پروٹوکول…حبیب اکرم
تین ہفتے ہوتے ہیں کہ ایک اتوار کی شام کو لاہور کی رائے ونڈ روڈ کے قریب ایک چوک پر ٹریفک پولیس والوں نے چند رکاوٹیں یوں کھڑی کر دیں کہ صرف رائے ونڈ روڈ سے آنے والا ٹریفک گزر سکے۔ چند ہی لمحوں میں چوک کے تین اطراف میں گاڑیوں کی لمبی لمبی قطاریں لگ گئیں۔ چند لمحے مزید گزرے تو تمام گاڑیوں کے ہارن بیک وقت چلّانے لگے۔ اتنے ہارن بیک وقت سن کر چوک میں کھڑے ٹریفک وارڈن پریشان ہو گئے اور ہارن بجاتی گاڑیوں کی طرف دوڑے کہ انہیں کسی صورت سڑک بند کرنے کی وجہ بتائیں۔ ان کی بتائی ہوئی وجہ کے مطابق کسی بڑی شخصیت نے یہاں سے گزرنا تھا اس لیے یہ تھوڑی دیر کے لیے حفاظتی غرض سے بند کی گئی تھی۔ جیسے ہی لوگوں کو یہ وجہ معلوم ہوئی، وہ اپنی گاڑیوں سے باہر نکل آئے اور ہر شخص غصے میں پھنکارتا ہوا گزرنے والی شخصیت کا نام جانے بغیر گالیاں دینے لگا۔ ایک آدھ منٹ میں ہی یہ غصہ اتنا بڑھا کہ چند نوجوانوں نے یہ رکاوٹیں دھکیل کر ایک طرف لگا دیں اور گاڑیاں دوبارہ رواں ہو گئیں۔ معلوم نہیں جس شخصیت کے لیے سڑک بند کرنے کا اہتمام کیا گیا تھا وہ کیسے اور کہاں سے گزری مگر یقین ہے کہ کم از کم اس چوک سے نہیں گزری جو لوگوں نے خود ہی کھلوا لیا تھا۔
اوپر بیان کردہ منظر میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور لوگوں کی باتیں بھی سنیں۔ ان لوگوں کے غصے کی وجہ یہ نہیں تھی کہ وہ کسی خاص شخص کے لیے کیے گئے حفاظتی اقدامات کے خلاف تھے بلکہ ان کا غصہ خالصتاً اس پروٹوکول کے خلاف تھا‘ جو سکیورٹی کے نام پر اب ہر اس شخص کے ساتھ چلتا ہے جو کسی نہ کسی طرح حکومت یا حکمرانوں کے قریب ہے۔ اسسٹنٹ کمشنر سے لے کر چیف سیکرٹری تک، پولیس انسپکٹر سے لے کر آئی جی تک، صوبائی وزیر مشیر سے لے کر صدر مملکت تک عوام کے مقدر کے ان ستاروں کو غیر معمولی حفاظتی اقدامات کی رعایت (بالکل غلط طور پر) اس وقت ملی تھی جب ملک میں دہشت گرد دندناتے پھر رہے تھے۔ اب جبکہ دہشت گردی کی کمر ٹوٹ چکی ہے تو سکیورٹی کے نام پر سرکاری تام جھام کا بوجھ عوام برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اگر آج بھی دہشت گرد پہلے جتنے طاقتور ہیں تو پھر حفاظتی حصار میں رہنے والے حکمرانو ں کو شرم سے ڈوب مرنا چاہیے کہ وہ ہم سے جھوٹ بول رہے ہیں اور اگر دہشت گرد اپنے انجام کو پہنچ رہے ہیں تو اتنے حفاظتی اقدامات سوائے پروٹوکول کے اور شان و شوکت بڑھانے کے کچھ بھی نہیں۔ لہٰذا اس بندوبست کے خلاف عوام کا غم و غصہ بالکل بجا اور بر محل ہے، بلکہ مجھے تو لگتا ہے ضرورت سے کچھ کم ہے۔ ہمارے خون پسینے کے کمائی سے تنخواہ لینے والے ملازم ان مچھندروں کی جاہ پسندی کی خواہش کی تسکین کرتے رہیں، یہ گوارا نہیں کیا جا سکتا، ہرگز گوارا نہیں کیا جا سکتا۔
