ملک کے چودہ بڑے بڑے شہروں کی مصروف ترین سڑکوں پر فوجی وردی میں ملبوس جنرل راحیل شریف کی بڑی بڑی تصویروں والے رنگین پوسٹروں نے سب کو یکدم اپنی جانب متوجہ کر لیا۔ ٹی وی چینلز سمیت ملک کی سیاسی اور صحافتی دنیا، سرکاری اور نجی دفاتر‘ بڑے بڑے ہوٹلوں اور ڈرائنگ رومز کے علاوہ تھڑوں پر بیٹھے ہوئے سیاسی پنڈتوں میں چہ میگوئیاں شروع ہو گئیں۔ ہر کوئی اپنا الگ ہی راگ الاپنا شروع ہو گیا‘ اور تان اس پر ٹوٹ رہی تھی کہ اب مارشل لاء لگنے ہی والا ہے۔ استاد گوگا دانشور کا کہنا ہے کہ اہم ترین امریکی سینیٹر جان مکین کے پاکستان سے جانے کے بعد یہ پوسٹر کسی گہری سازش کا پتہ دے رہے ہیں‘ ایسا لگتا ہے کہ امریکہ، دولت مشترکہ اور یورپی یونین کو کوئی پیغام دیا جا رہا ہو۔ ہر ٹی وی چینل ان پوسٹرز میں پھنس کر رہ گیا ہے اور وہ ان کو اپنے اپنے نقطہ نظر سے سامنے لا رہے ہیں۔ کچھ ذرائع اس طرح کے شکوک و شبہات سامنے لا رہے ہیں کہ یہ سب کچھ باقاعدہ پلاننگ سے کیا جا رہا ہے۔ صاف دیکھا جا سکتا ہے کہ کشمیر کو سامنے لائے بغیر بھارت سے تجارت اور دوستی کی باتیں کرنے والے‘ ترقی پسند اور لبرل کہلانے والے صحافیوں کا ایک گروہ لٹھ لے کر فوج کے پیچھے پڑ چکا ہے۔ سرکار کی ایک ایجنسی نے بھی عوامی رائے عامہ کا جائزہ لینے کے بعد حکومت کو پریشان کن رپورٹس دی ہیں کہ ان پوسٹرز کا تو وسیع پیمانے پر عوامی خیر مقدم ہو رہا ہے۔ عبدالستار ایدھی کے انتقال پر پنجاب کے سوا باقی تینوں صوبوں کی جانب سے دو سے تین دن تک سوگ منانے کا اعلان ہو چکا تھا‘ اس لئے فیصلہ ہوا کہ تنقید سے بچنے کے لئے لاہور میں عبدالستار ایدھی کی یاد میں
مشعل بردار جلوس نکالا جائے۔ ریلی کی تیاریاں شروع ہو گئیں لیکن پھر ایک اور مسئلہ پیدا ہو گیا کہ باغ جناح لاہور سے ڈی سی او لاہور کی قیادت میں سرکاری ملازمین اور پی ایچ اے کے ورکروں پر مشتمل یہ مشعل بردار جلوس چیئرنگ کراس چوک تک جانا تھا‘ جبکہ اس مشعل بردار ریلی کے روٹ کے رستے میں جنرل راحیل شریف کو ملک کی خدمت کے لئے آگے بڑھنے اور مدت ملازمت پوری ہونے پر ریٹائر نہ ہونے کی اپیل پر مبنی کئی پوسٹر جگہ جگہ درختوں اور کھمبوں پر لگے ہوئے تھے۔ ظاہر ہے کہ ریلی میں شرکت کے لئے بلائے گئے چھوٹے بڑے تمام سرکاری اہلکاروں اور پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے دو درجن سے زائد اداروں کو یہ رنگین پوسٹر نظر آنا تھے اور ان کی جانب سے ریلی کی براہ راست میڈیا کوریج کی وجہ سے ان پوسٹروں نے دور دراز جگہوں پر بیٹھے ہوئے لاکھوں ناظرین تک بھی پہنچ جانا تھا۔ پی ٹی وی نے اس ریلی کی بھرپور کوریج کرنا تھی‘ اس لئے چھوٹے چکوک اور گوٹھوں میں بیٹھے ہوئے لوگوں کو بھی یہ پوسٹر اور ان پر لکھی ہوئی عبارت دیکھنے اور پڑھنے کو مل جانا یقینی تھا۔ اس لئے لاہور کی سب سے بڑی سرکار کی جانب سے حکم ہوا کہ ریلی کو کچھ دیر کے لئے باغ جناح کے قریب روک کر پہلے ان تمام پوسٹرز کو اتار دیا جائے۔
بارہ جولائی کو باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت جب ہر جانب فوج پر الزامات کی بارش شروع کر دی گئی‘ تو فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ نے ٹویٹ کے ذریعے اس الزام کی سختی سے مذمت اور تردید کر تے ہوئے کہا گیا کہ یہ پوسٹرز ہرگز ہرگز فوج نے نہیں لگوائے۔ جس نے بھی یہ پوسٹر لگوائے اس کا مقصد تو پورا ہو چکا‘ کیونکہ وہ چاہتا تھا کہ ملک کی تمام سیاسی جماعتوں تک ان الفاظ میں یہ خبر پہنچ جائے کہ اگر جنرل راحیل شریف کی تصویر والے پوسٹرز کے مطابق فوج کا نواز حکومت کو ہٹانے کا کوئی پروگرام بن چکا ہے‘ تو یاد رکھیں کہ میاں نواز شریف کے ساتھ ساتھ آپ میں سے بھی کسی کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا اور کڑا احتساب سب کا ہو گا‘ کوئی بھی نہیں بچے گا۔ یہ پیغام دینے کے ساتھ ہی فوجی پوسٹرز سے متعلقہ گھڑی ہوئی یہ خبریں اپنے میڈیا گروپ کے ذریعے اسلام آباد کے سفارتی حلقوں تک بھی پہنچا دی گئیں تو ساتھ ہی حکم جاری ہوا کہ اخبارات میں ان پوسٹرز کا رخ فوج کی جانب کرتے ہوئے جمہوریت کے خلاف سازش کے نام سے تبصرے اور تجزیئے شائع کئے جائیں۔ ساتھ ہی کرکٹ کے شہنشاہ نجم سیٹھی کو کچھ خاص باتوں کے ساتھ ساتھ ایک اہم ترین نکتہ بھی بتایا گیا۔ نجم سیٹھی صاحب نے یہ نکتہ اپنی مٹھی میں بند رکھا‘ اور پھر اپنے ٹی وی پروگرام میں پوسٹرز کے بارے میں ادھر ادھر کی باتیں کرنے کے بعد چہرے پر شرارت آمیز مسکراہٹ لاتے ہوئے یکدم براہ راست جنرل راحیل سے مخاطب ہوتے ہوئے مطالبہ کر دیا کہ شکوک و شبہات دور کرنے کے لئے وہ اپنا سابق اعلان‘ جو انہوں نے چھ ماہ پہلے کیا تھا کہ وہ وقت مقررہ پر ریٹائر ہو کر گھر چلیں گے اور اپنے عہدے کے لئے کسی بھی قسم کی extension نہیں لیں گے‘ دوبارہ جاری کر دیں تاکہ فوج کی اس پوسٹر سے جو بدنامی ہو رہی ہے وہ ختم ہو جائے۔ اس مطالبے کو ٹی وی چینل پر بار بار دھرانے کے بعد اگلے دن سرکاری اخبار میں دوسرے متعلقہ تبصروں کے بیچ نمایاں طور پر اسے شائع بھی کر دیا گیا‘ اس طرح حکومت نے اپنے تئیں ایک بہترین چال چلتے ہوئے اپنی جانب سے گیند جنرل راحیل شریف کے کورٹ میں پھینک دی۔ اس کوشش میں وہ کتنا کامیاب ہوتے ہیں اس کا فیصلہ اگلی کچھ عرصے میں سامنے آجائے گا۔ نجم سیٹھی صاحب کو یہ خوش خبری بھی دے دی گئی کہ اگلے چند ہفتوں تک ہو سکتا ہے کہ انہیں امریکہ میں پاکستانی سفیر یا پھر خارجہ امور میں وزیر اعظم کا سینئر سپیشل ایڈوائزر مقرر کر دیا جائے۔ یہ بات دو دن پہلے ”بہترین موڈ‘‘ میں بیٹھے ہوئے سابق نگران وزیر اعلیٰ کی زبان سے پھسل چکی ہے۔ چودہ بڑے بڑے شہروں میں ایک ہی دن اور ایک ہی وقت پر یہ پوسٹر کس نے لگائے؟ یا یہ کہنا مناسب ہو گا کہ یہ پوسٹر کس نے بنوائے اور کس نے لگوائے اور کن کے ذریعے لگوائے؟ اگر سی سی ٹی وی فوٹیج کو سامنے لایا جائے تو لگانے والے صاف دیکھے جا سکیں گے‘ جن سے یہ معلوم کرنا کوئی مشکل نہ ہو گا کہ یہ پوسٹرز کس نے لگوائے۔ اگر آپ جاننا ہی چاہتے ہیں کہ یہ پوسٹر کس نے اور کس کے کہنے پر لگوائے‘ تو آپ کو ایک پرانا واقعہ سناتا ہوں جس کے آج بھی لاکھوں گواہ موجود ہوں گے۔ 1993ء جب مرکز اور پنجاب میں مسلم لیگ ن کی حکومت تھی‘ اور جنرل آصف نواز ملک کے آرمی چیف تھے تو آج کی پاناما لیکس کی طرح اس وقت کواپریٹو بینکوں‘ فنانس کارپوریشنز اور تاج کمپنی کی آڑ میں ملک کے غریب عوام اور پنشنرز کے اربوں روپوں کی لوٹ مار کا بہت شور پیدا ہوا تھا‘ جن کا سارا الزام میاں نواز شریف اور ان کی فیملی پر لگایا جا رہا تھا اور جگہ جگہ متاثرین کے جلوس نکل رہے تھے‘ تو اسی دوران لاہور جیل روڈ سے ایف سی کالج کی جانب جانے والی نہر کے بائیں کنارے پر میجر رشید وڑائچ مرحوم کے گھر کی دیوار پر ایک دن اچانک جہازی سائز کا ایک بل بورڈ لگایا گیا تھا‘ جو کئی دن تک تصاویر کی صورت میں اخبارات کی زینت بنتا رہا۔ اس بل بورڈ پر فوجی وردی پہنے ہوئے جنرل آصف نواز کو آگے بڑھ کر فوجی مداخلت کی دعوت دیتے ہوئے لکھا تھا: ”مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے‘‘ ۔۔۔۔ اور پھر انہی میجر رشید وڑائچ مرحوم کو میاں نوازشریف نے اپنے اگلے دور حکومت میں وزیر اعظم معائنہ کمیشن میں ڈائریکٹر جنرل مقرر کر دیا تھا۔