پروٹوکول اور عمران خان…الیاس شاکر
ملک معراج خالد مرحوم نگراں وزیر اعظم بنے تو انہوں نے قوم کو سادگی سکھانے کے لیے اپنے لیے ہر قسم کا سرکاری پروٹوکول منع کر دیا۔ ایک دن وہ مال روڈ سے گزر رہے تھے تو دیکھا کہ پولیس نے ہر طرف ٹریفک جام کر رکھی ہے۔ نگراں وزیر اعظم کے ڈرائیور کو بھی گاڑی روکنا پڑی۔ چند منٹ بعد پروٹوکول کے 16 موٹر سائیکل سوار نکل آئے… ان کے ساتھ کمانڈوز کی گاڑیاں… اور پھر سیاہ مرسیڈیز اور اس کے بعد درجن بھر دوسری گاڑیاں گزرنے لگیں۔
آدھا گھنٹہ انتظار کے بعد نگراں وزیراعظم نے گاڑی کا شیشہ نیچے کیا اور قریب کھڑے ایک کانسٹیبل کو اپنے پاس بلا کر پوچھا: ”بھائی‘ پچھلے آدھے گھنٹے سے ٹریفک کیوں بند ہے‘ یہ کون وی آئی پی ہے‘‘؟۔ کانسٹیبل نے انہیں پہچانے بغیر کہا ”جناب! گورنر پنجاب خواجہ طارق رحیم گزر رہے ہیں‘‘۔ ملک معراج خالد نے موبائل پر خواجہ رحیم سے رابطہ کیا اور کہا ”آپ کے پروٹوکول میں‘ میں بھی پھنسا ہوا ہوں۔‘‘ خواجہ طارق رحیم نے قہقہہ لگایا اور کہا ”ملک صاحب! معذرت لیکن اب تو میرے گزرنے کے بعد ہی ٹریفک کھلے گی اور میرے گزرنے میں ابھی ایک گھنٹہ باقی ہے‘‘۔ ایسا ہی ہوا۔ خواجہ طارق رحیم کا قافلہ کافی دیر بعد گزرا‘ اور سادگی پسند وزیر اعظم صاحب کی گاڑی کو 2 گھنٹے کے بعد آگے بڑھنا نصیب ہوا۔
محمد خان جونیجو (مرحوم) پاکستان کی تاریخ میں وہ واحد وزیر اعظم تھے جنہوں نے سادگی اپنائی اور سرکاری شاہ خرچیوں کو کنٹرول کیا۔ ان کے دور میں وزیر اعظم ہاؤس کا کھانے کا بل بہت بھاری ہوتا تھا۔ محمد خان جونیجو نے ناشتے‘ دوپہر کے کھانے اور ڈنر میں درجنوں ڈشوں کو میز پر سجے دیکھا تو فوراً نوٹس لیا اور کنٹرولر کو ہدایت کی کہ وہ ناشتے‘ لنچ اور ڈنر میں پیش کی جانے والی ڈشوں کی تعداد کم کر دے۔ اس ایک حکم سے وزیراعظم ہاؤس میں ماہانہ لاکھوں روپے کی بچت ہونے لگی۔ محمد خان جونیجو نے سادگی کی قابلِ تقلید مثال قائم کی تھی۔ انہوں نے اعلیٰ سرکاری افسروں کے ساتھ فوجی افسروںکو بھی بڑی بڑی گاڑیوں کی بجائے سوزوکی کاروں میں سفر کرنے کی ہدایت کی تھی۔
پاکستان میں کرپشن کی جتنی مثالیں ہیں سادگی کی اس سے ایک چوتھائی بھی نہیں۔ پہلے ہر جگہ کرپشن کا ذکر ہوتا تھا‘ اب سادگی موضوعِ بحث ہے۔ آپ جتنی چاہیں تنقید کر لیں‘ ایک کریڈٹ عمران خان کو دینا پڑے گا۔ انہوں نے جس موضوع کو چنا وہ پاکستان کا ”نمبر ون ایشو‘‘ بن گیا۔ وہ کرپشن پر بولے تو بچے بچے کو معلوم ہو گیا کہ کون سے سیاستدان نے کتنی کرپشن کی۔ انہوں نے منی لانڈرنگ پر بات کی تو پورے ملک کو پیسہ چوری کرکے باہر لے جانے کا فارمولا سمجھ آ گیا۔ عمران خان وزیراعظم بنے تو سادگی پر عمل درآمد شروع کر دیا۔ ”ہائی ٹی‘‘ کی جگہ صرف ”ٹی‘‘ پیش کی جانے لگی۔ 80 وی آئی پی گاڑیوں کو فروخت کرنے کی تیاریاں مکمل کر لیں۔ ایسے میں جب وہ ہیلی کاپٹر سے بنی گالا جا رہے ہیں تو پورے ملک میں ہیلی کاپٹر موضوع بحث بن گیا ہے۔ آج تک کسی کو یہ نہیں معلوم تھا کہ وزیراعظم کے پاس کتنے ہیلی کاپٹر ہوتے ہیں‘ ان پر کتنا خرچہ آتا ہے‘ لیکن پہلی بار پاکستان گوگل پر ہیلی کاپٹر سرچ کرنے والے ممالک میں پہلے نمبر پر آگیا‘ حالانکہ ماضی میں وزیراعظم کے ہیلی کاپٹر ”کیٹرنگ‘‘ کی سوزکیوں کی طرح استعمال ہوتے رہے‘ ان پر دیگیں‘ نہاری اور پائے کی ڈشیں لائی جاتی رہی ہیں۔ یہ کمال عمران خان کی شخصیت کا ہے ان سے منسوب ہر چیز شہرت کی بلندیوں پر پہنچ رہی ہے۔ نوجوت سنگھ سدھو کو بھارت میں ایک کامیڈی شو کے جج کی وجہ سے زیادہ پہچانا جاتا تھا‘ لیکن آج انہیں پوری دنیا عمران خان کے دوست کی حیثیت سے جانتی ہے۔ عثمان بزدار کی ننھی ننھی خواہشوں نے انہیں بھی ”پاپولر چیف منسٹر‘‘ بنا دیا۔ خاور مانیکا اور احسن جمیل کو کوئی جانتا تک نہ تھا۔ آج سب کو یہ بھی معلوم ہو گیا ہے کہ خاور مانیکا اپنی بیٹی کو سکول سے سہ پہر تین بجے لینے جاتے ہیں‘ جبکہ احسن جمیل کے والد اقبال گجر پنجاب اسمبلی میں سپیکر کا انتخاب لڑ کر اتنے مقبول نہیں ہوئے جتنے اپنے بیٹے کی وجہ سے ہو گئے ہیں۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ باپ مسلم لیگ ن اور بیٹا پی ٹی آئی کا حمایتی ہے۔ شیخ رشید پہلے سے زیادہ ”پاپولر‘‘ ہو گئے۔ فیاض چوہان ”مقبولیت‘‘ میں فواد چوہدری سے بھی آگے نکل گئے۔
کہتے ہیں جب کسی کے ستارے عروج پر ہوں تو اس پر کوئی جادو بھی اثر نہیں کرتا۔ لگتا ہے عمران خان کے ستارے اس وقت بلند ترین ہیں۔ ”پرائم ٹائم‘‘ کے بڑے بڑے دانشور کہتے رہے کہ آج جتنی مضبوط اپوزیشن کبھی نہیں آئی‘ لیکن قدرت کا کمال کہیں یا کچھ اور کہ اس سے کمزور اپوزیشن کبھی نہیں دیکھی گئی‘ جو وزیر اعظم اور صدر کے انتخاب پر بھی ایک نہ ہو سکی۔ دھاندلی کا سب سے زیادہ شور مچانے والے صدارتی امیدوار بن گئے۔ اسمبلیوں کا حلف نہ اٹھانے والے انہی اسمبلیوں کے ارکان کے گھروں پر جا کر یہی صدا لگا رہے تھے ”ایک ووٹ کا سوال ہے بابا!!‘‘۔
گستاخانہ خاکوں پر وزیراعظم نے سخت موقف رکھا۔ وزیرخارجہ نے ڈچ وزیرخارجہ کو فون کرکے احتجاج ریکارڈ کرایا‘ لیکن قدرت کا ایک اور کرشمہ دیکھیں‘ جس وقت تحریک لبیک پاکستان کا لانگ مارچ راولپنڈی میں داخل ہوا چاہتا تھا‘ راولپنڈی کے داخلی راستوں پر کنٹینر رکھے جانے والے تھے‘ ایک اور دھرنا نئی نویلی حکومت کا منتظر تھا‘ عمران خان کا کڑا امتحان قریب تھا‘ عین اسی وقت جب حکومتی وفد وزیر خارجہ کی قیادت میں احتجاجی مظاہرین سے مذاکرات کر رہے تھے‘ دفتر خارجہ سے فون آیا کہ ”ہالینڈ نے گستاخانہ خاکوں کا مقابلہ منسوخ کر دیا ہے‘‘۔ شاہ محمود قریشی نے یہ خبر سب کو سنائی۔ غم و غصہ سے بھرے مظاہرین میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اور دھرنا دیئے بغیر معاملہ قدرتی طور پر حل ہو گیا۔
