منتخب کردہ کالم

پشاور میں ایک دن اور ایک رات ..رئوف طاہر

پشاور میں ایک دن اور ایک رات ..رئوف طاہر

دس‘ ساڑھے دس ماہ کے بعد ہم ایک بار پھر عمران خان کی راجدھانی میں تھے۔ اس بار بھی اس کا اہتمام پاکستان میڈیا کلب کے چیئرمین ضیاء خاں نے کیا تھا۔ لاہور سے ہم کوئی درجن بھر لوگ تھے۔ اس سے کوئی نصف تعداد اسلام آباد والوں کی تھی اور اتنے ہی لوگ کراچی سے تھے۔ دو درجن کے لگ بھگ ان میڈیا پرسنز میں پانچ سات خواتین بھی تھیں۔
لیکن اس تازہ وزٹ کا کوئی تعلق عمران خان کے حالیہ انٹرویو سے نہ تھا۔ شاعر نے کہا تھا ؎
نکل جاتی ہو سچی بات جس کے منہ سے سستی میں
فقیہ مصلحت بیں سے وہ رند بادہ خوار اچھا
بی بی سی سے اس انٹرویو میں خان صاف گوئی اور حقیقت بیانی کے جذبے سے مغلوب تھا۔ فرمایا : ”خدا کا شکر ہے کہ 2013ء میں وفاق میں ہماری حکومت نہ بنی‘ ورنہ وہاں بھی وہی حال ہوتا جو خیبرپختونخوا میں ہماری حکومت کے ہاتھوں ہوا‘ایک پرویز خٹک کے سوا وہاں سبھی نئے لوگ تھے‘ ناتجربہ کار۔ ہم نیا بلدیاتی نظام لائے لیکن بیورو کریسی اور خود ہمارے اپنے ارکان اسمبلی اسے ناکام بنانے پر تُل گئے‘‘۔
خان کی اس صاف گوئی نے کے پی کے حکومت کے لیے ندامت اور خجالت کا اہتمام تو کرنا ہی تھا‘ خود میڈیا میں خان کے ہمدردوں کو بھی مشکل میں ڈال دیا۔ تحریک انصاف سے ہمارے شاہ صاحب کی ہمدردی اس کی وکالت تک جا پہنچتی ہے ۔یہ بات شاہ صاحب مسلم لیگ نون کے حوالے سے ہمارے بارے میں بھی کہہ سکتے ہیں۔ خان کے اس انٹرویو پر دشت صحافت میں ہمارے دیرینہ ہم سفر کا عارفانہ تبصرہ تھا ”بی بی سی کے نمائندے پر برسنے کی بجائے عمران خان کو اپنا محاسبہ کرنا چاہیے۔ صاف گوئی اس کا اثاثہ ہے مگر یہ صاف گوئی نہیں۔ اعتراف جرم تھا۔ الفاظ کا الٹ پھیر‘ گاہے انسان کو محرم سے مُجرم بنا دیتا ہے۔ عمران خان نے بھی ترنگ میں آ کر جو باتیں کیں‘ وہ صاف گوئی کے دائرے سے نکل کر اعترافِ جُرم کے دائرے میں داخل ہو گئیں‘‘۔
ہفتے کی شب چیف منسٹر ہائوس میں عشائیے پر وزیراعلیٰ پرویز خٹک اپنی حکومت کی چار سالہ کارکردگی کا تذکرہ کر رہے تھے۔ وزیر اطلاعات شاہ فرمان بھی ان کے پہلو میں موجود تھے۔ ان چار برسوں میں یہ شاید تیسرے وزیر اطلاعات ہیں۔
