منتخب کردہ کالم

پرویز مشرف اور ایم کیوایم !! کالم الیاس شاکر

پاکستان کے سابق صدر پرویز مشرف نے عجیب وغریب تجویزدے کر کراچی سمیت سندھ کے شہری علاقوں کے باسیوں کوحیران کردیا ہے۔انہوں نے چند روز قبل ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا کہ ”ایم کیو ایم تیس سال چل گئی اب مزید نہیں چل سکتی اسے ختم کردینا چاہیئے‘‘۔ایسی تجویزکسی بھی طور پر کوئی جمہوری شخص نہیں دے سکتا۔پرویز مشرف صاحب نے شایدایم کیو ایم کو بیڈفورڈکمپنی کی بس سمجھ لیا کہ تیس سال میں اس کی باڈی سڑ گئی‘انجن ختم ہوگیا ‘چیسزگل گیا‘اسٹپنیاں خراب ہوگئیںکہ یہ اب سڑک پر چلنے کے قابل نہیں رہی۔پرویز مشرف نے اپنے طویل دور ِاقتدار میں کراچی سے پرانی بسوں ‘ٹیکسیوں اور دیگر گاڑیوں کو ختم کرنے کی کبھی کوئی بات نہیں کی لیکن ایک سیاسی جماعت کے خاتمے کی خواہش کرکے انہوں نے اپنی ہی ساکھ کو نقصان پہنچایا ہے۔چند روز قبل تک پرویز مشرف کو اتنی اہمیت دی جارہی تھی کہ مہاجر قوم کے نمبرون لیڈر کیلئے ان کا نام مختلف زاویوں سے گردش میں تھا۔فاروق ستار ‘آفاق احمد‘عشرت العباداور مصطفی کمال کو اُن کی لیڈر شپ کے نیچے کام کرنے پر راضی کیا جارہا تھا۔دبئی میں ملاقاتیں جاری تھیں۔پلان اے ‘بی اور سی بنائے جارہے تھے۔مہاجر ووٹ کی تقسیم روکنے کی کوششیں ہورہی تھیں۔ لیکن آخری بات یہ سامنے آئی کہ ایم کیو ایم کو اب ختم کردینا چاہیے کیونکہ اسٹیبلشمنٹ اس سے خوش نہیں ہے۔ایسی کونسی غلطیاں ہوئی ہیں جو اسٹیبلشمنٹ نام تبدیل کرنے پر تو راضی ہے لیکن ایم کیو ایم کو قبول نہیں کرنا چاہتی۔اگر کوئی فرمائش یا گائیڈلائن بھی دی جائے تو یقینا اس پر عمل درآمد ہوسکتاہے لیکن خراب چیز کی مرمت کی جاتی ہے اسے توڑ کر پھینکا نہیں جاتا۔وزیراعظم نواز شریف نے جتنی زیادتیاں کیں۔ان کی تلافی تو اب تک نہیں کی گئی۔ان کی اسٹیبلشمنٹ سے لڑائی بھی طویل عرصے سے جاری ہے۔ کبھی حالات انتہائی گرم اور کبھی بالکل نرم ہوجاتے ہیں۔تحریک انصاف کے سربراہ عمرا ن خان نے تو یہ الزام بھی لگادیا کہ پاکستان میں دہشت گردی بھارت کرارہا ہے اور اس کا مقصد پانامہ لیکس سے توجہ ہٹانا ہے۔یہ انتہائی سخت الزام ہے۔آسان اور محتاط الفاظ میں اس کامطلب یہ نکلتا ہے کہ نواز شریف بھارت کے ساتھ مل کر پاکستان میں دہشت گردی کروارہے ہیں۔لیکن پرویز مشرف صاحب نے یہ مطالبہ نہیں کیا کہ چونکہ مسلم لیگ ن بدنام ہوچکی ہے اس لئے اسے ختم کردیا جائے۔اگر بدنامی کی بات کی جائے تو پیپلز پارٹی کا نمبر پہلا ہے۔اور اسے تو تیس سال سے زائد کا عرصہ ہوچکا ہے کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کو ختم کردیا جائے ۔
