امر جیت سنگھ دُولت بھارتی پولیس اور انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) کے نہ صرف سینئر افسر رہے ہیں اور سابق بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کے مشیرِ خاص بھی بلکہ بھارت کی مشہور خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کے سربراہ بھی رہ چکے ہیں۔ اس اہم حیثیت میں اگر وہ تیسری بار منتخب ہونے والے ہمارے وزیراعظم نواز شریف کے دوسرے دورِ وزارتِ عظمیٰ کے بارے میں کوئی نقاب کشا بات کرتے ہیں تو ہم اسے نظر انداز نہیں کر سکتے۔
اے ایس دُولت یعنی امر جیت سنگھ دُولت نے حال ہی میں اپنے تجربات و مشاہدات پر مبنی ایک چشم کشا کتاب لکھی ہے۔ اسے Kashmir: The Vajpayee Years کے نام سے شایع کیا گیا ہے۔ اس میں جہاں کشمیر اور کشمیریوں کے بارے میں بہت سی ہوشربا کہانیاں بیان کی گئی ہیں اور پاکستان کے بعض اداروں کے بارے میں اپنے منفی خیالات کا اظہار بھی کیا گیا ہے، وہیں پاکستانی سیاست اور پاکستان کے کئی سیاستدانوں کے بارے میں بھی بہت سی داستانیں رقم کر دی ہیں۔ بھارت اور مقبوضہ کشمیر میں اس کتاب کو غیر معمولی اہمیت دی جا رہی ہے۔
’’را‘‘ کے سابق چیف امر جیت سنگھ دُولت اپنی مذکورہ کتاب میں لکھتے ہیں: ’’جون 2000ء میں امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کے سربراہ جارج ٹینٹ نے خفیہ طور پر پاکستان کا دورہ کیا۔ پاکستان سے فارغ ہو کر وہ بھارت آئے تھے۔ سی آئی اے کو ابھی تک دوسال قبل والی وہ شرمندگی بھولی نہ تھی جب مئی 1998ء میں بھارت نے ایٹمی دھماکے کیے تو امریکا کو کانوں کان خبر نہ ہو سکی تھی۔
بہرحال جب جارج ٹینٹ نے پاکستان کا دورہ کیا تو اس وقت جنرل پرویز مشرف پاکستان کے دوسری بار منتخب ہونے والے وزیراعظم محمد نواز شریف کو اقتدار سے محروم کر کے آٹھ ماہ گزار چکے تھے۔ ٹینٹ نے جنرل مشرف سے مفصل ملاقات بھی کی تھی۔‘‘ دُولت مزید لکھتے ہیں: ’’جارج ٹینٹ بھارت آئے تو اس وقت مَیں ’’را‘‘ کا چیف تھا۔ مَیں نے پروٹوکول کے مطابق سی آئی اے چیف کو دہلی میں واقع ’’را‘‘ کے ہیڈ کوارٹر میں مدعو کیا۔ مَیں نے دیگر کئی باتوں کے علاوہ جارج ٹینٹ سے جنرل پرویز مشرف کے بارے میں بھی کئی استفسارات کیے۔
پرویز مشرف اس وقت پاکستان کا آئین بھی معطل کر کے خود کو ملک کا چیف ایگزیکٹو بنا چکے تھے۔ مجھے یہ سن کر بہت حیرت ہوئی جب جارج ٹینٹ نے مجھے صاف اور غیر مبہم الفاظ میں بتایا کہ جنرل پرویز مشرف اب کہیں نہیں جا رہے۔ وہ (تادیر) رکنے کے لیے آئے ہیں۔ سی آئی اے کے سربراہ نے مجھ پر یہ بھی واضح کیا کہ امریکی اب جنرل مشرف سے مل کر معاملات آگے بڑھائیں گے اور یہ کہ ان سے ’’بزنس‘‘ ہو سکتا ہے۔