عمران خان کو جس جس نے عزت دی اس نے توقع سے بڑھ کر عزت پائی اور جس نے رسوا کرنے کی کوشش کی وہ خود ہی اس انجام کو پہنچا۔ چند مثالیں تو آنکھوں کے سامنے ہیں۔ عائشہ گلالئی نے جتنی تنقید کی اسے اتنے ہی کم ووٹ ملے۔ انتخابات کے بعد انہوں نے میڈیا سے ہی دوری اختیارکرلی۔ ریحام خان کی کتاب اتنی پڑھی گئی کہ ”ختم‘‘ ہی ہوگئی۔ بیشتر لوگوں کو پتہ ہی نہیں کہ وہ آج کل لندن میں گمنامی کی زندگی بسر کر رہی ہیں۔ پاکستانی میڈیا نے جب ان کو ”لفٹ‘‘ نہ کرائی تو انہوں نے بھارتی چینلزکا سہارا لینا شروع کیا لیکن جب ان ٹی وی چینلز کو بھی ریٹنگ نہیں ملی تو وہ بھی دورہوگئے۔ اب کبھی کبھار ٹویٹ کے ذریعے اپنی موجودگی کا احساس دلانے کی کوشش کرتی ہیں لیکن مخالفین انہیں ایسا کرنے بھی نہیں دے رہے۔ دانیال‘ طلال‘ عابد شیرعلی اور ان جیسے دیگر ”جوشیلے‘‘ مقررین کو ٹی وی چینلز بھی بلانے کو تیار نہیں۔
پروٹوکول اور سکیورٹی میں فرق ضرور مدنظر رکھنا چاہئے۔ حساس اداروں نے خان صاحب سے بار بار گزارش کی ہے کہ اپنی سکیورٹی پر ”کمپرومائز‘‘ نہ کریں۔ سکیورٹی ایجنسیوں کو اس وقت عمران خان کی جان کی سب سے زیادہ فکر ہے‘ لیکن اس بار معاملہ اندرونی سے زیادہ بیرونی ”ٹارگٹ کلنگ‘‘ کا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو‘ جنرل ضیاء الحق اور بینظیر بھٹو کے بعد عمران خان چوتھے پاکستانی حکمران ہیں جن کے درپے عالمی اسٹیبلشمنٹ ہے۔ وجوہات کئی ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کے جی ایچ کیو کے دورے کو ہی دیکھ لیں۔ گرمجوشی سے استقبال‘ آٹھ گھنٹے کی بریفنگ‘ جی ایچ کیو میں کسی سویلین کی جانب سے اجلاس کی صدارت نے سب کو خاموش کرا دیا ہے۔ بعض ”دانشور‘‘ کہتے ہیں کہ ”عمران خان پہلی بار وزیراعظم بنے ہیں اس لئے انہیں تمام بریفنگ دی گئی‘‘ لیکن وہ یہ نہیں بتاتے کہ یوسف رضا گیلانی‘ راجہ پرویز اشرف اور شاہد خاقان عباسی بھی پہلی بار وزیر اعظم بنے تھے۔ انہیں تو طویل بریفنگ نہیں دی گئی تھی۔ پاکستان کی فوج دنیا کی بہترین افواج میں سے ایک ہے‘ اور اسے بھی یہ واضح طور پر معلوم ہے کہ کرپشن نے اس ملک کو کتنا کھوکھلا کیا ہے۔ ملکی معاشی حالت کے اثرات پاک افواج پر نہ پڑیں یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ ملکی معیشت مضبوط ہوگی تو فوج زیادہ مضبوط ہوگی‘ اور یہ سب کچھ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک منی لانڈرنگ روک کر بیرونِ ممالک موجود رقوم واپس نہیں لائی جاتیں۔ پاکستان کی خارجہ اور داخلہ پالیسی پہلی بار اتنی مضبوط ہونے جا رہی ہے جتنی شاید ہی کبھی ہو۔ عالمی اتحادی تبدیل ہو رہے ہیں۔ ماضی کے حریف حلیف بن رہے ہیں۔ روس‘ چین‘ ترکی‘ ایران اور پاکستان ایک بلاک میں جا رہے ہیں۔ امریکا کے ڈومور کو اب ”نومور‘‘ کہا جا سکتا ہے اور یہ وہی وزیراعظم کہہ سکتا ہے جو سینئر صحافیوں کے ساتھ ملاقات کے دوران فرانسیسی صدر کی دو بار کال آنے پر یہ کہہ دے ”میں ابھی مصروف ہوں بعد میں فون کرتا ہوں‘‘۔