منتخب کردہ کالم

پرچی۔۔۔۔۔۔۔۔۔!علی معین نوازش

پرچی۔۔۔۔۔۔۔۔۔!

پرچی۔۔۔۔۔۔۔۔۔!علی معین نوازش

میاں محمد نواز شریف نے وردی میں ملبوث ایک قاصد کو بلایا جو اس وقت کے وزیراعظم میاں نواز شریف کا حکم بجا لانے کے لیے ان کے پیچھے کھڑا تھا ۔میاں صاحب نے اپنے سامنے پڑی ہوئی ایک چٹ پرکچھ تحریرکیا، اس چٹ کو فولڈ کرنے کے بعد قاصد کے کان میں سرگوشی کرتے ہوئے کہا کہ یہ چٹ وفاقی وزیر چوہدری نثار علی خان کو دے آئو۔ قا صد نے چو ہد ری صا حب کو چٹ دی اور سر گو شی کر تے ہو ئے بتا یا کہ یہ وز یر اعظم صا حب نے دی ہے ،چوہدری نثار علی خان نے اپنے سامنے رکھی ہوئی نظر کی عینک کو آنکھوں پر فٹ کرتے ہوئے اس چٹ پر نظر دوڑائی تو ایک ہلکی سی مسکراہٹ ان کے چہرے پر پھیل گئی لیکن اس زہریلی مسکراہٹ نے جلد ہی چوہدری نثار صاحب کا موڈ آف کردیا۔انہوںنے وہ چٹ یا چھوٹی سی پرچی کو دوبارہ فولڈ کیا اوراسے اپنی جیب میں محفوظ کرلیا۔گہری نظر رکھنے والے اورحالات کی نزاکت کو فوری جانچنے والے کہتے ہیں کہ چوہدری نثار علی خان جتنی دیر اپنی نشست پر موجود رہے ایک بے چینی ان کے چہرے پر عیاں رہی۔وہ پرچی یا چٹ آج بھی چوہدری نثار علی خان صاحب کے پاس محفوظ ہے۔دراصل یہ کابینہ کا اجلاس تھا اور یہ چٹ دینے کا واقعہ اس اجلاس کے دوران پیش آیا ،بعض کھوجی جب اس کے پیچھے لگے تو انہیں ساری کہانی سمجھ آگئی انہیں میں سے ایک کھوجی سے میری ملاقات ہوئی توانہوںنے میرے