گفتگو کے دوران جارج ٹینٹ نے یہ بھی ظاہر کیا کہ دوسرے لوگ بھی اب جنرل پرویز مشرف سے اپنے معاملات طے کر سکتے ہیں۔ پھر انھوں نے مجھے مخاطب کر کے کہا: ’’آپ لوگ اگر جنرل مشرف کے بارے میں مزید چھان بین کرنا چاہتے ہیں، ان کی نیت اور مزاج جاننا چاہتے ہیں تو خود آگے بڑھ کر تحقیقات کریں۔ اب وہ حکومت میں رہیں گے۔‘‘
پرویز مشرف کی ملک سے دبئی روانگی، جسے یار لوگوں نے بعض لوگوں کا ’’سرنڈر‘‘ بھی کہا ہے اور بعض نے اسے ’’فرار‘‘ کے مصداق قرار دیا ہے، کے بعد اسلام آباد میں راقم کی چند مغربی سفارتکاروں سے ملاقاتیں ہوئیں۔ واضح طور پر یہ مشاہدہ کیا گیا کہ وفاقی دارالحکومت میں تعینات یہ مغربی سفارتی برادری مشرف کے ملک سے باہر چلے جانے پر ریلیف کا اظہار کر رہی ہے۔
یہ حقیقت تو ہم سب پاکستانیوں پر الم نشرح ہے کہ وطنِ عزیز میں منتخب حکمرانوں کے مقابلے میں امریکی و مغربی قوتوں نے ہمیشہ غیر منتخب حکمرانوں کو زیادہ سپورٹ کیا اور ان کے ہاتھ زیادہ مضبوط کیے ہیں۔ افسوس اگر کوئی ہے تو یہ ہے کہ ہم میں سے جس نے بھی کبھی، کسی بھی شکل میں، پرویز مشرف کی جرأتوں کی تعریف و توصیف کی تھی، انھیں شرمندگی اور ندامت اٹھانا پڑی ہے۔ (راقم بھی اس میں شامل ہے) جناب مشرف نے بہانے بنا بنا کر اپنے چاہنے والوں کو شدید نادم اور نامراد کیا ہے۔ اب انشراحِ صدر کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ وہ کارگل کے میدان میں بھی ناکام رہے، سیاست میں بھی۔وہ عدالتوں کا بھی ایک بہادر سپاہی کی طرح سامنا نہ کر سکے۔ پتہ نہیں وہ کس برتے اور بنیاد پر مُکے دکھاتے اور بازو لہرا لہرا کر اپنے حریفوں کو للکارتے رہے اور ہم ان کی ’’عظمت‘‘ کے دریا میں کیسے بہہ گئے۔
سابق صدر پرویز مشرف کو، عدالتی فیصلے کے بعد، ملک سے آزادانہ باہر جانے کی اجازت دے کر وزیرِ اعظم نواز شریف نے مناسب اقدام کیا ہے۔ (وزیرِداخلہ چوہدری نثار علی خان کے استدلال سے اتفاق کیا جانا چاہیے، اگرچہ انھوں نے مشرف کے حوالے سے پی پی پی پر بے جا طنز کیا ہے)۔ یہ جہاں عدالت عظمیٰ کے فیصلے کا احترام ہے، وہاں یہ بھی امرِ واقعہ ہے کہ تصادم اور ہٹ دھرمی کا راستہ اختیار کرنے سے گریز کیا گیا ہے۔
کہا گیا ہے کہ آئیڈیل بات تو یہ تھی کہ وزیرِاعظم جناب نواز شریف ’’ڈٹ جانے‘‘ کا اصولی فیصلہ کرتے ہوئے آئین شکن ملزم کے راستے کی دیوار بن جاتے‘ یہ اقدام کرتے ہوئے انھیں ’’شہیدِ جمہوریت‘‘ ہی کیوں نہ بننا پڑتا۔ عملی سیاست کرنے والے نواز شریف مگر بخوبی جانتے ہیں کہ یہ انگیخت اور مشورہ دینے والے وقت آنے پر غائب ہو جاتے ہیں۔ نواز شریف ’’اصولی فیصلہ‘‘ کرنے کا بھگتان پہلے بھی دو بار بھگت چکے ہیں۔
