پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ اور مخلصانہ مشورہ…خالد مسعود خان
اللہ جانے اس خبر میں کتنی حقیقت ہے کہ مگر ملتان کے ایک نہایت معتبر صحافی نے مجھے بڑے یقین سے بتایا کہ صوبہ پنجاب کے وزیراعلیٰ کے لیے شاہ محمود کا نام فائنل ہو چکا ہے۔ میں نے کہا: مگر وہ تو پنجاب اسمبلی کے حلقہ 217 سے شکست کھا چکا ہے اور وزیراعلیٰ پنجاب کی دوڑ سے باہر نکل چکا ہے۔ مگر اس صحافی دوست کا اصرار تھا کہ اس کی خبر درست ہے۔ وہ دوست کہنے لگا…‘ لیکن میں ابھی دوست کی بات کو تھوڑی دیگر کے لیے وقفہ دیتے ہوئے‘ آپ کو سرائیکی میں کی گئی ایک تقریر کا اردو میں ترجمہ شدہ متن سنانا‘ بلکہ پڑھانا چاہتا ہوں:
”ہم نے فیصلہ کر لیا ہے‘ جو ہمارے ساتھ نہ تھا اور وہ آزاد لڑتا ہے تو یہ اور بات ہے‘ اور جو ہمارے ساتھ تھا‘ ہم سے ٹکٹ بھی مانگتا تھا‘ ہمیں حلف بھی دیتا تھا کہ اگر مجھے ٹکٹ نہ بھی ملا تو میں آپ کے ساتھ ہوں گا ‘پھر بھی کھڑا ہوتا ہے تو ہم ایسے کسی آدمی کو اپنے حلقے کی بات نہیں کرتے۔ پورے پنجاب میں سے وہ ہمارے ساتھ ملنا چاہے بھی تو اس بات کی گنجائش نہیں (تالیاں۔ نعرے۔ شاہ محمود قریشی زندہ باد۔ مخدوم شاہ محمود قریشی زندہ باد۔ وزیراعلیٰ پنجاب زندہ باد۔ دوبارہ یہی نعرہ) ایک دو دن میں آپ سن لیں گے‘ نوٹیفکیشن نکل آئے گا‘ ہم ان سب لوگوں کو پارٹی سے نکال رہے ہیں‘ کیونکہ انہوں نے۔ دیکھیں …زبان نہ کریں۔ حلف کیا ہوتا ہے؟ اشٹام پیپر پر حلف نامے پر۔ اشٹام پیپر پر۔ نہ دیتے۔ آپ بتائیں! دعائے خیر کیا ہوتی ہے؟ ایک زبان ہوتی ہے۔ دیکھیں خدانخواستہ دعا کر کے بھاگ جائیں ‘آپ نے ہمیں پھانسی تو نہیں د ے دینی۔ بندے کا اپنا اخلاق ہوتا ہے۔ اپنا ضمیر ہوتا ہے۔ بھری محفل میں میں نے بات کی تھی۔ لوگوں کے اکٹھ (پرپا) میں بات کی تھی۔ اب بات کر کے میں مکر جائوں‘ اچھی بات نہیں۔ اسی طرح حلف دے کر مکر جائوں‘ اچھی بات نہیں۔ اگر کہا ہے تو پھر اس کی پاسداری کرو۔ ساڑھے چار ہزار لوگوں نے اپلائی کیا۔ ساڑھے چار ہزار سیٹیں ہوتیں‘ سب کو ٹکٹ دے دیتے‘ہر کسی کو دے دیتے۔ لیکن ساڑھے چار ہزار سیٹیں ہیں نہیں۔ اور پھر جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے ہیں‘ آپ پارٹی میں آئے ہیں۔ (آوازوں کے باعث آواز صاف سنائی نہیں دیتی مگر رانا جبار کی تعریف ہو رہی ہے کہ وہ بھی ٹکٹ نہ ملنے کے باوجود ہمارے ساتھ کھڑے ہیں)‘ بندوں کا پتا چلتا ہے آزمائش میں‘ آسانی میں تو ہر کوئی ساتھ ہے۔ مشکل چڑھائی میں پتا چلتا ہے بندے کا دم کتنا ہے‘ اترائی میں تو ہر کوئی بھاگتا ہوا جاتا ہے۔ بندے کا پتا چڑھائی میں چلتا ہے۔ میں انشا اللہ سب دوستوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ پروگرام بے پناہ ہیں‘ اجازت چاہوں گا‘ بڑی مہربانی، شکریہ‘‘۔
