پرانی مرسڈیز اور جمہوریت….منیر احمد بلوچ
”میرے پاس موجود سیاہ رنگ کی مرسڈیز اب کچھ پرانی سی لگنے لگی ہے اگر مجھے نئے ماڈل کی مرسڈیز عنایت کر دی جائے تو آپ کا احسان سمجھوں گا ‘‘۔۔۔ نئی مرسڈیز کی فرمائش کرنے والے کوئی اور نہیں بلکہ جمہوریت کو کمبل میں لپیٹ کر پھینکنے والے میر غوث بخش بزنجو اور میر حاصل بزنجو تھے اور جس سے نئی مرسڈیز کی دونوں باپ بیٹا فرمائش کر رہے تھے وہ کوئی اور نہیں بلکہ بقول حاصل بزنجو اور محمود خان اچکزئی فوجی ڈکٹیٹر چیف مارشل لاء ایڈ منسٹریٹر جنرل محمد ضیاء الحق تھے۔۔۔ جس نے ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی پر لٹکایا تھا ۔ پی پی پی کے چیئر مین اور مرحوم ذوالفقار علی بھٹو نے بحیثیت وزیر اعظم پاکستان میر غوث بخش بزنجو اور خان ولی خان سمیت ان کی جماعت کے کچھ ساتھیوں کو مبینہ طور پر ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہونے پر حیدر آباد جیل میں بند کر دیا جہاں ان کے خلاف ملک سے غداری کے جرم میں حید ر آباد ٹربیونل کے نام سے قائم کی جانے والی خصوصی عدالت میں ٹرائل ہو رہا تھا کہ پانچ جولائی1977 کو آرمی چیف جنرل محمد ضیا ء الحق نے بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹ کر ملک بھر میں مارشل لاء نافذ کر دیا ۔ کچھ عرصے بعد جنرل ضیا الحق نے بحیثیت چیف مارشل لاء ایڈ منسٹریٹر اپنے خصوصی اختیارات استعمال کرتے ہوئے غوث بخش بزنجو اور خان عبدالولی خان مرحوم کے خلاف درج غداری کے مقدمات واپس لیتے ہوئے ان سب کی رہائی کا حکم نامہ جاری کر دیا ۔
12 اگست1977 کو میر غوث بخش بزنجو اپنے بیٹے میر حاصل بزنجو کے ہمراہ جنرل ضیا الحق کا ذاتی طور پر شکریہ ادا کرنے کیلئے آرمی ہائوس پہنچے ۔انتہائی گرمجوشی سے ہونے والی اس ملاقات کے بعد میر غوث بخش بزنجو صاحب جب جانے لگے تو جنرل ضیا الحق نے بزنجو صاحب سے پوچھا کہ وہ ان کیلئے مزید کیا کر سکتے ہیں جس پر میرغوث بخش بزنجو صاحب جنرل ضیا الحق سے کہنے لگے کہ ان کی مرسڈیز گاڑی کچھ پرانی ہو گئی ہے اگر منا سب سمجھیں تو اس سلسلے میں مہربانی کر دی جائے ۔اپنے گھر آئے ہوئے مہمان کے منہ سے انتہائی قیمتی گاڑی کی فرمائش سن کر جنرل ضیاالحق کچھ حیران تو ہوئے لیکن انہوں نے ایک ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ اپنا بایاں ہاتھ بزنجو صاحب کے کندھے پر رکھتے ہوئے ملٹری سیکرٹری کو حکم دیا کہ ان کو فوری طور پر بالکل نئے ماڈل کی مرسڈیز خرید کر دی جائے۔
”آج پارلیمان کا منہ کالا ہو گیا غیر جمہوری قوتوں کو فتح حاصل ہوئی ‘اس ایوان میں بیٹھتے ہوئے مجھے شرم آرہی ہے آج سینیٹ کے چیئر مین کیلئے ووٹنگ کے عمل سے ثابت ہو گیا ہے کہ بالا دست طاقتیں پارلیمنٹ سے زیا دہ طاقتور ہیں آج اس انتخاب نے پارلیمنٹ کا منہ کالا کر دیاہے اور اس ایوان میں بیٹھتے ہوئے مجھے شرم آتی ہے ‘‘ یہ الفاظ میر حاصل خان بزنجو کے ہیں جو انہوں نے چیئر مین سینیٹ کے انتخاب میں اپوزیشن کے مشترکہ امیدوار صادق سنجرانی کی میاں نواز شریف اور محمود خان اچکزئی کے مشترکہ امیدوار راجہ ظفر الحق کے خلاف کامیابی کے بعد کہے ۔ میر حاصل بخش بزنجو کو اس وقت تکلیف کیوں نہیں ہوئی جب انہوں نے اپنے والد کے ساتھ کھڑے ہو کر چیف مارشل لاء ایڈ منسٹریٹر جنرل ضیا الحق سے ایک گھنٹے کی طویل ملاقات کی؟ اس وقت کیوں نہ ہوئی جب وہ ایک فوجی آمر اور غیر جمہوری قوت سے مفت میں سب سے قیمتی مرسڈیز دینے کی منت سماجت کر رہے تھے؟۔بزنجو صاحب اس وقت آپ کو افسوس کیوں نہ ہوا جب آپ غیر جمہوری قوت کے سپہ سالار کی مکمل حمایت کا اعلان کر رہے تھے؟۔ بزنجو صاحب آپ کواس وقت دکھ کیوں نہ ہوا جب آپ اس مرسڈیز کو گھر لے کر گئے؟۔ میر حاصل بزنجو صاحب آپ اس وقت شرمندہ کیوں نہ ہوئے جب آپ اپنی فیملی کے ساتھ جنرل ضیاالحق کی بخشی ہوئی مرسڈیز میں سفر کرتے تھے؟۔ جب آپ کو وہ مرسڈیز دی گئی تو اس وقت آپ کو ذرا برا بر بھی خیال نہ آیا کہ اس سے پارلیمان کا منہ کالا ہو جائے گا؟۔اس بیش قیمت مرسڈیز گاڑی کی ملکیت اپنے نام کراتے ہوئے آپ نے لمحہ بھر بھی نہ سوچا کہ یہ اس شخص کی دی گئی گاڑی ہے جسے ہم جمہوری لوگ میڈیا اور عوام کو بتانے کیلئے بالا دست قوت یا اسٹبلشمنٹ کہہ کر پکارتے ہیں؟۔ بزنجو صاحب جب آپ پارلیمان میں کھڑے ہوتے ہیں تو اس وقت سینے پر ہاتھ رکھ کر یہ بھی تو بتایا کریں کہ بالا دست قوتوں سے وزارتیں لینا حلال ہے؟۔ ان سے پلاٹ اور کمرشل اراضی لینا جائز ہے؟۔ ان کے دیئے گئے ٹاسک کو پورا کرنے کیلئے غیر ملکی شاہانہ دورے کرنا آپ جیسے جمہوریت پسندوں کا پیدائشی حق ہے؟۔
آپ اور محمود خان اچکزئی کے نزدیک جمہوریت شائد اس لاٹری کا نام ہے جس سے خاندان کے تمام چھوٹے بڑے پڑھے لکھے اور اَن پڑھ مرد و خواتین ، ملازم ، باورچی ڈرائیورسب بڑے بڑے عہدوں پر بٹھا دیئے جاتے ہیں؟۔آپ نے شائد اس رعونت کو جمہوریت کا نام دے رکھا ہے جس کے ذریعے سڑک پر کھڑے ہوئے امن و امان اور ٹریفک کنٹرول کرنے والے پولیس اہلکاروں کو اچکزئی کے بھائی اپنی تیز رفتار پجیرو کے نیچے کچل کر ہلاک کر دیں؟۔آپ کے نزدیک شائد جمہوریت اس کو کہا جاتا ہے جب دہشت گرد زیا رت میں قائد اعظم ریزیڈنسی کو آگ اور بارود سے تباہ کر دیں اور خبر ملنے پر آپ سب مل کر قہقہے لگانا شروع کر دیں؟۔
میر حاصل بزنجو صاحب اگر یہ کہا جائے کہ آپ نے سینیٹ الیکشن میں صادق سنجرانی کو ووٹ دینے کیلئے ایک بہت بڑے ملزم کے خلاف نیب کے مقدمات ختم کرانے کی شرط رکھی تھی تو کیا یہ غلط ہے؟۔بلوچستان بھر میں اٹھنے والی ان اطلاعات میں کتنی صداقت ہے کہ نیشنل پارٹی جس کے آپ سربراہ ہیں اس کے کوئٹہ سے رات گئے گرفتار کی جانے والی ایک بہت ہی اہم شخصیت سے انتہائی قریبی تعلقات تھے؟۔کیا یہ خبر غلط ہے کہ آپ کی پارٹی کے دور حکومت میں بلوچستان کے سیکرٹری خزانہ مشتاق رئیسانی جس کی رہائش گاہ سے نیب نے73 کروڑ روپے اور بے تحاشا غیر ملکی کرنسی بر آمد کی تھی؟۔کیا یہ خبر بھی آپ جھٹلائیں گے کہ 73 کروڑ کی یہ رقم اگلی صبح کسی اہم شخصیت کے پاس پہنچائی جانے والی تھی؟۔
کل تک میر حاصل خان بزنجو بلوچستان کے عوام کی محرومی اور بلوچ عوام کو اقتدار میں شریک نہ کرنے کے طعنے دیتے نہیں تھکتے تھے لیکن جب صادق عمرانی کی شکل میں ایک بلوچ سینیٹ کے چیئر مین کی حیثیت سے سامنے آیا تو آپ ایوان میں کھڑے ہو کر سنجرانی کو بحیثیت چیئر مین منتخب ہونے پر مبارکباد دینے کی بجائے بلوچستان کے سارے حقوق بھول کر اپنے مربی میاں نواز شریف کے بتائے گئے نوحے کہنا شروع ہو گئے۔ محترم بزنجو صاحب اگر سنجرانی، بگٹی یا انوار الحق کاکڑ نے اپنی جماعت مسلم لیگ نواز کو چھوڑا ہے تو اس میں گناہ کیا ہے؟۔ آپ کو یاد تو ہو گا کہ سب سے پہلے آپ نے پاکستان نیشنل پارٹی میں شمولیت اختیار کی تھی۔۔۔ لیکن پھر آپ نے سردار عطا اﷲ مینگل کی بلوچستان نیشنل پارٹی میںشمولیت کر لی۔۔پھر آپ کو یاد ہو گا کہ اس کے بعد آپ نے بلوچستان نیشنل پارٹی کے اندر ایک باغی گروپ جسے بلوچستان نیشنل ڈیمو کریٹک پارٹی کا نام دیا گیا اس میں شمولیت کر لی اوراس کے بعد ایک دفعہ پھر آپ بلوچستان نیشنل پارٹی میں شامل ہو گئے۔۔۔تو حضور اگر آپ اس قدر پارٹیاں بدل سکتے ہیں تو کیا صادق سنجرانی یا انوار الحق کاکڑ کی قسمت میں آپ کی طرح یہ لکھ دیا گیا ہے کہ وہ ہر صورت میاں نواز شریف سے فیض یاب ہوتے ہوئے ان کی غلامی ہی کرتے رہیں ؟۔!!