حفاظت کے نام پر پروٹوکول کے انتظامات کو پہلی مرتبہ للکارنے کا سہرا کراچی والوں کے سر پر ہے۔ سب سے پہلے اسی شہر کے لوگوں نے پروٹوکول کے نام پر بند کی جانے والی سڑکوں کی رکاوٹیں ہٹا کر ملک بھر کے لوگوں کو حوصلہ دیا کہ یہ ریاست ہماری ہے، ہم اس کے مالک ہیں اور مالکوں کے راستے بند کر کے ریاست کے ملازم دندناتے ہوئے نہیں گزر سکتے۔ ہم سب نے سوشل میڈیا پر دیکھا ہے کہ کس طرح کراچی میں بالخصوص پروٹوکول کے لیے بند کی جانے والی سڑکیں عوام کھلوا لیتے ہیں۔ کراچی میں تو کسی بھی شخصیت کے لیے سڑک بند کرنے کے خلاف لوگوں میں اتنا لاوا پک چکا ہے کہ شہر کی پولیس بھی اب کوئی سڑک بند کرنے سے پہلے سو مرتبہ سوچتی ہے۔ عوام میں بڑھتی ہوئی بے چینی کے باوجود صوبہ سندھ میں پروٹوکول کی بیماری اتنی عام ہے کہ ہر کس و ناکس کے ساتھ پولیس کی گاڑیاں ہیبت ناک طریقے سے چلتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔ پچھلے سال اکتوبر میں مبینہ طور پر نواب شاہ سے سندھ اسمبلی کے رکن عبدالقادر چانڈیو کے ساتھ چلنے والی پروٹوکول کی گاڑیوں نے کراچی میں ایک سترہ سالہ نوجوان کو کچل دیا تھا‘ جو پانچ دن بعد پروٹوکول کے زخموں کی تاب نہ لا کر اگلے جہان سدھار گیا تھا۔ کراچی میں ہی ایک نامعلوم شخصیت کے اردل میں چلنے والے پولیس والوں کی ایک ویڈیو بھی ہم سب نے دیکھ رکھی ہے جس میں دو پولیس اہلکار قریب کھڑی گاڑی میں بیٹھے شخص کو صرف اس لیے تھپڑ مارتے اور گالیاں دیتے ہیں کہ وہ اس شخصیت کا پروٹوکول اپنے موبائل پر ریکارڈ کر رہا تھا۔ سندھ میں پروٹوکول کی بیماری اتنی بڑھی ہوئی ہے کہ چند ایک کو چھوڑ کر یہاں کے ہر رکنِ قومی و صوبائی اسمبلی اور سینیٹر کے پاس سرکاری گارڈ موجود ہیں۔ اگر منتخب نمائندے کا تعلق حکمران جماعت یعنی پیپلز پارٹی سے ہے تو کیا ہی کہنے۔ پھر گھر، دفتر، بچے، بہن بھائی بلکہ چاچے مامے بھی پروٹوکول کے بغیر حرکت نہیں کرتے۔ کراچی میں تو عوام نے پروٹوکول کی بے حیائی پر کچھ قابو پا لیا ہے مگر اندرونِ سندھ یہ کھیل پوری بے شرمی کے ساتھ جاری ہے۔ اور یقین مانیے اندرونِ سندھ کے باسیوں کے صبر کا پیمانہ بھی لبریز ہوا چاہتا ہے۔
