منتخب کردہ کالم

وزارت عظمی کا بے رحم کھیل۔۔مزمل سہروردی

پا نا مہ کا بحران آہستہ آہستہ اپنے منطقی انجام کو پہنچ رہا ہے۔اب تو پورے پاکستان کو اندازہ ہے کہ کیا ہونے جا رہا ہے۔اس بات کے امکانات بھی کم ہی ہیں کہ پورے پاکستان کے اندازے غلط ثابت ہو جائیں۔پانامہ کھے بعد بھی جو ہونا ہے اس کا بھی سکرپٹ لکھا جا چکاہے۔ جس طرح اب کو ہو رہا ہے اس کو نہیں روکا جا سکا۔اسی طرح اس کے بعدکو ہونا ہے اس کو بھی نہیں روکا جا سکے گا۔بس دشمن مرے خوشی نہ کرئیے۔سجناں وی مر جانا۔
ایک عام خیال ہے کہ اس سارے بحران کا بالواسطہ اور براہ راست فائدہ تحریک انصاف اور عمران خان کو ہو گا۔
لیکن شائد ایسا نہیں ہے ۔یہ سارا کھیل عمران خان اور تحریک انصاف کے لئے نہیں کھیلا جا ہا ہے۔بے شک شاہ محمود قریشی نے وزیراعظم عمران خان کے نعرے لگوائے ہیں لیکن مجھے یا د ہے کہ 2008کے انتخابات سے قبل گجرات میں جلسہ تھا ۔چودھری برادران سٹیج پر مو جود تھے۔پنڈال بھراہو تھا ۔اور وزیراعظم پرویزالہی کے نعرے لگ رہے تھے پر جوش ہجوم تھا ۔سب خوش تھے لہ چودھری پرویزالہی وزارت عظمی کے بڑے امیدوار ہیں۔میں نے پوچھا کہ کہ کیا کھیل ہے۔بتایا گیا کہ جنرل مشرف سے بات ہو گئی ہے ۔شوکت عزیز کو کوئی ٹکٹ نہ ملی ۔ق لیگ کے پا س اپنے وزیراعظم کے لئے ٹکٹ ہی نہیں تھی اور شوکت عزیزگھر چلے گئے۔
انتخابی مہم شروع ہوئی ۔پرویز الہی نے انتخابی مہم کے لئے ہیلی کاپٹر بھی منگوالیا۔پووٹوکول بھی بتارہاتھا کہ سب طے ہے۔ بس رسمی کاروائی باقی ہے سابق سپیکرپنجاب اسمبلی افضل ساہی نے اپنے علاقے میں انتخابی جلسہ رکھا ہوا تھا ۔پرویزالہی پنڈال میں پہنچے اور وزیراعظم پرویزالہی کے نعرے لگ رہے تھے۔جلسہ کامیاب تھا سب خوش تھے ہیلی کاپٹر واپس لاہور کے لئے اڑا۔راستہ فضاء میں ہی اطلاع ملی کہ راولپنڈی میں محترمہ بے نظیر پر حملہ ہو گیا ۔اطلاعات آگئیں کہ حادثہ ہو گیا ہے ۔چودھری پرویزالہی سارے راستے فون پر بات کرتے رہے اور خاموش رہے۔لاہور ائیرپورٹ پر اترے اورخاموشی سے گھر چلے گئے ۔اور گیم بدل گئی ۔شوکت عزیز کے گھر جانے جے باوجود گیم ہاتھ سے نکل گئی ۔سب وعدے ٹوٹ گئے ۔یقین دہانیاں ختم ہوگئیں۔ملک کے وسیع تر مفاد میں چودھری کو ہار تسلیم کرنی پڑی ۔سیاسی تجزیہ نگارکہتے ہیں کہ اس دن دو موتیں ہوئیں،ایک متحرمہ بے نظیر بھٹو کی اور دوسری مسلم لیگ ق کی، اس کے بعد چودھری پرویز الہی ڈپٹی وزیراعظم ضرور بنے لیکن وزارت عظمی دور چلی گئی۔
اسی طرح یوسف رضا گیلانی کے بعد آصف زرداری مخدوم شہاب الدین کو وزیر اعظم بنانا چاہتے تھے۔ اس سلسلے میں انہوں نے اپنی میڈیا ٹیم کو باقاعدہ اعتماد میں لے لیا تھا۔ اس بات کا احتمال کر لیا گیا تھا کہ مخدوم شہاب الدین کے خلاف کچھ نہ آئے۔ سیاسی جوڑ توڑ بھی عروج پر تھا۔ سب مخدوم شہاب الدین کے لئے تھا۔ کہا جاتا ہے کہ آصف زرداری نے مخدوم شہاب الدین کے نام کے حوالے سے آرمی چیف کو بھی اعتماد میں لیا۔ جواب میں اس وقت کے آرمی چیف نے کہا کہ یہ ہمارا معاملہ نہیں۔ آپ جو مرضی کریں۔ اس جواب کو ہاں ہی سمجھا گیا اور مخدوم شہاب الدین کو گرین سگنل مل گیا۔ وہ کاغذات نامزدگی جمع کرانے کے لئے تیار ہو گئے۔ کاغذات مکمل ہو گئے ۔ بس اب جمع کرانے تھے لیکن یک دم ایفی ڈرین کیس میں ان کی ضمانت منصوخ ہو گئی اور سوال پیدا ہو گیا کہ ابھی ایک وزیر اعظم نا اہل ہوا ہے اور اگر دوسرا حلف اٹھاتے ہی گرفتار ہو گیا تو کیا ہو گا اور مخدوم شہاب کا نام ڈراپ ہو گیا ۔ راجہ پرویز اشرف کی لاٹری نکل آئی حالانکہ ان کا نام کہیں تھا ہی نہیں۔ان کو آصف زرداری کا انتقام بھی کہا گیا۔