پرویز مشرف صاحب!!آپ اس ملک کی اہم ترین شخصیت ہیں۔ آپ نے پاکستان کی بہت خدمت کی ہے۔ آپ کا تجربہ اور ذہانت عالمی سطح کی ہے۔آپ پاکستان کا اثاثہ ہیں۔ اگر آپ اتنی چھوٹی سیاست میں نہ پڑتے تو آپ کیلئے بہت مواقع تھے۔ آپ کا بے نظیر سے یہ معاہدہ کہ آپ آئین میں ترمیم کرکے انہیںتیسری مرتبہ وزیراعظم بنوائیں گے اورجواباً پیپلزپارٹی آپ کو صدارت کیلئے ووٹ دیگی۔یہ سب کچھ کیا تھا۔اس پر بھی لابنگ ہوسکتی تھی۔آپ کوچند جملوں پر قناعت نہیں کرنی چاہیے تھی۔اگر آپ ایم کیو ایم کی طرف بھی آنا چاہتے تھے تو ایم کیو ایم کے چاروں دھڑوں یا ایم کیو ایم لندن کو علیحدہ کرکے تین دھڑوں کو ایک کرنے کا کام کرتے توآپ کو خودبخود قیادت کیلئے چن لیا جاتا اور ایم کیو ایم کی بکھرتی‘ ٹوٹتی اور برباد ہوتی ہوئی طاقت بچ جاتی۔ مشرف صاحب!!ایک بات یاد رکھیں اگرایم کیو ایم کو ٹوٹنے سے نہیں روکا گیا اور وہ متحد نہیں ہوسکی تو سندھ کی سیاست عدم توازن کا شکار ہوجائے گی اور اس میں کچھ نہ کچھ ذمہ داری آپ پر بھی ضرور آئے گی۔ پھر یہاں مذہبی جماعتیں ‘ایم کیو ایم کے چھوٹے چھوٹے گروپ‘ بلوچ گروپ اور سندھی مسلم لیگی لیڈرز پیپلزپارٹی کیلئے تو مسئلہ بنیں گے لیکن پوراسندھ بھی اس کی لپیٹ میں آئے گا۔ سندھ میں وفاداریاں تبدیل کرنے کا ایک سلسلہ پھرچل پڑے گا۔ لوٹے سر اٹھالیں گے اور شریف آدمی کا سر شرم سے جھک جائیگا۔
مشرف صاحب!!اگر آپ کا دل بڑا ہے اور آپ میں سننے کاحوصلہ ہے تو سنیں!!آپ نے جب اپنی پارٹی بنائی تو صحافیوں ‘اخبارات‘ ٹی وی چینل مالکان اور ایڈیٹرز میں اپنا گروپ تک نہیں بناسکے۔مذہبی جماعتوں میں بھی آپ کو کوئی پذیرائی حاصل نہیں ہوئی ‘وہاں بھی آپ کا کوئی گروپ نہیں۔آپ شیخ رشید سے کچھ سبق سیکھ لیں۔اُن کے پاس ایک سیٹ ہے۔ وہ خود رکن قومی اسمبلی ہیں اور خود ہی پارٹی بھی ہیں۔لیکن ان سے حکمران تھر تھر کانپتے ہیں۔انہوں نے شریف برادران کی نیندیں اڑارکھی ہیں۔ان کے درباریوں کو حواس باختہ کررکھا ہے۔قومی اسمبلی میں ان کا مائیک تک نہیں کھولا جاتا۔لیڈرز پارٹیوں کیلئے ترستے ہیں۔ایک جلسہ کیلئے چند ہزارکارکن جمع کرنا چیلنج سے کم نہیں ہوتا۔۔۔پارلیمنٹ کی ایک نشست اُن کیلئے نعمت سے کم نہیں ہوتی۔اور آپ قومی اسمبلی میں 24‘صوبائی اسمبلی میں51اورسینیٹ میں8نشستیں رکھنے والی پارٹی کی قیادت کرنے سے ”شرما ‘‘رہے ہیں۔آپ100کے قریب نشستیں رکھنے والی پارٹی کا سربراہ بننے میں خود کو علاقائی لیڈر کیوں کہہ رہے ہیں ؟۔آپ نے مہاجروں کو کمیونٹی قرار دے کر کروڑوں مڈل کلاس لوگوں کی توہین کی ہے۔آپ نے اسے شاید لندن یا نیویارک میں کسی پاکستانی کمیونٹی کا اجتماع سمجھ لیا۔سیاست میں اتار چڑھائو آتے رہتے ہیں۔حوصلہ بڑا رکھنا چاہیئے۔آپ کے ارد گرد جو لوگ تھے وہ دودھ پینے والے مجنوںتھے۔آج آپ کی پارٹی کہاں ہے۔؟۔آپ کے پروردہ اورنوازے ہوئے لوگ کہاں ہیں ؟۔