پونے دو مشیر، بیانیہ کی کمبختی اور بلیدان کا امکان…خالد مسعود خان
پونے دو مشیروں نے میاں نواز شریف کو پوری طرح ڈبونے کا اہتمام کر رکھا ہے۔ نام لینا ضروری نہیں، سب کو پتا ہے کہ وہ کون کون ہیں۔ ایک تو پورا مشیر ہے۔ ایک آدھا اور ایک چوتھائی۔ یہ کل مل کر پونے دو بنتے ہیں۔ اس کے علاوہ مشاورت کا دروازہ بند ہے۔ سو چوہدری نثار علی خان جیسے لوگ اس دروازے کے باہر کھڑے ہیں اور میاں صاحب کی آہستہ آہستہ ڈوبتی ہوئی سیاسی کشتی کو افسوس اور ملال کے ساتھ دیکھ رہے ہیں۔
میاں صاحب کی اس ساری سیاسی بربادی کا آغاز بھی ڈان میں چھپنے والے سرل المیڈا کے کالم سے ہوا تھا اور گمان ہے کہ انجام بھی اسی اخبار اور اسی اخبار نویس کے ہاتھوں ہو گا۔ میاں صاحب کو دھکے سے بہادر بنانے کی اس مہم کا سارا نقصان صرف اور صرف میاں نواز شریف کو ہو گا اور رہ گئی بات ووٹ کو عزت دینے کی تو بات ووٹ کو عزت دینے سے نہیں ووٹر کو عزت دینے سے بنے گی اور میاں صاحبان (چھوٹے اور بڑے دونوں سمیت) ووٹر تو رہ گئے ایک طرف ووٹوں سے (جن کی عزت کا وہ راگ آج کل الاپ رہے ہیں) منتخب ہو کر آنے والے عوامی نمائندوں کی رتی برابر عزت نہیں کرتے۔ ووٹوں کے نتیجے میں وجود میں آنے والی پارلیمنٹ کے ساتھ وہ جو سلوک کرتے رہے ہیں، وہ سب کے سامنے ہے۔ میاں صاحبان نے سارے اہم سیاسی فیصلے پارلیمنٹ یا کابینہ سے مشورہ گھر بیٹھ کر کیے ہیں۔ خاص طور پر میاں نواز شریف کی ساری سیاسی مشاورت جاتی امراء تک محدود تھی۔ وہ پارلیمنٹ میں کم گئے اور برطانیہ زیادہ گئے۔ ان کے غیر ملکی دوروں کی تعداد ان کی پارلیمنٹ میں حاضری سے دس گنا سے بھی زیادہ ہے۔ پارلیمنٹ ان کے نزدیک صرف ان کو منتخب کرنے والے ایک فورم کا نام تھا جس کا کام ان کو منتخب کرنے کے بعد ختم ہو گیا تھا۔ کیونکہ وہ ووٹوں سے منتخب ہو کر آئے تھے۔ اس لئے ان کے نزدیک ساری اہمیت صرف ووٹ کی ہے اس لئے وہ ووٹ کی عزت کا نعرہ لگا رہے ہیں اور آپ کو تو علم بھی ہو گا کہ ووٹ کی ساری اہمیت صرف اس وقت تک ہے جب تک اس کی گنتی نہ کی جائے اس کے بعد تو وہ بوریوں میں بند کر دیئے جاتے ہیں اور عدالتی اصرار کے باوجود ان کو دوبارہ پیش کرنے میں اس لئے ٹال مٹول بھی کیا جاتا ہے کہ ووٹ کی حرمت کے ساتھ جو سلوک ہوا ہوتا ہے وہ اس قابل نہیں ہوتا کہ عدالت میں پیش کیا جا سکے۔ کہیں مہر نہیں لگی ہوتی۔ کہیں گنتی کے متعلقہ فارم موجود نہیں ہوتے۔ کہیں ریٹرننگ افسر کے دستخط نہیں ہیں اور کہیں ووٹر کا انگوٹھا ہی سرے سے موجود نہیں اور کہیں کہیں تو ووٹ کی عزت کا یہ عالم ہے کہ ایک ایک شخص نے بیس بیس لوگوں کی جگہ اپنا انگوٹھا لگا کر ثابت کیا ہے کہ یہ لوگ ووٹ کی عزت کے لئے کیا کچھ نہیں کر سکتے۔ لیکن فی الحال میاں نواز شریف کے تازہ بیان پر بات ہو رہی تھی۔
