پلٹ کر دیکھئے۔ وہ قائد اعظمؒ کھڑے ہیں اور وہ مشرق کا فقیدالمثال مفکّر‘ علّامہ محمد اقبالؔ۔ عظمت ان پر ٹوٹ ٹوٹ کر برس رہی ہے۔
آزادی! آزادی ہی آدمی کی سب سے قیمتی متاع ہے۔ انسانی صلاحیت اسی میں بروئے کار آتی ہے۔ مگر احساسِ ذمہ داری کے بغیر آزادی؟
نہ صرف پوری قوم کی نگاہیں نئے لیڈر کی طرف لگی ہیں‘ تجسس‘ امید‘ تحفظات اور اندیشوں کے ساتھ‘ ساری دنیا بھی اسلام آباد کی طرف دیکھ رہی ہے۔ یکایک یہ انکشاف ہوا ہے کہ پاکستان ایک اہم ملک ہے۔ امریکہ کو دبائو میں اضافہ کرنا ہے۔ بھارت کو اپنی چال چلنی ہے۔ ایرانیوں کی توقعات بندھی ہیں۔ عربوں کو فکر لاحق ہے۔ تین دن میں‘ تین بار سعودی عرب کے شاہی خاندان نے خان سے رابطہ کیا۔ پاکستان میں سرمایہ کاری کی پیشکش کی‘ جس کا پہلے کسی کو خیال تک نہ آیا تھا۔
امیدوں کی فصل ہری ہو گی یا اس بار بھی غارت جائے گی؟ ظاہر ہے کہ انحصار حکمت عملی اور فیصلوں پر ہے‘ جو آئندہ چند ایّام میں صادر ہوں گے۔ انحصار فقط لیڈر پہ نہیں قوم پر بھی ہے۔ اپوزیشن کی مختلف جماعتیں‘ عسکری قیادت‘ عدلیہ‘ میڈیا گروپ‘ مؤثر اخبار نویس‘ کاروباری اور دوسرے فعال طبقات کا کردار بھی ہوتا ہے۔ موجودہ حالات میں جو بڑھ گیا ہے۔ ریاست کمزور ہے اور مختلف لوگ من مانی پہ تلے ہوئے۔ تنہا عمران خان کوئی انقلاب نہیں لا سکتے۔ اگر ان کی مدد نہ کی گئی۔ اپنے اپنے تعصبات اور مفادات میں اگر مختلف گروہ اور مؤثر افراد مگن رہے۔ کمزور ملکوں کے ساتھ کیا ہوتا ہے؟ 2013ء کے الیکشن سے چھ ماہ پہلے کا ایک واقعہ سن لیجئے۔
اسحٰق خاکوانی‘ جہانگیر ترین اور جاوید ہاشمی وغیرہ کے ساتھ عمران خان سعودی سفارت خانے گئے۔ صاف صاف الفاظ میں سعودی سفیر نے ان سے کہا: نواز شریف کا ہم نے ساتھ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ آپ بھی ان کا ساتھ دیجئے۔
باقی تاریخ ہے۔
یمن کا بحران اٹھا تو اپنے پسندیدہ لیڈر سے سعودیوں کی توقعات پوری نہ ہو سکیں۔ ذمہ داری ٹالنے کے لیے معاملے کو نواز شریف پارلیمان میں لے گئے۔ پارلیمان کا رجحان غیر جانبداری کی طرف تھا۔ یہ قابلِ فہم ہے مگر اس ملک کی قیادت پر بہیمانہ تنقید کا جواز کیا تھا‘ ہر مشکل میں جو ہمارے کام آیا اور جس کے ساتھ ہمارا پیمان ہے۔
قصوروار خود شاہی خاندان بھی تھا۔ منتخب ہونے کے کچھ عرصہ بعد‘ صدر آصف علی زرداری سعودی عرب گئے تو ریاض میں شاہ عبداللہ سے ان کی ملاقات ٹھہری۔ سوئمنگ پول کے ایک طرف پاکستانی وفد اور دوسری طرف شاہ اور ان کے ساتھیوں کی نشست رکھی گئی۔ چند منٹ کے بعد شاہ عبداللہ اٹھے اور بات چیت کے لیے نائبین کو چھوڑ گئے۔
