منتخب کردہ کالم

پرویز خٹک اسمبلی توڑنے کا آغاز گھر سے کیوں نہیں کرتے ؟

جہانگیر

پرویز خٹک اسمبلی توڑنے کا آغاز گھر سے کیوں نہیں کرتے ؟

تجزیہ: قدرت اللہ چودھری

صوبہ خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ پرویز خٹک نے مطالبہ کیا ہے کہ وزیراعظم شاہد خاقا ن عباسی ’’اسمبلیاں‘‘ تحلیل کردیں، اس سے پرویز خٹک کی مراد لازماٰ قومی اسمبلی تحلیل کرنے سے ہوگی کیونکہ انہیں صرف یہی اختیار حاصل ہے کہ وہ قومی اسمبلی کی تحلیل کیلئے صدر مملکت کو مشورہ دے سکیں، اب معلوم نہیں پرویز خٹک نے لفظ ’’اسمبلیاں‘‘ خود استعمال کیا یا اخبارات تک پہنچتے پہنچتے قومی اسمبلی، ’’اسمبلیاں‘‘ بن گئیں، جہاں تک باقی اسمبلیوں کا تعلق ہے انہیں توڑنے کا اختیار صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کو حاصل ہے، خود پرویز خٹک جب چاہیں اپنے صوبے کی اسمبلی توڑنے کی ایڈوائس صوبائی گورنر کو دے سکتے ہیں، جو 48 گھنٹے کے اندر اندر ان کی ایڈوائس پر عملدرآمد کے پابند ہوں گے اور اگر وہ ایسا نہیں کریں گے تو یہ مدت گذرنے کے بعد اسمبلی خود بخود تحلیل شدہ تصور کی جائیگی، جو مطالبہ وزیراعلیٰ خٹک نے وزیراعظم عباسی سے کیا ہے یقینی نہیں کہ وہ مانا جائے، لیکن جو اختیار وزیراعلیٰ کے اپنے پاس موجود ہے وہ اسے خود کیوں استعمال نہیں کرتے؟ وہ اگر محسوس کرتے ہیں کہ انتخابات قبل از وقت ہونے چاہیں تو اس نیک کام کی ابتدا اپنے گھر سے کریں اور دوسروں کے لئے مثال بنیں اور کے پی کے اسمبلی توڑنے کے لئے فوری طور پر گورنر کو ایڈوائس بھیج دیں۔ اسمبلی ٹوٹ جائیگی تو صوبائی اسمبلی کی دوبارہ تشکیل کیلئے انتخابات مقررہ آئینی مدت میں کرانے پڑیں گے، ویسے پاکستان میں انتخابات جب بھی ہوئے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات اکٹھے ہی ہوئے، پہلے تو یہ ہوتا تھا کہ قومی اسمبلی کا انتخاب ایک دن ہوتا اور دو دن کے وقفے کے بعد صوبائی انتخابات ہوجاتے، پھر قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ایک ہی دن کرائے جانے لگے۔ وزیراعلیٰ پرویز خٹک صوبائی اسمبلی توڑ دیں گے تو پھر صوبے میں انتخابات کرانے کے سوا کوئی چارہ کار نہیں رہے گا، اور ایک ہی دن انتخاب کرانے کی روایت بھی ختم ہوجائیگی، ہمارے خیال میں پرویز خٹک کو یہ قدم اس لئے بھی اٹھا لینا چاہئے کہ تحریک انصاف کا دعویٰ ہے کہ اس نے صوبے میں خوشحالی کے ایسے پھریرے لہرا دئے ہیں جو کسی دوسرے صوبے میں اڑتے دکھائی نہیں دیتے، پولیس اس حد تک عوام کی خدمت گذار ہوگئی ہے کہ تھانے دارالامن بن گئے ہیں، ایک زمانے میں پنجاب میں بھی تھانوں کا نام دارالامن رکھ دیا گیا تھا لیکن محض نام رکھنے سے تو تھانہ کلچر نہیں بدل جاتا اگر کسی کو یہ بدلا ہوا کلچر دیکھنا ہو تو بس میں سوار ہوکر جی ٹی روڈ کے راستے اٹک کے پل پر پہنچ جائے اور بچشمِ خود دیکھے کہ پل کے پار پولیس کا رویہ کیا ہے، اور اس جانب یعنی پنجاب میں پولیس لوگوں سے کیا سلوک کرتی ہے، آپ براہ کرم ڈیرہ اسماعیل خان کے حالیہ شرمناک