میاں نواز شریف فی الحال (اس کالم کے لگنے تک) صرف انٹرویو دے کر خود خاموش ہیں۔ باقی ساری جنگ ان کے گھر والے اور طبلچی برگیڈ لڑ رہی ہے۔ خاندانی کیمپ بھی واضح طور پر دو حصوں میں تقسیم ہے ایک کی قیادت مریم نواز شریف کر رہی ہیں اور وہ ”ون مین آرمی‘‘ ہیں۔ خود ہی کمانڈر ہیں اور خود ہی اس کمانڈر کی قیادت میں لڑنے والا جنگجو دستہ۔ دوسری طرف میاں شہباز شریف ہیں اور ان کے ساتھ حمزہ شہباز شریف ہیں۔ یہ دستہ دو نفری ہے لیکن ایمانداری کی بات ہے کہ اس دستے کو بھی ”یک نفری‘‘ ہی سمجھا جائے کہ حمزہ شہباز شریف کی حیثیت ایک طفیلی سپاہی سے زیادہ نہیں ہے اس کے ساتھ اگر ”شہباز شریف‘‘ کا لاحقہ لگا ہو تو اس کی اہمیت کچھ بھی نہیں۔ بلکہ اگر سچ پوچھیں تو حمزہ شہباز شریف اپنے والد گرامی کے لئے ایک ”Liability‘‘ سے زیادہ نہیں کیونکہ شہباز شریف حکومت کی کرپشن کی بات ہو تو اس کا آغاز بھی حمزہ شہباز کے نام سے ہوتا ہے اور اختتام بھی حمزہ کے نام پر ہوتا ہے۔ ملتان میٹرو کے بارے میں بہت سی کہانیوں میں سب سے زور دار کہانی یہ تھی کہ اس پراجیکٹ کے تمام بڑے بڑے ذمہ داران کا رابطہ براہ راست حمزہ شہباز شریف سے بتایا جاتا تھا۔
نواز شریف اور شہباز شریف کیمپ کا ”بیانیہ‘‘ مختلف ہے۔ ویسے یہ لفظ ”بیانیہ‘‘ جتنا بے عزت اور بے وقعت پاکستان میں اب ہوا ہے اس کی مثال اردو تاریخ میں پہلے کہیں نہیں ملتی۔ ہم کسی ایک لفظ کو پکڑ لیتے ہیں اور اسے اتنا بے توقیر کر دیتے ہیں کہ وہ لفظ اللہ سے پناہ مانگنے پر آ جاتا ہے۔ اس سے پہلے بھی ہم لوگوں نے کئی الفاظ کے ساتھ یہی سلوک کیا ہے۔ ایک لفظ ”تزویراتی گہرائی‘‘ یعنی Stratagic Depth کے ساتھ بھی یہی سلوک کیا حتیٰ کہ یہ لفظ اپنی ہی کھودی ہوئی ”تزویراتی گہرائی‘‘ میں کہیں دفن ہو گیا۔ اب یہ ‘بیانیہ‘‘ ہماری روزمرہ کی زندگی میں اس طرح داخل ہوا ہے کہ اللہ کی پناہ، خاص طور پر میاں نواز شریف کا تو ہر بیان ہی ”بیانیہ‘‘ بن کر رہ گیا ہے۔ خواہ وہ انتہائی احمقانہ ہی کیوں نہ ہو۔
ویسے تو میاں نواز شریف کا ہر دوسرا بیان ہی احمقانہ ہوتا ہے مگر کیونکہ وہ بیان نہیں ”بیانیہ‘‘ ہوتا ہے اس لئے وہ احمقانہ نہیں سمجھا جاتا۔ ویسے بھی جہاں آپ کے سیاسی ورکر دراصل سیاسی ورکر کے بجائے پیروکار، تابع فرمان، مقلد، مرید، معتقد، بلکہ غلام بن چکے ہوں ،وہاں کوئی بیان احمقانہ نہیں ہوتا اور ایسا ہر بیان دراصل ”بیانیہ‘‘ بن جاتا ہے۔ ان سیاسی غلام زادوں کی بات چھوڑیں، ہماری نوجوانی کے وہ لکھنے والے جن کو ہم آئیڈیل سمجھا کرتے تھے اور انہوں نے حق لکھنے کا ایک ایسا معیار بنا دیا تھا کہ اس معیار پر پورا اترنا بھی صرف انہی کا کام تھا ان میں سے بچے ہوئے ایک آدھ قلم کے مجاہد نے بھی اپنا قلم اور زور زبان میاں نواز شریف کے قدموں میں رکھ دیا ہے۔ کئی ایسے شاندار لکھنے والے جن کا سارا ماضی ان کے دائیں بازو کے ہونے کا گواہ ہے۔ انہوں نے بھی اپنی ساری صلاحیتیں اس میاں نواز شریف کیلئے وقف کر دی ہیں، جس کا اب دائیں بازو سے دور دور کا بھی تعلق نہیں ہے۔ پاکستان میں دائیں بازو کو میاں نواز شریف نے اور بائیں بازو کو ذوالفقار علی بھٹو نے کس طرح اغوا کیا؟ یہ ایک بڑی مزیدار کہانی ہے جو کبھی پھر سہی۔ تاہم یہ دونوں اغوا کی کہانیاں اس اغوا کی کہانی سے قطعاً مختلف ہے کہ مولانا فضل الرحمان نے پاکستان کے پورے دیو بندی مکتب فکر کو کس طرح اغوا کیا۔ لیکن افسوس ان دائیں بازو کے لکھنے والوں پر ہوتا ہے۔
اب میاں نواز شریف خود کو لبرل کے طور پر سامنے لا رہے ہیں اور اس ساری نظریاتی (اگر واقعتاً وہ نظریاتی تھے بھی) تبدیلی کے پیچھے بھی ان کی صاحبزادی کا ہاتھ ہے۔ اس سارے کھیل میں جس کی ابتدا ”ڈان لیکس‘‘ سے ہوئی تھی۔ میاں نواز شریف نا اہلی سے ہوتے ہوئے تا عمر نا اہل تک آ گئے ہیں اور اب وہ خلائی مخلوق سے جنگ لڑتے لڑتے ممبئی حملہ تک آ گئے ہیں۔ مریم نواز شریف کا کہنا ہے کہ ”میاں صاحب نے جو کہا، ملک کے بہترین مفاد میں کہا۔ ملک کو کیا بیماری کھوکھلا کر رہی ہے؟ میاں صاحب سے بہتر کوئی نہیں جانتا، وہ علاج بھی بتا رہے ہیں‘‘۔ یعنی مریم نواز شریف ،میاں نواز شریف کے بیان کی تائید کر رہی ہیں۔ خرم دستگیر اور میاں شہباز شریف اس بیان کی توجیہات، تشریحات اور تاویلات دے رہے ہیں۔ لیکن اب معاملہ قومی سلامتی کونسل کے پاس ہے۔ سو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔ لیکن اس سارے معاملے میں نواز شریف کا ”بلیدان‘‘ نہ ہو جائے۔ جس کے امکانات بہت زیادہ ہیں۔ اگر یہ ہوا تو اس کے ذمہ دار خود نواز شریف ہونگے جو پونے دو مشیروں کے نرغے میں ایک عرصے سے یرغمال بنے ہوئے ہیں۔ ایک مشیر ان کے گھر کا ہے۔ آدھا مشیر میرا ایک دوست ہے اور چوتھائی بھی ایسا ہی سمجھ لیں۔
ملک خالد نے صبح فون پر پوچھا یہ کیا ہو رہا ہے؟ میاں صاحب نے ایسا بیان کیسے دے دیا؟ میں نے کہا اللہ کا وعدہ ہے کہ کوئی شخص اس دنیا سے ایسے رخصت نہ ہو گا کہ اس کا اصل لوگوں کے سا منے نہ آ جائے۔ کالم چھپنے سے پہلے کئی باتیں سامنے آ چکی ہونگی مگر اب کی بار میاں صاحب اکیلے نہیں، بمعہ مشیران وغیرہ من جملہ ڈوبیں گے۔