پیپلز پارٹی نہیں‘ آصف علی زرداری پاکستان کی نمائندگی کر رہے تھے۔ شاہ کو شاید ان کے بارے میں ایسی منفی معلومات مہیّا کی گئی تھیں کہ ہوش مندی کی پہچان رکھنے والے حکمران نے ایسا طرزِ عمل اختیار کیا۔ اس کا ایک بڑا سبب وہ پاکستانی عناصر بھی ہیں‘ جو سعودی عرب کے خیر خواہ گردانے جاتے ہیں۔
معلوم نہیں کپتان اور اس کی ٹیم کو علم اور اندازہ ہے یا نہیں‘ انہی لوگوں کی طرف سے‘ سوشل میڈیا پہ مہم برپا ہے کہ عمران خان کے گرد ایک مکتب فکر نے حصار بنا رکھا ہے۔ یہ بات مکمل طور پہ غلط ہے۔ بجا کہ بلوچستان میں ایک خاص گروہ کو ہدف بنانے پر خان نے احتجاج کیا۔ یاد ہے کہ اس زمانے میں کچھ لوگوں نے اسے خوف زدہ کرنے کی کوشش بھی کی تھی۔ مختلف فرقہ پرست گروہوں کی پشت پناہی سے‘ دوست ممالک نے پاکستان کے لیے مشکلات پیدا کیں‘ جو ان سب کا خیر خواہ ہے۔ یہ مواقع ریاست کی کمزوری نے فراہم کئے۔
ایک معتوب اور مختصر مکتب فکر نے عمران خان کو زیادہ ووٹ دیئے ہیں‘ جو اس سے پہلے نواز شریف کے ساتھ رہا۔ شریف خاندان سے اب وہ حسن ظن نہیں رکھتے۔ ایک دلچسپ پہلو یہ بھی ہے کہ میاں صاحب کو وہ عربوں کا حامی سمجھتے ہیں۔ حالانکہ اب ایسا نہیں۔ اوّلین ایّام کے بعد جب ڈیڑھ ارب ڈالر کا نقد عطیہ پیش کیا گیا‘ سرد مہری جلد ہی غالب آ گئی اور باقی رہی۔
عمران خان نے اچھا کیا کہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان ثالثی کی بات کی۔ اس سے پہلے جنرل قمر جاوید باجوہ‘ اسی سمت میں کچھ کام کر چکے تھے۔ بعض عرب شہزادوں کے باہمی اختلافات انہوں نے ختم کرانے کی کوشش کی۔ ایرانی صدر سے ملے تو کہا کہ عرب ایران مصالحت کے لیے وہ ایک مثبت کردار کے آرزومند ہیں۔ ایرانی لیڈر نے پوچھا کہ کیونکر یہ خیال انہیں سوجھا۔ رسان سے جنرل نے کہا: قرآن کریم یہ کہتا ہے کہ مسلمانوں میں اختلاف ہو تو اسے دور کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ایرانی لیڈر پہ ایسا جادوئی اثر ہوا کہ ستائش کے لیے اپنی نشست سے وہ اٹھے۔ سرکارؐ کا فرمان یہ ہے: ”الصلّح خیر‘‘۔ بھلائی صلح میں ہوتی ہے۔
مسائل پیچیدہ ہیں مگر اندیشہ‘ اندازِ فکر کی کجی سے ہوتا ہے۔ اگر خوف یا مصلحت سے کام لیا جائے۔ اگر تعصب یا ذاتی مفاد غالب آ جائے۔ ساری خرابی تجزیے کی غلطی سے پیدا ہوتی ہے۔ خیال بھٹکا تو عمل کی اساس برباد۔ قرآن کریم میں ارشاد یہ ہے: مومن کی بصیرت سے ڈرو کہ وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے۔
اپنے پروردگار پہ مکمل بھروسہ رکھنے والا آخری پاکستانی لیڈر محمد علی جناحؒ تھا‘ سچا اور کھرا۔ حقیقت پسند‘ صاحب تدبیر اور ریاضت کیش۔ تمام تر تگ و تاز کے بعد نتائج اللہ پہ چھوڑ دینے والا۔ اس کے بعد وہ لوگ آئے‘ جو کسی بھی دوسری چیز کو ملحوظ رکھتے۔ مگر ان کے تجزیوں میں آدمیت کی محبّت کا دخل تھا نہ بندوں کے خالق پہ بھروسہ۔