بعض سوالات کا بڑا تفصیلی جواب دیا اور یہ چٹ والی بات بھی مجھے انہوںنے ہی بتائی۔ یہ کھوجی صاحب جن کی شخصیت’’ ففٹی ففٹی‘‘ ہے اور یہ اپنی باتوں سے یہ سمجھنے نہیں دیتے کہ اندر سے یا دل سے کس کے ساتھ اور کس کے مخالف ہے،بات عدالتی فیصلے سے شروع ہوئی تو ’’ففٹی ففٹی‘‘ صاحب نے میاں صاحب کی شخصیت کو بیان کرنا شروع کیا کہنے لگے جب میاں صاحب کسی کو اسلام علیکم کہتے ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ایک رس گھولتی آوازکانوں سے اترتی ہوئی دل کو چھوگئی ہے اور اگر ہاتھ ملالیں تو ان کے ملائم ہاتھوں کا لمس جیسے پورے جسم کو لطیف کرنٹ کے جھٹکے سے ہلا کر رکھ دیتا ہے اور وہ بندہ ان کی شخصیت کا دیوانہ وار پرستار ہوجاتا ہے۔اوران کی شخصیت کو دیکھ کر یا ان سے گفتگو کرکے کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ انہوںنے زندگی میں کوئی غلط کام کیا ہوگا۔لیکن ’’ففٹی ففٹی‘‘ صاحب نے اگلی بات کرکے گویا شطرنج کی بساط پر ایک ایسی ’’کھیڑی‘‘ ماری کہ ساری بات ہی الٹ گئی اور کہنے لگے کہ اللہ کو جان دینی ہے اس لیے حقیقت یہ ہے کہ عدالتی فیصلہ اور ان کے خلاف ہونے والی تحقیقات بالکل درست ہیں۔انہوںنے بات کا رخ موڑتے ہوئے کہاکہ2013ء کے الیکشن کے بعد جب میاں صاحب تیسری بار وزیراعظم بن رہے تھے تو چوہدری نثار علی خان اور دیگر شخصیات بھی بیٹھی تھیں اور یہ بات ہورہی تھی کہ ہم اپنے پانچ سالہ دور میں کیا کیا کرنا ہے کہ چوہدری نثار علی خان نے بڑے پرجوش لہجے میں کہا میاں صاحب بس اس بار یہ فیصلہ کریں کہ ہم نے صرف ملک وقوم کی خدمت کرنی ہے صرف میرٹ پر فیصلے کرنے ہیں کرپٹ لوگوں کو قریب بھی نہیں آنے دینا۔اور ہرکام میں اس طرح کی شفافیت ہونی چاہیے کہ کرپشن کاشائبہ تک نہ ہو۔کیونکہ تیسری بار حکومت قدرت کی خاص عنایت ہے میاں صاحب ساری بات سنتے رہے لیکن ایسا معلوم ہورہا تھا کہ میاں صاحب اسی بات کے جواب میں چوہدری نثار علی خان کو سر سے لے کر پائوں تک دیکھتے جارہے تھے اور انہوں نے چوہدری کی اس بات کو سنی ان سنی کردی اور بات کسی دوسرے موضوع کی طرف مڑ گئی۔محترم ’’ففٹی ففٹی‘‘ صاحب نے ایک مرتبہ پھر بات کارخ موڑا تو مجھے چٹ والی بات سناڈالی۔کہنے لگے کچھ وزراء تواتر سے میرے پاس آنے لگے اور اسی بات کاگلہ کرنے لگے کہ چوہدری نثار آپ ہی میاں صاحب کو سمجھائیں کہ وہ کم ازکم کابینہ کااجلاس ہی بلائیں اتنے طویل عرصہ اگر کابینہ کا اجلاس ہی نہیں ہوگا تواہم امور سلطنت کیسے چلا ئے جائیںگے اور چوہدری نثار کابینہ کا اجلاس بلانے کی بات میاں صاحب سے آپ ہی کرسکتے ہیں۔چوہدری صاحب کا اپنا ہی ذاتی خیال یہی تھا کہ کابینہ کا اجلاس جلد سے جلد منعقد ہوناچاہیے۔محترم ففٹی ففٹی کہنے لگے لیکن جب اجلاس شروع ہوا توانہی وزراء میں سے ایک نے جنہیں کابینہ کا اجلاس نہ بلانے کی سخت تکلیف اور اعتر ا ض تھا۔انہوںنے وزیراعظم کی ایسی مدح سرائی شروع کردی کہ چوہدری نثار صاحب سے نہ رہاگیا تو انہوںنے دخل اندازی کرتے ہوئے کہاکہ ہمیں کابینہ کے اجلاس میں ایسی تعریف و توصیف کی بجائے صرف ایجنڈے اور کام کی بات کرناچاہیے۔تعریف وتوصیف کے بہت سارے موقع آتے رہیںگے۔میاں صاحب نے فوراً نظریں چوہدری نثار پر گاڑھتے ہوئے انہیں غور سے دیکھا اورسرکاری قاصد کو بلا کر چٹ پرکچھ لکھ کر چوہدری نثار کے پاس بھجوادی چوہدری نثار جن کا چٹ دیکھ کر موڈ آف ہوگیا اور وہ چٹ آج بھی ان کے پاس محفوظ ہے اس پر لکھا تھا کہ چوہدری صاحب کیا بات ہے ’’جب بھی کوئی میری تعریف کرتا ہے آپ کواچھا نہیں لگتا‘‘۔