اسی طرح 2002 کے انتخبات میں کنگز پارٹی کی سر براہی میاں اظہر کے پاس تھی۔ وہ لاہور کے دو حلقوں سے انتخاب لڑ رہے تھے۔ ہر طرف وزیر اعظم میاں اظہر کے نعرے تھے۔ عسکری قیادت ان کے ساتھ تھی۔ ٹکٹیں میاں اظہرکے گھر سے تقسیم ہو رہی تھیں۔ چوہدری برادران بھی میاں اظہر کے ساتھ تھے۔ یہ منظر نامہ صاف تھا کہ میاں اظہر وزیر اعظم ہوں گے اور پھر یک دم میاں اظہر لاہور کے دونوں حلقوں سے انتخاب ہار گئے۔ وہ جماعت اسلامی کے حافظ سلمان بٹ سے ہار گئے۔ جس کا امکان ہی نہیں تھا یہ لاہور کا ارائیں حلقہ تھا اسی لئے میاں اظہر یہاں سے لڑ رہے تھے لیکن وقت نے دیکھا کہ ارائیں حلقے سے ایک کشمیری جیت گیا۔ میاں اظہر انتخاب کیا ہارے، ان کی سیاست ختم ہو گئی۔ وہ وزیر اعظم بنتے بنتے اپنی سیاست ہی ختم کر بیٹھے بعد میں انہیں مکمل طور پر گھر بھیج دیا گیا۔ میر ظفر اللہ جمالی وزیر اعظم بن گئے۔ جن کا کوئی امکان ہی نہیں تھا ۔ کہیں نام ہی نہیں تھا، دوست بتاتے ہیں کہ ایک جنرل سے ٹکٹوں کی تقسیم کی لڑائی ہو گئی تھی۔ جس کے نتیجے میں ان کے ڈراپ کا فیصلہ ہو گیا۔ اسلمی جمہوری اتحاد کے وقت بھی میاں نواز شریف کا وزیر اعظم بننا طے نہیں تھا۔ غلام مصطفی جتوئی وزارت عظمیٰ کے امید وار تھے۔ سب تیاریں ان کے لئے تھیں لیکن جب وہ وزیر اعظم بننے اسلام آبا دپہنچے تو جماعت اسلامی نے اسلامی جمہوری اتحاد بنانے والوں کے ساتھ مل کر غلام مصطفی جتوئی کی گیم الٹ دی تھی۔ پھر نوز شریف کا نام سامنے آگیا ور اتفاق بھی ہو گیا۔
میر ظفر اللہ جمالی کو ہٹانے کا فیصلہ ہو گیا۔ جنرل پرویز مشرف ان سے سخت نا خوش تھے۔ تب ہمایوں اختر وزارت عظمیٰ کے امیدوار تھے۔ وہ لاہور میں کہتے پھرتے تھے کہ میری جنرل صاحب سے بات ہو گئی ہے۔ میں وزیر اعظیم پکا ہوں۔ لیکن شوکت عزیز آگئے۔ چودھری شجاعت حسین درمیانی مدت کے لئے آئے اور گھر چلے گئے۔
محترمہ بے نظیر بھٹو کی موت کے بعد مخدوم امین فہیم کا وزیر اعظم بننا بھی طے ہی تھا۔ سب انہی کو وزیر اعظم کا امیدوار سمجھ رہے تھے۔ پارٹی کی سنٹرل ایگزیکٹیو نے بھی انہیں ہی امیدوار نامزد کر دیا تھا۔ وہ وزیر اعظم بن رہے تھے۔سب راستے صاف تھے۔ لیکن آخری موقع پر گیم الٹ گئی اور یوسف رضا گیلانی آ گئے۔
یہ بھی درست ہے کہ میاں نواز شریف اور متحرمہ بے نظیر بھٹو کے حوالے سے یہ ابہام نہیں تھا کہ وہ اپنی جماعت کے وزیر اعظم نہیں ہو ں گے۔ ان پر کوئی سوالیہ نشان نہیں تھا لیکن باقی سوالیہ نشان رہے ہیں۔ اس لئے اگر مائنس کا فارمولہ چل نکلا ہے ۔ تو پھر اگلا کون ہو گا اس کا فیصلہ اتنا آسان نہیں۔ جو کلثوم نواز کا نام لے رہے ہیں ۔ ان کو بھی سوالیہ نشان سامنے رکھنے ہیں اور عمران خان کے حوالے سے بھی سوالیہ نشان موجود ہیں۔ یہ اقتدار کا کھیل ہے۔ بے رحم کھیل ہے ۔اور ہم یہ بھول رہے ہیں۔