پنجاب میں پروٹوکول کی گنجائش قانون کو توڑ مروڑ کر نکالی گئی ہے۔ کئی وفادارانِ مسلم لیگ ن کو ایسے ایسے سرکاری عہدوں پر فائز کر دیا گیا ہے جہاں وہ اپنے ساتھ پولیس کی گاڑیاں لے کر چلتے ہیں۔ کئی لوگوں کو ” قانون و ضابطے‘‘ کے عین مطابق ایسی ایسی کمیٹیوں کا رکن بنا دیا گیا ہے‘ جن کے زور پر مہنگی ترین گاڑیوں میں گھومتے ہیں اور کوئی انہیں پوچھنے والا نہیں۔ پراسرار انداز میں حکومتی اراکینِ اسمبلی کے گھروں میں سرکاری تنخواہ لینے والے ملازمین مہیا ہو جاتے ہیں‘ جو علاقے میں ان کی شان بڑھاتے ہیں۔ ہر صوبائی وزیر اپنے ساتھ پولیس موبائل رکھتا ہے مگر کاغذوں میں یہ ‘درویش خدا مست‘ نظر آتا ہے۔ سابق وزیر خزانہ قبلہ اسحٰق ڈار کا طریقہ واردات تو دنیا کے سامنے آ گیا کہ کس طرح آنجناب نے سرکاری پیسوں سے قابل نفرت انداز میں کھیل کا میدان کٹوا کر اپنے گھر آنے والی سڑک سیدھی کرا لی۔ یہ وارداتیں اتنی باریکی سے ڈالی جاتی ہیں کہ میڈیا اور عدالت کی تیز نگاہوں سے بھی اوجھل رہ جاتی ہیں اور وارداتیے اپنا کام جاری رکھتے ہیں۔
سندھ اور پنجاب کے برعکس پروٹوکول کے معاملے میں صوبہ خیبر پختونخوا کا ریکارڈ سب سے بہتر ہے۔ میں نے نوشہرہ میں وزیر اعلیٰ کے گاؤں جا کر دیکھا ہے کہ ان کے گھر کے سامنے سرکاری تو دور کی بات، کوئی پرائیویٹ گارڈ بھی نہیں کھڑا تھا۔ پشاور کے لوگوں کا عمومی مشاہدہ ہے کہ وزیر اعلیٰ پرویز خٹک ایک گاڑی اور ایک پولیس موبائل میں سفر کر رہے ہوتے ہیں۔ تین برس ہوتے ہیں کہ مردان کی ایک سڑک کے کنارے صوبائی وزیر عاطف خان نے مجھے عام لوگو ں کے بیچ کھڑے ہو کر انٹرویو دیا اور کوئی پولیس کی گاڑی یا باوردی پولیس والا ان کے ساتھ نہیں تھا۔ شاہ فرمان اکیلے اپنی گاڑی میں گھومتے ہیں۔ اسی طرح شوکت یوسفزئی کئی بار اپنی گاڑی خود چلاتے ہوئے اخبارات اور ٹی وی کے دفاتر میں چکر لگاتے نظر آتے ہیں۔ عمران خان خود بھی ابتدائی چند غلطیوں کے بعد سنبھل چکے ہیں لیکن ان کا طرزِ عمل بھی اب تک مثالی نہیں۔
حفاظت کے نام پر پروٹوکول کی یہ بدعت اتنی بڑھ چکی ہے کہ اب ایک عام آدمی ان سے بھی نہیں مل سکتا جو روزانہ ووٹ کے تقدس کی دہائیاں دیتے پھرتے ہیں یا بھٹو کی زندگی کی نوید سناتے ہیں۔ یہ لوگ اپنے گھر میں بھی ایک سے دوسرے کمرے میں جاتے ہیں تو پولیس کی بنائی ہوئی انسانی دیوار کے بیچ میں چلتے ہیں۔ ان کے گرد موجود گارڈ قریب پھٹکنے والے کی ایسی مثالی بے عزتی کرتے ہیں کہ غیرت والا ہو تو زندگی میں انہیں دوبارہ منہ نہ لگائے اور یہ سب کچھ حفاظتی اقدامات کے نام پر ہوتا ہے۔ عوام کے پیسے کے زور پر ہوتا ہے۔ میری اور آپ کی خون پسینے کی کمائی ذاتی شان و شوکت میں اڑا دی جاتی ہے۔ نجانے یہ سلسلہ کب تک چلتا رہے گا؟