پشتو میں کیا لکھا کیا پڑھا جارہا ہے؟ …. محمود شام
’’ بہت دیر سے میں نے ایک درخت میں پناہ لے رکھی ہے۔ میں اب تھک چکا ہوں اور میری یہ خواہش ہے کہ نیچے اتروں لیکن کم بخت بھیڑیا مجھے اترنے نہیں دیتا۔ وہ نیچے کھڑا مجھے مسلسل خوفناک نظروں سے دیکھ رہا ہے۔ اور اس انتظار میں ہے کہ میں کب اتروں اور وہ مجھے چیر پھاڑ کر کھا جائے۔ ہم وہ لوگ ہیں جو اپنے اپنے بھیڑیے سے خوفزدہ ہیں۔باوجودیکہ درخت میں ہمارے لئے ہر طرح کی آسائشیں موجود ہیں۔ لیکن ہم ان آسائشوں سے خوش نہیں ہیں۔ ہم دونوں کے بھیڑیے اکثر اپنی جگہ خاموش بیٹھے رہتے ہیں۔ کبھی کبھی ان دونوں پر ایسا جنون سوار ہوجاتا ہے کہ وہ درخت پر حملہ کردیتے ہیں۔ اس کے موٹے تنے پر دانت اور پنجے گاڑ دیتے ہیں…‘‘
(کہانی۔ بھیڑیا، مصنّف، فاروق سرور( بلوچستان) کتاب۔ منتخب پشتو افسانے۔ انتخاب و ترجمہ:ڈاکٹر اسماعیل گوہر۔ ناشر اکادمی ادبیات پاکستان)
……….
آج اتوار ہے۔ اپنے بیٹوں بیٹیوں، پوتوں پوتیوں، نواسوں نواسیوں، بہوئوں دامادوں کے ساتھ دوپہر کے کھانے پر بیٹھنے ، حال احوال جاننے کا دن۔ حالات گمبھیر اورمایوس کن ہورہے ہیں۔ مگر یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنی اولادوں کو بتائیں کہ ہمیں اپنے مستقبل کو ماضی اور حال کی طرح برباد نہیں ہونے دینا ۔ میں تو یہ التجا بھی کرتا ہوں کہ نمازِ عصر کے بعد اپنے گلی محلے والوں کے ساتھ بھی ایک ہفتہ وار بیٹھک رکھیں۔
……….
ایک دو روز کیلئے ہم اسلام آباد میں ہیں تو ہم نیشنل ڈاکومینٹیشن ونگ ۔کیبنٹ ڈویژن کا رُخ کرتے ہیں۔ برادر بزرگ ڈاکٹرمحمد خالد مسعود نے شفقت کی ہے۔ وہ ساتھ ہیں۔ وہاں ہماری فرید احمد صاحب ڈائریکٹر این ڈی ونگ سے ملاقات ہوتی ہے۔ کتنے خزانے ان کے پاس ہیں۔ 1940 سے اب تک کے۔76سال کے نشیب و فراز دیکھیں۔ سوشل میڈیا۔ پرنٹ سنی سنائی سے بھرا ہوا ہے ۔ یہاں کابینہ میٹنگوں کی کارروائیاں ہیں۔ حکمرانوں کے چیف جسٹسوں، آرمی چیفوں کو لکھے گئے خطوط ہیں۔ اسپیشل برانچ کی رپورٹیں ہیں۔ اپنے مستقبل کی اگر ہمیں تعمیرکرنا ہے تو وہ اس ماضی کی بنیاد پر ہوسکتی ہے۔ جو یہاں برآمدوں، الماریوں، مائیکرو فلموں، فائلوں میں سویا ہوا ہے۔ اب تو پینا فلیکس کا زمانہ ہے۔ 1840سے 1980تک پوسٹروں کا عہد بھی دیکھئے۔ اب 1947سے 1982تک کے کابینہ کے کاغذات عوامی رسائی کیلئے باقاعدہ دستیاب ہیں۔
……….