اب اس تقریر کو چھوڑیں پہلے اس دوست صحافی کی بات مکمل کر لیں۔ کہنے لگا: دراصل شاہ محمود قریشی کا اس سلسلے میں اصرار ہی بہت ہے‘ وہ اس سے کم پر مان ہی نہیں رہا اور وہ کہتا ہے کہ جیسے میاں شہباز شریف دوست محمد کھوسہ کو عبوری وزیراعلیٰ بنا کر بعد میں صوبائی اسمبلی کی نشست پی پی 48 بھکر iii سے بلا مقابلہ منتخب ہونے کے بعدپکے وزیراعلیٰ کے طور پر آ گئے تھے‘ اسی طرح شاہ محمود قریشی بھی تین ماہ کے لیے پنجاب میں کسی کو عبوری وزیر بنا کر خود کسی محفوظ سیٹ سے الیکشن لڑ کر پنجاب اسمبلی میں آ کر وزیراعلیٰ بننا چاہتا ہے۔ میں نے کہا: مگر بھائی جان! ان کے چاہنے سے کیا ہوتا ہے؟ وہ تو بہت کچھ چاہتے ہیں‘ اللہ جھوٹ نہ بلوائے تو میں نے سنا ہے وہ تو صدر پاکستان بھی بننا چاہتا ہے۔ اپنے برخوردار کو‘ جو امریکہ میں جان کیری کے دفتر میں کام کرتا رہا ہے‘ وزیر خارجہ بنوانا چاہتا ہے‘ اور خود وزیراعلیٰ بھی بننا چاہتا ہے۔ بھلا اب ان کی اتنی ساری خواہشیں کیسے پوری کی جا سکتی ہیں؟ ایک ہی بندہ دو دو عہدوں کی بیک وقت تمنا میں مبتلا ہو تو اس کا کیا حل ہے؟
شاہ محمود قریشی اپنے تئیں پنجاب کے بنے بنائے وزیراعلیٰ تھے‘ وہ تو برا ہو صوبائی نشست پی پی 217 کا جہاں سے شاہ محمود قریشی وزارت عالیہ کی پہلی سیڑھی سے ہی پھسل گیا اور پنجاب اسمبلی کا رکن ہی نہ بن سکا‘ اور اسے ہرایا کس نے‘ ایک پچیس سال کے نوجوان سلمان نعیم نے۔ معاف کیجئے گا پچیس سال اور چھ مہینے کے نوجوان نے۔ سلمان نعیم‘ شاہ محمود قریشی کے 1988ء میں پہلی بار پنجاب کے وزیر منصوبہ بندی و ترقیات بننے کے پانچ سال بعد پیدا ہوا۔ ملتان کے تیرہ صوبائی حلقوں میں سے نو حلقوں سے پی ٹی آئی جیتی ہے‘ دو حلقوں یعنی پی پی 221 اور پی پی 223 سے مسلم لیگ ن کے رانا اعجاز اور نغمہ مشتاق بالترتیب جیتے ہیں۔ حلقہ پی پی 211 سے سید یوسف رضا گیلانی کے فرزند علی حیدر نے فتح سمیٹی اور حلقہ پی پی 217 سے آزاد امیدوار سلمان نعیم نے شاہ محمود کو ہرا کر نہ صرف پورے ضلع میں واحد آزاد امیدوار کی حیثیت سے جیت کر محیر العقول کارنامہ سرانجام دیا‘ بلکہ مستقبل کے بزعمِ خود وزیراعلیٰ کے سارے خواب چکنا چور کر دیئے ہیں۔
سلمان نعیم نے یہ سیٹ کیسے جیتی؟ ایمانداری کی بات ہے کہ میں آسٹریلیا جانے سے پہلے دو بار اس حلقے میں گیا‘ تب الیکشن مہم ٹھیک طریقے سے شروع نہیں ہوئی تھی‘ کوئی چیز واضح نہیں تھی۔ حلقے میں سلمان نعیم بڑا متحرک تھا اور نوجوان اس کی مہم چلا رہے تھے۔ پیسے کے اعتبار سے صورتحال یہ تھی کہ وہ دل کھول کر خرچ کر رہا تھا‘ بلکہ وہ الیکشن سے پہلے بھی دل کھول کر خرچ کرتا رہا تھا‘ لیکن اس حلقے کے بارے میں یار لوگ کہتے تھے کہ یہ حلقہ (بات حلقہ پی پی 217 کی نہیں‘ شاہ محمود کے قومی حلقہ این اے 156 کی ہو رہی تھی اور حلقہ پی پی 217 اسی قومی حلقے کے نیچے دو حلقوں میں سے ایک ہے) بڑا ظالم اور سرمایہ داروں کے معاملے میں بہت ہی طوطا چشم واقع ہوا ہے۔ پیسے کسی سے پکڑتے‘ ووٹ اپنی مرضی سے دیتے ہیں۔ 2008ء میں اس حلقے سے فاطمہ گروپ کے ارب پتی فضل مختار نے الیکشن لڑا اور تیسرے نمبر پر آیا۔ پہلے نمبر مسلم لیگ ن کے رانا محمود الحسن کا تھا‘ اس نے ستاون ہزار سے زائد ووٹ لئے‘ دوسرا نمبر پیپلز پارٹی کے عبدالقادر گیلانی (برخوردار سید یوسف رضا گیلانی) کا تھا ‘جس نے تینتالیس ہزار سے زائد ووٹ لیے‘ اور تیسرا نمبر مسلم لیگ ق کے فضل احمد شیخ کا تھا‘ جس نے پچیس ہزار کے لگ بھگ ووٹ حاصل کیے۔ فضل احمد شیخ نے اس الیکشن میں اکیلے جتنے پیسے خرچ کیے‘ اتنے پیسے شاید ملتان کے چھ حلقوں کے سارے امیدواروں نے مل کر خرچ کیے ہوں گے‘ مگر لوگوں نے موٹرسائیکلیں‘ نقدی‘ راشن وغیرہ لینے کے باوجود ووٹ نہ دیئے۔ یہ بڑا ظالم حلقہ ہے۔
میرے پاس ایک فون کال کا آڈیو کلپ بھی ہے‘ جس میں کوئی نعیم بھٹہ شاہ محمود قریشی سے بات کر رہا ہے۔ اس کلپ کا اختتام کوئی خوشگوار نہیں ‘لیکن درمیان میں شاہ محمود حلقہ پی پی 217 سے اپنی شکست کے بارے میں کہہ رہا ہے ”وہ میں بتائوں گا جو میرے ساتھ گیم ہوئی ہے‘‘ ۔میں نے شاہ جی سے پوچھا کہ میں تو پاکستان نہیں تھا پیچھے کیا گیم ہوئی ہے؟ کیا شاہ محمود کو اسٹیبلشمنٹ نے ہروایا ہے۔ شاہ جی زور دار قہقہہ مار کر ہنسے اور کہنے لگے: بھائی صاحب! آپ بھی بڑے بھولے ہیں۔ بھلا اپنے بندے کو کون ہرواتا ہے؟ میں نے پوچھا :پھر کیا ہوا؟شاہ جی کہنے لگے :اصل چکر یہ تھا کہ مسلم لیگ ن نے رانے فارغ کر دیئے تھے۔ رانا شاہد کو پہلے قومی اسمبلی کی ٹکٹ دی پھر واپس لے لی‘ویسے اچھا کیا۔ اس نے عامر سعید انصاری سے بھی کم ووٹ لینے تھے‘ لیکن انہوں نے اپنے پرانے مخالف (پارٹی کے اندر) عبدالوحید ارائیں کی اہلیہ کو ہروانے کیلئے اپنے سارے ووٹ سلمان نعیم کو ڈلوا دیئے اور بڑا ووٹ شاہ محمود قریشی کو ڈال کر دونوں مسلم لیگی امیدواروں کی منجی ٹھوک دی۔ دوسری بڑی وجہ یہ بنی کہ پی ٹی آئی کے سارے نوجوان نے بڑا ووٹ شاہ محمود کو اور چھوٹا ووٹ سلمان نعیم کو ڈال دیا۔ آخر اس حلقے میں وہ ایک عرصے سے ”انصاف ہائوس‘‘ میں بیٹھ کر تحریک انصاف کا کام کر رہا تھا‘ نوجوانوں نے انصاف تو کرنا تھا‘ سو انہوں نے کر دیا۔
میرا شاہ محمود کو مخلصانہ مشورہ ہے کہ اگر اسے جلدی ہے تو وہ دو چار دن انتظار کرے‘گورنر پنجاب رفیق رجوانہ مستعفی ہونے والے ہیں‘ یا وہ تھوڑا صبر کرے اور جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بننے دے اور پھر اپنا وزیراعلیٰ بننے کا پرانا شوق پورا کرے‘ حالانکہ میرا مشورہ نہایت مخلصانہ ہے‘ مگر مجھے یہ بھی پتا ہے کہ اپنے آپ کو عقلِ کُل سمجھنے والے کسی کا مشورہ مانتے نہیں‘ خواہ کتنا بھی صائب کیوں نہ ہو۔