تمام کامیابیاں اور سب ناکامیاں داخلی ہوتی ہیں۔ خارجی عوامل کے بارے میں اللہ کی کتاب یہ کہتی ہے: کسی انسان پر اس کی استطاعت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالا جاتا۔ تاریخ کا سبق یہ بھی ہے کہ ہر بحران میں مواقع چھپے ہوتے ہیں۔ آزمائش سے گزر کر ہی افراد و اقوام سرخرو ہوتے ہیں۔ کوئی قوم عرصۂِ امتحان میں ڈالی جائے اور اس کی سمت درست رہے تو کبھی پامال نہیں ہو سکتی۔ جنابِ فاروق اعظمؓ کے بارہ سالہ عہد میں پانچ سال قحط کے تھے۔
معیشت الجھ گئی ہے‘ بگڑ گئی ہے۔ مگر اصل خطرہ قوم کی باہمی کشمکش سے ہے۔ میرا خیال ہے کہ بھیک مانگنے کے بجائے سمندر پار پاکستانیوں کو موزوں منافع کی ضمانت دی جائے تو شاید آسانی سے سرمایہ فراہم ہو سکے۔ امریکی مارکیٹ میں ڈالر پہ پیش کی جانے والی شرح منافع 0.3 فیصد سے لے کر 0.32 فیصد سالانہ ہے۔ پانچ سو ارب سالانہ بلکہ اس سے کچھ زیادہ ہر سال بجلی پہ لٹ جاتے ہیں۔ اس کی چوری‘ تاروں میں اڑ جانے والی بجلی‘ یعنی Line losses اور بلوں کی عدم ادائیگی۔ کیا نجی شعبے کی مدد سے بجلی کی فروخت کا ایک نیا نظام وضع نہیں ہو سکتا؟ امید برقرار رکھنے اور کاروباری ماحول سازگار بنانے کی ضرورت ہے۔ آزاد خارجہ پالیسی‘ مضبوط معیشت کے بغیر ممکن ہی نہیں۔ ایک نئی طرح کی نوکر شاہی اور بہتر پولیس ہمیں درکار ہے۔ افسروں کو آزادی چاہیے مگر نگرانی بھی۔ آج بھی سول سروس کے زیر تربیت افسروں کو گھڑ سواری سکھائی جاتی ہے‘ جس کے لیے صبح چار بجے وہ جاگتے ہیں۔ کس لیے؟ ہم ادھورے منیجر پیدا کرتے ہیں‘ ماہرین نہیں۔ ہماری دنیا بدل چکی۔ اکیسویں صدی میں یہ انیسویں صدی کا اندازِ فکر ہے۔
قحط الرّجال ہے۔ تاریخ یہ کہتی ہے کہ علاج اخلاقی تربیت ہے اور تعلیم کا فروغ۔ خارجہ پالیسی کے میدان میں پھونک پھونک کر قدم رکھنا ہوں گے۔ بادوستاں تلطّف با دشمناں مدارا۔ امریکہ اور یورپ سے الجھا نہ جائے۔ ترکی اور ملائیشیا ایسے ممالک سے مراسم میں گہرائی پیدا کی جائے۔ کیا سعودی عرب سے کچھ پیٹرول‘ کچھ ڈیزل اور ملائیشیا سے خوردنی تیل ادھار لیا جا سکتا ہے؟ چار چھ ارب ڈالر کا؟ مگر یاد رہے کہ بھیک سے ملک نہیں چلتے۔
بنیادی طور پر مسائل صرف دو ہیں۔ ٹیم کا انتخاب اور سمت کا تعیّن۔ لائق اور قابلِ اعتماد لوگوں کو ذمہ داریاں سونپی گئیں اور راستے کا تعیّن ٹھیک رہا تو گرد چھٹتی جائے گی۔ صلاحیتیں بیدار ہوتی جائیں گی اور سفر کٹتا چلا جائے گا۔
ژولیدہ فکری سے نجات‘ ژولیدہ فکری سے اللہ کی پناہ۔ اعتدال اور تدبّر کا راستہ۔ پلٹ کر دیکھئے۔ وہ قائد اعظمؒ کھڑے ہیں اور وہ مشرق کا فقیدالمثال مفکّر‘ علّامہ محمد اقبالؔ۔ عظمت ان پر ٹوٹ ٹوٹ کر برس رہی ہے۔