منتخب کردہ کالم

پاکستان کا ڈونلڈ ٹرمپ؟… کالم روئوف طاہر

تمام تجزیے‘ رائے عامہ کے سارے جائزے دھرے کے دھرے رہ گئے‘ امریکہ کے صدارتی الیکشن میں اپ سیٹ ہو گیا‘ ہلیری ہار گئی‘ ٹرمپ جیت گیا۔ ویسے تو ٹرمپ کا‘ ری پبلکن امیدوار بن جانا ہی ایک بڑا اپ سیٹ تھا۔ ریئل اسٹیٹ ٹائکون کا بزنس مین بیٹا‘ جو کبھی کانگریس مین ہوا‘ نہ سینیٹر بنا‘ نہ کسی ریاست کا گورنر رہا۔ وہ کوئی پکا اور سچّا ری پبلکن بھی نہ تھا۔ ایک دور میں ڈیموکریٹس کا مالی معاون رہا‘ لیکن اب صدارتی الیکشن کے لیے ری پبلکن کا ٹکٹ لے اُڑا‘ کیسے کیسے جدّی پُشتی ری پبلکنز کو اس نے پچھاڑ دیا تھا۔ دو امریکی صدور میں سے ایک (بُش سینئر) کا صاحبزادہ اور دوسرے (بُش جونیئر) کا بھائی جیب بُش بھی ان میں شامل تھا‘ جو خود بھی ایک امریکی ریاست کا گورنر رہا تھا۔
ڈونلڈ ٹرمپ کا ری پبلکن امیدوار بن جانا‘ خود ری پبلکن پارٹی کی اعلیٰ قیادت کے لیے حیرت (بلکہ صدمے) کا باعث تھا۔ بیشتر نے اس کے ساتھ ہی ”انا للہ‘‘ پڑھ لیا تھا۔ کانگریس کے ری پبلکن ارکان کا دُکھ بھی کم نہ تھا۔
ٹرمپ کی انتخابی مہم ان کے لیے مزید حیرت کا باعث تھی۔ امریکی سوسائٹی دنیا کی لبرل‘ وسیع القلب اور متحمل مزاج سوسائٹی ہونے کی دعویدار تھی‘ انسانی مساوات اور جمہوری اقدار کی علمبردار‘ جدید امریکہ کے فائونڈنگ فادرز کا نعرہ تھا‘ جس طرح چاند اور سورج پر سارے انسانوں کا حق ہے‘ قدرت کے وسائل سارے انسانوں کے لیے ہیں‘ اسی طرح امریکہ کے وسائل پر بھی سارے انسانوں کا حق ہے۔ امریکہ وسائل اور مواقع کی سرزمین تھا‘ (Land of Opportunities) جس سے استفادے کے لیے‘ دنیا کے جس بھی کونے سے جو بھی امریکہ کی سرزمین پر پہنچا‘ وہیں کا ہو رہا۔ امریکہ نے مادرِ مہربان کی طرح اپنی آغوش اس کے لیے وا کر دی۔
افریقہ سے غلام بنا کر لے جائے گئے سیاہ فام انسانوں کا المیہ الگ کہانی تھی۔ “Dogs & Black are not Allowed” کے الفاظ بڑے ہوٹلوں اور ریستورانوں کے دروازوں پر آویزاں ہوتے۔ ووٹ کے حق سمیت‘ برابر کے امریکیوں والے جملہ حقوق کے لیے انہیں جو جدوجہد کرنا پڑی‘ امریکی تاریخ کا اہم باب ہے۔ خواتین کے حوالے سے بھی امریکی سوسائٹی کی سوچ ایک عرصے تک ”رجعت پسندانہ‘‘ رہی۔ سیاہ فاموں کی طرح امریکہ کی سفید خواتین بھی عرصہ دراز تک ووٹ کے حق سے محروم رہیں۔ مختلف اداروں میں ان کی تنخواہیں اور دیگر مراعات مردوں کی نسبت کم تھیں (شاید اب بھی ایسا ہی ہو) ان تلخ حقائق کے باوجود امریکی سوسائٹی کو ایک ٹالرینٹ سوسائٹی ہونے کا دعویٰ تھا اور اب امریکہ کا صدارتی امیدوار یہاں نفرت اور خوف کی مہم چلا رہا تھا۔ دہشت گردی کے حوالے سے مسلمانوں کے خلاف… اور وائٹ امریکیوں کو بیروزگاری کے اندیشوں کا شکار کرکے‘ امیگرنٹس کے خلاف مہم۔ یہاں تک کہ اس نفرت انگیز مہم پر کیتھولک پوپ فرانسس بھی چیخ اُٹھے تھے۔
اِدھر ڈیموکریٹک ٹکٹ کے لیے ہلیری نے برنی سینڈرز کو پچھاڑ دیا تھا۔ وہ آٹھ سال تک خاتون اوّل کے طور پر وائٹ ہائوس کی مکین رہیں۔ کلنٹن کی دوسری ٹرم مکمل ہونے کے بعد وہ وائٹ ہائوس سے نکل آئیں‘ لیکن وائٹ ہائوس کو اپنے دل سے نہ نکال پائیں۔ سابق خاتون اوّل اب نیویارک سے سینیٹر تھیں‘ لیکن دلِ بے قرار کو قرار کہاں ؎
یہ کیا کہ اک جہاں کو کرو وقفِ اضطراب
یہ کیا کہ ایک دل کو شکیبا نہ کر سکو
2008ء میں وہ ڈیموکریٹک ٹکٹ کے لیے بارک حسین اوباما کے مدمقابل تھیں لیکن ڈیموکریٹس سیانے نکلے‘ وائٹ لیڈی (جو سابق خاتون اوّل بھی تھیں) کے مقابل انہوں نے سیاہ فام اوباما کو ڈیموکریٹک ٹکٹ تھما دیا‘ اگرچہ مضبوط اعصاب کی حامل‘ محکم ارادے والی ہلیری نے تب بھی ان تھک مہم چلائی تھی۔ اوباما کی پہلی ٹرم میں وہ ان کی وزیر خارجہ ہو گئیں۔
امریکی ڈیموکریٹس‘ اپنے حریف ری پبلکنز کے برعکس پُرامن دنیا کے دعویدار رہے ہیں‘ دنیا کو جمہوری دیکھنے کے خواہشمند ڈیموکریٹس عسکری مہم جوئی سے گریزاں ہونے کا امیج رکھتے ہیں۔ اوباما‘ افغانستان اور عراق کے حوالے سے اپنے پیشرو کے ناقد رہے تھے‘ وہ اس دعوے کے ساتھ آئے تھے کہ امریکہ کو افغانستان کے بوجھ سے نجات دلائیں گے۔ آٹھ سال گزر گئے‘ لیکن امریکی آج بھی افغانستان کی دلدل سے نہیں نکل سکے۔ اس دوران مشرق وسطیٰ بھی مزید انارکی اور خانہ جنگیوں کا شکار ہو چکا۔ ہلیری ان پالیسیوں کی پُرجوش حامی بلکہ محرک رہی تھیں۔ ہلیری اور ڈونلڈ… باشعور اور معاملہ فہم امریکی اسے دو برائیوں میں سے ایک کا انتخاب قرار دیتے‘ Lesser Evil والی بات… ادھر ہمارے بعض جمہوریت بیزار دوستوں کو طنز کا ایک اور بہانہ مل گیا تھا‘ امریکی جمہوریت‘ ہلیری اور ڈونلڈ میں سے کسی ایک کے انتخاب تک آ پہنچی ہے۔ زوال سا زوال! انگریزی میں “What a fall”۔