آپ نے ان کو کیوں نوازا؟آج بھی کچھ سیاسی لیڈروں کو طعنہ دیا جاتا ہے کہ وہ ضیاء الحق کی باقیات ہیں۔آپ کی باقیات کہاں ہیں ؟۔پاپڑ او ر افغانی روٹی کے سائز میں بہت فرق ہوتا ہے۔ پاپڑ کو افغانی روٹی نہیں سمجھنا چاہیئے۔ پاکستان کی سیاست مراعات کی تقسیم کے گرد گھومتی ہے انگریز کے مراعات یافتہ لوگ اب بھی ملک میں دندناتے پھرتے ہیں۔آپ نے کنگ پارٹی بنائی لیکن غریبوں کو کنگ نہیں بنایا یہ جاگیردار ‘وڈیرے اور پیشہ ور سیاستدان وفادار نہیں ہوتے یہ اپنا الوسیدھا کرتے ہیں اور حکمرانوں کو الو بناتے ہیں۔آپ نے اگر غریبوں کو طاقت دی ہوتی۔اپنوں سے محبت کرنے والے پیدا کئے ہوتے۔اور اپنی ”سیاسی نسل‘‘بڑھائی ہوتی تو آج وہ نسل پھل پھول رہی ہوتی اوروہ آپ کی ہی طاقت ہوتی۔بڑے بڑے لوگ ہوٹلوں میں استقبالیہ تو دے سکتے ہیں لیکن بس۔!!لیکن بس۔!!باقی آپ سب سمجھتے ہیں۔
بلوچستان جیسے علاقے میں بھی سیاسی استحکام آرہا ہے لیکن سندھ سیاسی انتشار کی طرف جارہا ہے۔یہاں تو ڈاکٹر کی جگہ” مریض ‘‘کو گورنر بنادیا گیا ہے۔ایم کیو ایم کے ”سورمائوں ‘‘کوبھی بہت سوچنا پڑے گا۔ سندھ کے وزیراعلیٰ گرم بیان نہیں دے رہے۔ مہاجروں اور کراچی والوں کو للکار نہیں رہے۔ ان کا اسٹائل شریفانہ ہے اس کا نقصان یہ بھی ہورہا ہے کہ مہاجر خوفزدہ ہوکر ایم کیوایم کے دامن میں پناہ نہیں لے رہے۔ سندھ کے موجودہ وزیراعلیٰ نے بڑی سمجھداری کا مظاہرہ کیا ہے وہ آنکھیں دکھا کر اور چھاتی پھلاکر بات نہیں کرتے۔انہوں نے بہت سنجیدگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ دشمن سے لڑنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ سب سے پہلے یہ دیکھنا پڑتا ہے کہ وہ کھلی دشمنی پہ تلا ہوا ہے یا پھر اپنے مینڈیٹ کی حفاظت کررہا ہے۔ سیاست اتنا آسان سبجیکٹ نہیں ہے کہ اسے بیانات کی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ کر کنٹرول کیا جاسکے۔ یہ دانائی کا کھیل ہے اور صرف دانائوں کیلئے ہی ایجاد ہوا ہے۔ جوسوچ سوچ کر بات کرنے اور پھونک پھونک کر قدم رکھنے کا متقاضی ہے۔ اردو بولنے والوں اور کراچی‘ حیدرآباد والوں کو سب سے پہلے اپنے دشمن کو ڈھونڈنا ہوگاپھرڈکلیئر کرنا ہوگا کہ اُس سے دشمنی کیوں کی جائے اور اس کی نوعیت کیا ہو۔پھر جب لڑنے کی بات آئے گی تو یہ بھی بتانا پڑیگا کہ ہم کیا کرسکتے ہیں اور پہلے ہم سب کچھ کیوں نہیں کرسکے تھے۔ سندھ حکومت سے رویہ کیسا ہونا چاہیے۔نرم یا گرم ؟ہاتھ ملانا ہے یا دل ملانا ہے؟ یا پھرجس طرح 25سال لڑائی جھگڑوں میں ضائع کردئیے۔باقی زندگی بھی مہاجرقوم کواسی طرح خوار ہی رہنا ہے۔غالب میری تلخ نوائی پرمعاف رکھیو۔لیکن سچ سچ ہوتا ہے اور سچ نہ بولو تب بھی سنائی اور دکھائی ضروردیتا ہے ۔