واقعہ کی مثال نہ دیں کیونکہ یہ شہر اگرچہ انتظامی طور پر تو صوبے کا حصہ ہے لیکن کسی زمانے میں یہ پنجاب ہی کا ایک ضلع تھا اور جب اسے اس وقت کے صوبہ سرحد میں شامل کیا گیا تو یہ فیصلہ پسند نہیں کیا گیا تھا، ویسے بھی ڈی آئی خان میں پشتو زیادہ نہیں بولی جاتی، سرائیکی کا راج ہے، اسلئے اگر پولیس نے ایک مظلوم لڑکی کے لواحقین کے خلاف ہی مقدمہ درج کرلیا تھا اور سیاسی دباؤ میں آگئی تھی تو یہ در حقیقت سرائیکی کلچر کا شاخسانہ تھا، سرائیکی علاقوں کے لوگ اسی لئے ’’تختِ لاہور‘‘ کی بالادستی کا رونا روتے رہتے ہیں کیونکہ ان کا یہ خیال ہے کہ ان کی محرومیوں کی وجہ تختِ لاہور ہے، بات کسی اور طرف نہ نکل جائے ہم صرف یہ عرض کررہے تھے کہ صوبہ خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف نے عوام کی جو خدمت کی ہے اس کی وجہ سے صوبے کے عوام اسے دوبارہ حکومت میں دیکھنا چاہیں گے اگرچہ آج تک تو انہوں نے صوبے کی کسی سیاسی جماعت کو دوبارہ برسراقتدار لانے کا اعزاز کبھی نہیں بخشا لیکن تحریک انصاف کے سر پر یہ سہرا اگر دوبارہ سجتا ہوا محسوس ہوتا ہے تو اس میں دیر نہیں ہونی چاہئے، پرویز خٹک کو پہل کاری کرتے ہوئے صوبے کی اسمبلی توڑ دینی چاہئے، صوبائی انتخابات ہوں گے تو وہ ثابت کردیں گے کہ تحریک انصاف پاپولر جماعت ہے اس وقت مجبوراً جماعت اسلامی کو شامل کرکے مخلوط حکومت بنائی گئی ہے ایم ایم اے کی بحالی کے بعد ممکن ہے جماعتِ اسلامی الگ ہوجائے اس لئے پہلے ہی اس کی محتاجی سے نجات حاصل کرلینی چاہئے۔ اس کے بعد تحریک انصاف زیادہ شدت کے ساتھ وزیراعظم سے قومی اسمبلی توڑنے کا مطالبہ کرنے میں حق بجانب ہوگی۔
جہاں تک باقی صوبوں کا تعلق ہے وہ تو پرویز خٹک کا ساتھ نہیں دیں گے اور اپنے صوبوں کی اسمبلیاں نہیں توڑیں گے کیونکہ ان صوبوں میں جو جماعتیں برسر اقتدار ہیں وہ قبل از وقت اتنخابات نہیں چاہتیں، چونکہ تحریک انصاف اس معاملے میں منفرد ہے، اسے انتخابات کی بھی جلدی ہے اور وزیراعظم اس کا یہ مطالبہ نہیں مان رہے، عمران خان کو تو وزیراعظم کی وزارتِ عظمیٰ ایک آنکھ نہیں بھاتی، وہ انہیں کٹھ پتلی سمجھتے ہیں، آچ جب انہوں نے اس مفہوم کا ٹویٹ کیا تو جوابی ٹویٹ یہ ملا کٹھ پتلی اور عمران خان ہم معنی الفاظ ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ شاہد خاقان عباسی نہ صرف استعفا دیں بلکہ اسمبلی توڑ کر نئے انتخابات کرائیں، اگرچہ الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ نئی حلقہ بندیوں کا کافی کام کرنے والا ہوگا اسلئے آئینی ترمیم کی تکمیل کے بعد ہی وہ یہ کام شروع کریں گے، جب تک حلقہ بندیوں وغیرہ کا کام مکمل ہوگا اس وقت تک تو ویسے ہی اسمبلی کی مدت پوری ہونے والی ہوگی، اسلئے ہمارے خیال میں ملک میں انتخابی ماحول پیدا کرنے کیلئے یہ بہت ضروری ہے کہ پرویز خٹک اپنے صوبے کی اسمبلی توڑنے کا فیصلہ کرلیں، اس کا یہ بھی فائدہ ہوگا کہ دوسرے صوبے بھی اس کے فوائد کو اپنی آنکھ سے دیکھ کر اس سلسلے میں کوئی فیصلہ کرسکیں گے۔