڈ ٹرمپ جیسے مسخرے کو بطور صدر نازل کیا ہے۔دنیا بھلے اس کا تمسخر اڑائے اور قہقہے لگائے لیکن ہمیں اس غیر سنجیدہ شخص کی دھمکیوں کو سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے.

،،،،
اگلا کالم
…..