’’غم دوراں کو شاعری کا موضوع بنانا ہے/ شاعری غم جاناں کیلئے ترس رہی ہے/ بارود نے شاعری کی زمیں کو بانجھ کردیا ہے/ اس پر حسن و عشق کی بارش ہونی چاہئے/ لہو نے اس کا چہرہ خوفناک کردیا ہے/اب اس میں لطافت کی ضرورت ہے/ زمین پر نفرت کے بیج بوئے جارہے ہیں/ ہمیں اب آسمانی روداد سے اس کا نقشہ بدلنا ہے۔ یہ عصر حاضر کے مقبول پشتو شاعر ڈاکٹر اباسین یوسف زئی کی ایک نظم کا اُردو قالب ہے۔ پشتو اور ہندکو شاعری۔ ادب۔ افسانوں ناولوں کو افغان صورت حال نے بہت متاثر کیا ہے۔ پروفیسر اسیر منگل اسے ثور انقلاب کا دور کہتے ہیں۔ہم نے ’’پاکستان کیا لکھ پڑھ رہا ہے‘‘ کا سلسلہ اس خلوص نیت سے شروع کیا ہے کہ جان سکیں ہماری قومی زبانوں، پنجابی، سرائیکی، سندھی، پشتو، بلوچی، براہوی، کشمیری، بلتی میں کیا لکھا جارہا ہے اور کیا پڑھا جارہا ہے۔اُردو ہماری وفاقی زبان ہے۔ آئین کے مطابق سرکاری بھی اور اسے سرکار ہی سرکاری نہیں بننے دے رہی ۔
ہم پاکستانیوں کو ۔ اُردو زبان کو خوش اور فخر ہونا چاہئے کہ پاکستان جن صوبوں اور وحدتوں پر مشتمل ہے۔ وہ صدیوں قدیم ہیں اور ان کی زبانیں بھی صدیوں کی شاعری، کہانیوں، لوک گیتوں، لوک کہانیوں کے خزانے رکھتی ہیں اور یہ سارے اثاثے اب اُردو میں ترجمہ ہوکر اُردو کو بھی صدیوں کے خیالات سے مزین کررہے ہیں۔ پشتو ادب ایک بڑا سہارا ہے کہ یہاں ادبی جریدوں کی اشاعت میں تسلسل رہا ہے۔ اور اب سوشل میڈیا پر بھی سنجیدہ ادب آویزاں ہورہا ہے۔ سندھی، سرائیکی اور پنجابی میں احباب نے بہت تعاون کیا۔ میں اپنے قارئین کے سامنے ان عظیم زبانوں کے حالیہ شعراء، ناول نگاروں، افسانہ نویسوں کو لاسکا۔ ساتھ ساتھ معذرت بھی کی کہ اتنی مختصر تحریر میں سب معززین کا احاطہ مشکل ہے۔ اب سب سے پہلے میں نے اُردو پشتو کے مقبول شاعر اور نقاد ناصر علی سید سے رابطہ کیا۔ وہ ان دنوں برطانیہ عظمیٰ میں مشاعرے لوٹ رہے ہیں۔ انہوں نے پروفیسر اسیر منگل، ایاز اللہ ترک زئی، پی ایچ ڈی اسکالر سے ہمیں متعارف کروادیا۔بہت خلوص اور لگن سے ان دونوں نے ہماری رہنمائی کی۔ ایک ہمارے ہم عصر ہیں۔ایک ہمارا مستقبل۔ پشاور یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر پروفیسر ایم آصف سے بھی درخواست کی۔ ان کے توسط سے قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر عطاء اللہ جیسی قد آور شخصیت سے مربوط ہوئے۔ بشریٰ فرخ شاعرہ، قلمکار، فنکار ہیں۔ وہ پہلے بھی تعاون کرتی رہی ہیں۔ ہندکو کے حوالے ان سے ملے۔ عزیز اعجاز ہمیشہ مہرباں رہے ہیں۔ ان کے توسط سے ڈاکٹر اباسین یوسف زئی جیسی شخصیت کے حلقۂ احباب میںشامل ہونے کا موقع ملا۔ اسلامیہ کالج یونیورسٹی پشاور سے شعبۂ اُردو کی لیکچرر سدرہ صادق ایک تحقیق کے سلسلے میں رابطے میں تھیں۔ انہوں نے بھی پشتو، ہندکو ادب کا ارتقا جاننے میں رہنمائی کی۔ اس تحریر میں ہم کچھ افسانہ نویسوں کے ناموں کا ذکر کریں گے۔ آئندہ کالموں میں پشتو ہندکو شاعری، ناول، افسانوں کے موضوعات پر بات کریں گے۔ ہم نے ابتدائی اقتباس۔ اکادمی ادبیات کی مطبوعہ ’منتخب پشتو افسانے‘ سے لیا۔ جو 2021میں شائع ہوئی ہے۔ اس میں پشتو کا سب سے پہلا افسانہ راحت زاخیلی کا ’بیوہ لڑکی‘ بھی شامل ہے اور عصر حاضر کے عظمت ہما اعجاز، اخترحیات قمر،علی کمیل قزلباش،سیدہ حسینہ گل، نثار محمد خان، بدر الحکیم حکیم زے، تاج الدین تاجور، عصمت بی بی، فہمیدہ کمال،شیریں زادہ خدوخیل، علی زرخان فکری، ڈاکٹر محمد زبیر حسرت، نگہت یاسمین دردمنہ، فاروق سرور، نور الامین یوسف زئی، خلیل باور، وکیل حکیم زے، لائق زادہ لائق،اکرم نازی، اسماعیل گوہر، عنایت اللہ ضیاء، صاحب شاہ صابر، اسیر منگل، سلمیٰ شاہین، الطاف خٹک، صفیہ حلیم،ڈاکٹر سید چراغ حسین شاہ، نظرپانیزئی ،م اشفق، درمحمد کاسی، رحمت شاہ سائل، سیدہ ناز جاوید، قیوم مروت، سعد اللہ جان برق، طاہر آفریدی، اکمل اسد آبادی، گل افضل خان، مفلس درانی، عبداللہ جان مغموم، ارباب رشید احمد خان،سید مہدی شاہ مہدی، نعیمہ شہناز کی کہانیاں بھی اپنے علاقے کے قدیم و جدید مسائل۔ پاکستان افغانستان کے حالات کے اثرات پر حاوی ہیں۔ مگر فنّی امور کا بھی خیال رکھا گیا ہے۔ آئندہ تحریر میں پشتو ناول پر بات ہو گی۔ پھر پشتو ہند کو شاعری۔ کون کون سے ناول مقبول عام ہیں۔ شاعری کس کس کی سنی جارہی ہے۔ سوشل میڈیا پر کیا ہو رہا ہے۔؟