پوری تصویر….بلال الرشید
اقبالؔ نے کہا تھا ع
جوانوں کو پیروں کا استاد کر
صرف اویس رشید ہی نہیں ، کچھ نئے لکھنے والوں کو موقع ملنا چاہیے ۔ اخبارات کونئے خون کی ضرورت ہے ۔ان نوجوانوں کی ، جن کے پاس سوچتا ہوا دماغ ہے ۔ اویس شاعری بھی کرتاہے ۔ اس کا مطالعہ بہت وسیع ہے ۔ کشف المحجوب اور احیائے علوم جیسے خزانوں سے مستفید ہو چکا ہے، میں ہنوز جن سے محروم ہوں ۔ میری طرح وہ بھی پروفیسر احمد رفیق اختر کا شاگر د ہے اوراس وجہ سے دماغ میں وسعت پیدا ہوچکی ہے ۔اس کی عمر صرف 28 برس ہے ۔ جبران عباسی نام کا ایک اور نوجوان ،جس سے فیس بک پر ہی آشنائی ہوئی۔اس کی عمر صرف19سال ہے ،جی ہاں، 19سال ،ا س نے سٹیون ہاکنگ کی موت پر سائنس اور مذہب کے بارے میں ایسی تحریر لکھی کہ میں حیرت زدہ رہ گیا۔ گو کہ بہت سے نکات سے اتفاق نہیں تھابہرحال وہ دماغ کا بھرپور استعمال کر رہا تھا اور دماغ استعمال کرنا دنیاکا سب سے مشکل کام ہے ۔جبران عباسی کا وہ مضمون چھپ جائے تو ایک کہرام برپا ہوجائے۔ جذبات بھڑکانا سب سے آسان کام ہے اوریہ کارِ خیر تو اکثرلوگ انجام دے ہی رہے ہیں ۔لفاظی کرنا بھی آسان ہے اور کسی نہ کسی طرح کالم کا پیٹ بھی ہم لوگ بھرتے رہتے ہیں لیکن اب اقبالؔ کی بات پر عمل ہونا چاہیے ۔ یہ با صلاحیت لوگ تو کسی نہ کسی طرح اپنا راستہ بنا ہی لیں گے، اخبارات بھرپور لو دیتے ہوئے ان چراغوں سے محروم ہی رہ جائیں گے ۔میری درخواست یہ ہے کہ خدارا ، وہ چیزیں چھاپیں ، جن سے پڑھنے والوں کے دماغوں کو آکسیجن ملے،کوئی عقل کی بات ملے ۔ چراغ سے چراغ جلے اور جہالت کچھ کم ہو ۔ ورنہ تو آپ نے دیکھا ہے کہ جو مذہب کے ٹھیکیدار بنتے ہیں ، وہ جب اپنے مخالفین کے خلاف بات کرتے ہیں توبے دریغ گالم گلوچ پہ اتر آتے ہیں ۔ جو کچھ پڑھ لکھ گئے ہیں ،وہ ہر وقت مذہب کو ridiculeکرنے کی ایک بے سود کوشش میں اپنی توانائی ضائع کرتے رہتے ہیں ۔ یوں دونوں طرف سے انتہا پسندی اور جہالت ہی دیکھنے کو ملتی ہے ۔
اس دنیا کی ایک عجیب حقیقت یہ ہے کہ انسان کو اپنا بڑے سے بڑا نقص بھی نظر نہیں آتا۔ خواہ انسان نفس کی چالوں سے اچھی طرح با خبر بھی ہو جائے ۔سوائے اس کے ، جس کی آنکھ خدا اس پہ کھول دے۔ دوسری طرف اس دنیا کا سب سے آسان کام ہے دوسروں پر رائے دینا۔ Judgementalہونا۔ اگر انسان خود کسی بیماری یا تکلیف سے دوچار ہو تو پوچھنے والوں کو وہ یہ کہتا ہے کہ خدا کی طرف سے ایک آزمائش سے میں گزر رہا ہوں ۔ یہ دنیا آزمائش کے لیے بنی ہے ۔ جتنی کسی شخص کی استطاعت زیادہ ہوتی، اس قدر اس پر آزمائش بڑی آئے گی ۔پھر وہ اس تکلیف سے نکل جاتاہے ۔ پھر کسی اور کو جب وہ تکلیف میں دیکھتا ہے تو کہتاہے کہ یہ اس شخص کے گناہوں کا نتیجہ ہے ۔
جس طرح دوسروں پر ججمنٹ پاس کرنا دنیا کا سب سے آسان کام ہے ، اسی طرح کچھ کر کے دکھانا دنیا کا مشکل ترین کام ہے ۔اپنے گھر میں اے سی کے نیچے بیٹھ کر مہنگے ترین لیپ ٹاپ پر پاک فوج پہ تبرّہ کرنا آسان ہے ۔ مورچے میں کھڑے ہو کر اور محاذ پر برستی گولیوں میں اپنی اولاد کو بھول کر دشمن سے لڑنا مشکل ترین کام ہے۔ یہ بات ایسے کسی بندے کو سمجھ نہیں آسکتی، کبھی جسے اپنی زندگی خطرے میں نظر نہ آئی ہو۔ جب ایک جان خود کو خطرے میں محسوس کرتی ہے تو اس وقت اس کی کیا حالت ہوتی ہے ، یہ دیکھنا کوئی مشکل کام نہیں ۔ ایک بلی کا بچہ لیں۔ اسے ہاتھ میں پکڑ کر چھت سے تیس چالیس فٹ نیچے کی زمین دکھائیں۔ جیسے ہی اسے خطرہ محسوس ہوگا کہ اسے یہاں سے گرایا جا سکتاہے ، اس کے رونگٹے کھڑے ہو جائیں گے۔ پوری قوت سے وہ زور لگا کر چھت پر چھلانگ لگانے کی کوشش کرے گی ۔جو لوگ دن رات پاک فوج پر تبرہ کرتے ہیں ، آپ انہیں سالانہ 8ارب ڈالر کا بجٹ دیں اور انہیں یہ کہیں کہ اب 50ارب ڈالر والے بھارت کا مقابلہ کر کے دکھائیں، جس کی سپاہ پاکستان سے کئی گنا زیادہ ہے ۔ کبھی کسی کا باپ بھی یہ کام نہیں کر سکے گا ۔ امریکہ افغانستان میں نہیں کر سکا ،سات آٹھ سو ارب ڈالر ضائع کرنے کے باوجود۔ دنیا کی بہترین افواج وہاں ناکام رہیں ۔ دنیا میں سب سے بڑے فوجی بجٹ والی افواج ویت نام میں ناکام رہیں ۔ جب کہ یہاں پر افغانستان میں سوویت یونین کی آمد اور پھر امریکی یلغار نے جو مسائل پیدا کیے ، ان میں پاک فوج کے پاس اپنی بھرپور قوت اور استعداد سے روبہ ء عمل آنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔ اگر کوئی شخص یہ کہتاہے کہ سوویت یونین اور امریکہ کی افغانستان آمد کے بعد پاکستان کے بعد لا تعلق رہنے کا کوئی آپشن موجود تھا تو اس سے بڑا جھوٹ اور کوئی نہیں ہو سکتا۔
اسی طرح کسی بھی معاملے میں ایک پوری تصویر دیکھنا بہت ہی مشکل کام ہے ۔ کسی معاملے کے تمام تر پہلوئوں کو عقل کی آنکھ سے دیکھنے کے بعد ایک حل تجویز کرنا اور اس پر عمل کرنا۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہم میں سے ہر شخص متعصب ہے ۔ اپنی اولاد کی محبت، اپنے مال کی محبت،اپنی جان کی محبت ، یہ وہ چیزیں ہیں جو کہ انسان کو انصاف کے راستے سے ہٹا دیتے ہیں ۔ انسان نا انصافی سے کام لیتاہے ۔ اپنی اولاد کو غلط نہیں کہتا، اپنی ذات کو غلط نہیں کہتا ۔ دوسرے کی آنکھ کا بال تو اسے خوب نظر آتا ہے ، اپنا شہتیر بھی دکھائی نہیں دیتا۔
اسی طرح پوری تصویر نہ دیکھ سکنے کی انسانی استطاعت کی ایک اور جہت بھی ہے ۔ میں مختلف شعبوں کے ماہرین سے ملتا رہتاہے ۔ اکثر ایک شعبے کے ماہر سے کسی دوسرے شعبے کے بارے میں جان بوجھ کر سوال کرتاہوں تو ایک بالکل بچگانہ رائے سننے کو ملتی ہے ۔ ایک دفعہ کمپیوٹر کے ایک ماہر سے میں نے امریکہ میں شیل تیل کے ذخائر پر بات کی، جس سے امریکہ کا سعودی عرب اور مشرقِ وسطیٰ پر انحصار کم ہو گیا ہے ۔ اس ماہر نے یہ کہا کہ امریکہ دنیا بھر سے تیل اکھٹا اور چوری کر کے اپنے ملک لے جا کر اپنے تیل کے کنوئوں میں ڈال رہا ہے۔ محاورتاً نہیں ، حقیقتاً امریکی (بالٹیوں سے )اپنے تیل کے کنوئوں میں تیل ڈال رہے ہیں ۔ اب آپ مجھے خود بتائیں کہ اگر ایک ملک نے دوسرے ملک سے لایا گیا تیل سٹور کرنا ہے تو کیا وہ کنوئوں میں ڈالا جائے گا؟
اسی طرح ایک دفعہ ایک بینکر نے مجھے یہ کہا کہ دنیا میںپاکستانی طالبان نامی کوئی مخلوق نہیں پائی جاتی بلکہ پاکستانی میڈیا ایک سازش کے تحت مختلف کارروائیوں کو ان سے منسوب کرتاہے ۔ میں نے جھک کر انہیں سلام کیا اور چلا آیا ۔
اسی طرح ہر بندہ اپنا اپنا سچ لیے بیٹھا ہے ۔ پوری تصویر دیکھنا کس قدر مشکل ہے ۔ ایک شخص ایک یا دو شعبوں کا ماہر ہو سکتاہے ، سب کا نہیں لیکن شیخ علی بن عثمان ہجویریؒ کی ہدایت کے مطابق ہر علم کی بنیادی چیزوں ، اس کی ابجد کا علم تو حاصل کیا جا سکتاہے ۔ تبھی تو انسان ایک پوری تصویر دیکھنے کے قابل ہو سکتاہے !