جناب پرویز خٹک کا کہنا تھا‘ 2013ء میں ہم نے اس حال میں حکومت سنبھالی کہ اونٹ کی کوئی کل سیدھی نہ تھی۔ ہم نے پولیٹیکل پوائنٹ سکورنگ کے لیے نمائشی کاموں کی طرف توجہ دینے کی بجائے‘ سسٹم کی اصلاح کی طرف توجہ دی۔ پولیس کے علاوہ تعلیم اور صحت کے شعبوں کی اصلاح ہمارے بنیادی اہداف تھے۔ یہاں سب کچھ تو اچھا نہیں ہو گیا لیکن بہت کچھ اچھا ہو گیا ہے۔ اسکولوں کے انفراسٹرکچر میں بہتری آئی ہے۔ کبھی پرائمری سکول دو کمروں اور دو اساتذہ پر مشتمل ہوتا تھا‘ اب یہ کم از کم چھ کمروں اور چھ اساتذہ پر مشتمل ہیں۔ اس کے علاوہ نصاب تعلیم کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کیا گیا ہے۔ کالجوں اور سرکاری یونیورسٹیوں میں تبدیلی اندھوں کو بھی نظر آ رہی ہے۔ ہسپتالوں میں دوائی ہوتی تھی‘ نہ صفائی۔ عام ہسپتالوں میں دوائی بھی ہے اور صفائی بھی۔ ڈاکٹروں کی تعداد کے ساتھ ان کی تنخواہوں میں بھی خاطر خواہ اضافہ کیا گیا‘ جس سے اپنے پروفیشن میں ان کی دلچسپی اور کارکردگی بھی بڑھی ہے۔ صوبے کی 70 فیصد آبادی کے پاس صحت کارڈ ہیں۔ بلدیاتی ادارے نئے سسٹم میں بااختیار ہیں اور اپنے اپنے دائرہ کار میں عوامی فلاح و بہبود اور تعمیر و ترقی کے کاموں میں مصروف ہیں سفارش کا خاتمہ‘ احتساب اور شفافیت کے پی کے میں نئے حکومتی کلچر کے بنیادی اجزا ہیں جس کے اثرات اور ثمرات ہر جگہ‘ ہر شعبے میں نظر آتے ہیں۔
سوال‘ جواب کا سلسلہ شروع ہوا تو ”مہمان‘‘ اخبار نویسوں کا روّیہ دوستانہ اور ہمدردانہ جبکہ ”مقامی‘‘ اخبار والوں کا روّیہ جارحانہ تھا‘ البتہ ”مہمانوں‘‘ میں کراچی سے آئی ہوئی خاتون میڈیا پرسن قدرے ”بدلحاظ‘‘ واقع ہوئیں‘ کسی لاگ لپیٹ کے بغیر ان کا سیدھا سوال تھا‘ کوئی میگا پراجیکٹ جو ان چار برسوں میں آپ نے مکمل کیا ہو؟ وزیر اطلاعات نے مائیک کا رُخ اپنی طرف کیا‘ ”ہم نے اِن چار برسوں میں بہت کچھ کیا‘ لیکن یہ ایسا نہیں کہ جس کے فیتے کاٹے جاتے‘ مثلاً ہم غربت کی شرح کو 23 فیصد سے 12 فیصد پر لے آئے۔ ہم صحت اور تعلیم کے شعبوں میں تبدیلیاں لائے‘ لیکن اس میں فیتے کاٹنے والا معاملہ نہیں تھا‘‘ اپنے جواب کا اختتام وزیر موصوف نے اس سوال پر کہا‘ کیا آپ نے کبھی شہبازشریف سے ”حدیبیہ‘‘ کے بارے میں سوال کیا؟…”خود آپ کی اپنی جماعت سے بعض لوگ آپ پر کرپشن کے الزامات لگاتے ہیں‘ عمران خان اس پر کمشن کیوں نہیں بٹھاتے؟ وزیراعلیٰ کا جواب تھا۔ ”میں 1983ء میں عملی سیاست میں آیا‘ تب سے اب تک میرے اثاثوں کا حساب کتاب کر لیں کہ ان میں کتنی کمی اور کتنا اضافہ ہوا۔ میرا بیٹا کنسٹرکشن کا کام کرتا ہے‘ میں وزیراعلیٰ بنا تو اسے صوبے میں کام کرنے سے منع کر دیا۔ اب وہ پنجاب اور آزاد کشمیر میں کام کرتا ہے۔ کے پی کے میں اس نے کوئی ٹینڈر نہیں دیا۔ چیف منسٹر ہائوس میں پونے دو کروڑ روپے کی لاگت سے سوئمنگ پول کی تعمیر نیا ایشو ہے‘ اس بارے میں وزیراعلیٰ کا کہنا تھا‘ میں یہاں نہیں رہتا‘ یہاں ساتھ ہی پانچ بیڈ روم کا گھر ہے‘ سرکاری کام نمٹا کر رہائش کے لیے وہاں چلا جاتا ہوں۔ ہم نے چیف منسٹر ہائوس کو ”گیسٹ ہائوس‘‘ بنانے کا فیصلہ کیا‘ جہاں صوبے میں سب سے زیادہ ٹیکس دینے‘ سب سے زیادہ سرمایہ کاری کرنے والا قیام کرے گا۔ اس کے لیے یہاں سوئمنگ پول کی تعمیر کا بھی فیصلہ ہوا۔ میرا خیال تھا یہ چالیس پچاس لاکھ میں بن جائے گا‘ لیکن تخمینہ لگایا تو یہ پونے دو کروڑ کو جا پہنچا۔ آپ کو پتہ ہے‘ سرکاری کام ایسے ہی ہوتے ہیں‘‘۔
اتوار کو واپسی سے قبل آئی جی پولیس کے ساتھ لنچ کیا۔ ”صوبہ سرحد‘‘ کی صدیوں سے اپنی روایات رہی ہیں‘ یہاں کا پولیس کلچر بھی پنجاب کے پولیس کلچر سے مختلف رہا ہے۔ یہاں گھروں کی دیواریں پھلانگ کر چادر اور چاردیواری کا تقدس پامال کرنے کا سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا۔ دہشت گردی کی جنگ میں خیبرپختونخوا ”فرنٹ لائن‘‘ کی حیثیت رکھتا تھا۔ اس حوالے سے یہاں کی پولیس کے کردار اور کارکردگی کی تعریف نہ کرنا زیادتی ہو گی۔ یہاں پولیس کے شہداء کی تعداد ڈیڑھ ہزار سے زائد ہے‘ جن میں ایڈیشنل آئی جی سے لے کر سپاہی تک سبھی ”رینکس‘‘ کے افسر اور اہلکار شامل تھے۔ پشاور کے سینئر جرنلسٹ سید شکیل احمد بتا رہے تھے کہ موجودہ آئی جی صلاح الدین خاں کے دو بچے بھی پشاور میں دہشت گردی کا شکار ہوئے لیکن یہ کابل میں استاد برہان الدین ربانی کی صدارت کے دنوں کی بات ہے‘ کابل پر قبضے کے لیے جب ”مجاہد کبیر‘‘ گلبدین حکمت یار‘ استاد ربانی اور احمد شاہ مسعود کے خلاف برسرپیکار تھے۔ موجودہ آئی جی صلاح الدین خان کا تعلق جنوبی وزیرستان سے ہے۔ وہ دو سال صوبے میں کائونٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ بھی رہے۔ ان سے پہلے ناصر خان درانی آئی جی پولیس تھے۔ صلاح الدین خان بتا رہے تھے‘ موجودہ حکومت نے پولیس کو بااختیار بنایا‘ ہمارے کام میں سیاسی مداخلت زیرو ہو گئی‘ تو ہم نے بھی کارکردگی دکھائی اور ہم سے جو توقعات وابستہ کی گئیں تھیں‘ ان پر پورا اترے۔ اس دوران انٹیلی جنس نیٹ ورک جدید بنیادوں پر استوار ہوا‘ اس سے دہشت گردوں کا قلع قمع یوں ہوا کہ Encounter نہیں کرنے پڑے‘ ہم نے قانون کو ہاتھ میں نہیں لیا‘ دہشت گردوں کو پکڑا اور ثبوت و شواہد کے ساتھ قانون کے حوالے کر دیا۔ دہشت گردی کی جنگ کے لیے پولیس کو ضروری تربیت دی گئی۔ اس میں ایلیٹ ویمن کمانڈوز کا قیام بھی شامل ہے۔ اپنی سخت ٹریننگ اور بھاری ہتھیاروں کے ساتھ یہ مرد کمانڈوز سے پیچھے نہیں۔