ادھر فوکس نیوز کے سوا‘ امریکہ کا سارا میڈیا ہلیری کی حمایت میں نکل آیا تھا۔ رائے عامہ کے جائزے ہلیری کی لینڈ سلائیڈ کی خبر دینے لگے۔ پاکستانی نژاد امریکیوں سمیت وہاں مقیم ساری ”ملتِ اسلامیہ‘‘ امیگرنٹس اور سیاہ فاموں سمیت تمام اقلیتوں کو ہلیری کے خیمے میں عافیت نظر آ رہی تھی؛ چنانچہ وہ ”باجماعت‘‘ اس کی حمایت میں نکل آئے تھے۔ خیال تھا‘ امریکہ کی سفید عورتیں بھی ہلیری کے صدقے واری جائیں گی‘ وائٹ امریکن مردوں میں بھی ”عقل سلیم‘‘ بروئے کار آئے گی اور ہلیری الیکشن جیت جائے گی۔ آخری دنوں میں ای میلز سکینڈلز کی ری اوپننگ‘ ہلیری کو خاصا نیچے لے آئی‘ یہ ٹرمپ کے لیے نعمت غیر مترقبہ تھی۔ بعد میں ایف بی آئی نے اگرچہ کلین چٹ دے دی‘ لیکن Damage ہو چکا تھا؛ تاہم اب بھی ہلیری چار پوائنٹ آگے تھی۔
ٹرمپ کی ساری زندگی ایک کامیاب بزنس مین کی زندگی تھی۔ اُسے اپنا سودا بیچنا آتا تھا‘ ایک ذہین کاروباری کے طور پر اسے معلوم تھا کہ مارکیٹ میں کس سودے کی گنجائش ہے۔ اب سیاست کی مارکیٹ میں بھی اس کی یہ صلاحیت کام آئی۔ خوف اور نفرت پر مبنی اس کا سودا بک گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہلیری کے لیے عورتوں کے ووٹ بھی توقع سے کہیں کم تھے‘ صرف 53 فیصد‘ جبکہ وہ 90 فیصد کا یقین کئے ہوئے تھی۔
اور اب تبصرہ نگار اور تجزیہ نگار‘ تبصروں اور تجزیوں میں مصروف ہیں۔ ایک دلچسپ نکتہ یہ بھی سامنے آیا کہ ہلیری کی شکست میں صدارت کے دو اور امیدواروں نے بھی اپنا حصہ ڈالا‘ جو بعض ریاستوں میں ڈیڑھ‘ ڈیڑھ‘ دو‘ دو لاکھ ووٹ لے اڑے اور وہاں یہی ”مارجن‘‘ ڈونلڈ کی کامیابی کا سبب بن گیا۔ ہمیں 1993ء کے الیکشن میں قاضی صاحب (مرحوم) کا اسلامک فرنٹ یاد آیا۔ خود پروفیسر غفور احمد صاحب کی کتاب ”بے نظیر بھٹو کا عروج و زوال‘‘ کے مطابق پنجاب میں قومی اسمبلی کی دس نشستیں ایسی تھیں جہاں فرنٹ کے باعث پیپلز پارٹی فائدے میں رہی‘ ورنہ یہاں مسلم لیگ کی نشستیں 73 سے بڑھ کر 83 ہو جاتیں (اور پیپلز پارٹی 89 کی بجائے 79 پر رہ جاتی) جبکہ صوبہ سرحد میں قومی اسمبلی کی پانچ نشستوں پر پیپلز پارٹی کو فائدہ پہنچا۔
ہنسی مسکراتی‘ کھیلتی‘ کھلکھلاتی ہلیری کے مقابل چہرے پر غصہ اور تنائو لیے خوف اور نفرت کی مہم چلانے والے ٹرمپ کو پرویز ہود بھائی نے اپنے عمران خان کے مماثل قرار دیا تھا۔ عمران خان پاکستان کا ڈونلڈ ٹرمپ‘ (یا ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کا عمران خان)…تب پرویز ہود بھائی پر تلملانے والے‘ عمران خان کے ٹائیگرز پر‘ اب ان کا شکریہ تو بنتا ہے…!!