ممکن ہے اگر یہ راستہ اختیار کیا جاتا تو میاں صاحب کی مقبولیت کا گراف آسمان سے جا لگتا اور وہ ’’امر‘‘ ہو جاتے لیکن یہ سب باتیں تو مفروضہ ہیں۔ محض سرابی آدرش۔ حقائق کی دنیا سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔ امید یہی کی جانی چاہیے کہ پرویز مشرف سے گلو خلاصی کے بعد ملک میں استحکام بھی آئے گا اور میاں صاحب کی حکومت مطمئن ہو کر آگے بڑھ سکے گی۔ اس تازہ منظر کے بعد، اگلے ڈیڑھ ہفتے میں، نواز شریف کو واشنگٹن میں ہونے والی ایک اہم کانفرنس میں بھی شریک ہونا ہے۔ ’’نیو کلیئر سیکیورٹی سمّٹ‘‘ میں شرکت، جہاں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی بھی آ رہے ہیں۔
توقعات ظاہر کی جا رہی ہیں کہ ’’جوہری سلامتی سربراہی اجلاس‘‘ کی سائیڈ لائن پر پاکستانی و بھارتی وزرائے اعظم کی ملاقات بھی ہو گی اور رواں برس کے ماہ نومبر میں اسلام آباد میں ہونے والی سارک سربراہ کانفرنس میں مودی صاحب اپنے پاکستانی ہم منصب اور ہم پلّہ کو اپنی شرکت کی یقین دہانی بھی کرائیں گے۔ اس تاثر کو بہرحال تقویت ملی ہے کہ پرویز مشرف کو ملک سے باہر جانے کی اجازت دے کر وزیراعظم نواز شریف نے سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کا زیادہ اعتبار اور اعتماد حاصل کیا ہے۔
اس پس منظر میں اس توقع کا اظہار کرنا بے جا نہ ہو گا کہ 31 مارچ 2016ء کو واشنگٹن میں ہونے والی ’’نیوکلیئر سیکیورٹی سمّٹ‘‘ میں شرکت کے دوران جناب نواز شریف زیادہ آزادی اور اطمینانِ قلب کے ساتھ نریندر مودی سے ملاقات کر سکیں گے تا کہ دونوں ملکوں کے کئی مسدود راستے کھولے جا سکیں۔ چند روز قبل نیپال میں سرتاج عزیز اور سشما سوراج اور بعد ازاں پاک بھارت سیکریٹری خارجہ کی باہمی ملاقاتوں سے منظر کچھ کچھ کھلا تو ہے۔ پٹھانکوٹ سانحہ کے حوالے سے نواز حکومت اور پاکستان کی وزارتِ داخلہ نے تعاون کے جو اقدامات کیے ہیں، امریکا اور برطانیہ سمیت بھارت نے بھی ان پر اطمینان کا اظہار کیا ہے۔
بھارت کی طرف سے پاکستان کی تحقیقاتی ٹیم کو پٹھانکوٹ ائیربیس میں حملے کی جگہ کا معائنہ کرنے کی اجازت دینا اس کا ثبوت ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ’’کمانڈو صدر‘‘ کو آزادی کا پروانہ دے کر وزیراعظم نواز شریف نے ایک مناسب فیصلہ کیا ہے۔ ان کی حکومت پر اس کے کئی مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ اس فیصلے پر خوخیانے اور دانت پیسنے کی ضرورت نہیں ہے۔ آئیڈیلزم میں زندہ رہنے والوں کا وجود صرف افسانوں اور ناولوں میں ملتا ہے۔ ہمیں یوٹوپیائی سیاست سے اب باہر نکل آنا چاہیے۔