پوچھنا یہ تھا….بابر اعوان
کو ئی چاہے یا نہ چاہے‘ سوشل میڈیا ہر ایسی بات کہہ دیتا ہے‘ جو مصلحت کوش لوگ نہیں کہنا چاہتے۔ بلکہ چاہتے ہوئے بھی نہیں کہہ پاتے۔ کون نہیں جانتا‘ مصلحت پر سب سے بڑی مصالحت یا این آر او کروانے والا ظالم پیٹ ہے کوئی اور نہیں۔ اسی ظالم پیٹ نے قائدِ اعظم ؒ کے بعد قائدِ اعظم ثانی گھڑنے میں دیر نہیں لگائی۔ سوشل میڈیا بلا شُبہ معنی و مفہوم سمیت 100 فیصد متبادل میڈیا ہے‘ اور آزاد بھی۔ اس کی گلی میں این آر او کا داخلہ بند ہے۔ اگلے روز کسی ظالم نے یہ پوسٹ سوشل میڈیا پر لگائی ”پوچھنا یہ تھا‘ کل جو خصوصی طیارہ عمران خان حکومت نے شریف فیملی کو دیا‘ اس پر کسی آزاد اینکر کو کوئی اعتراض تو نہیں؟‘‘۔
”پوچھنا یہ تھا‘‘ کے عنوان سے ایک دوسری پوسٹ ان لفظوں میں سامنے آئی۔ ”کیا ماڈل ٹائون میں سرکاری بندوقوں سے شکار کی جانے والی خواتین کسی کی مائیں، بہنیں، بیٹیاں نہیں تھیں…؟ ایک اور پوسٹ میں لکھا تھا: مرنا بر حق ہے‘ لیکن کسی کو نا حق مار دینا کیا ہے؟ قتل یا انسانیت کی بَھل صفائی۔ ‘مجھے پوچھنا یہ ہے‘ کی گردان نے سال 1998 کے آغاز کی ایک یخ بستہ شام یاد کرا دی۔ یہ قائدِ اعظم انٹرنیشنل ائیر پورٹ کراچی ہے۔ لائونج میں شہید بی بی، بے بی بلاول، چھوٹی چھوٹی آصفہ اور بختاور، ناہید خان اور میں‘ موجود ہیں۔ ترکش ائیر لائن کی پرواز اڑنے کے لیے تیار کھڑی ہے۔ شہید بی بی کے بچوں کے لیے اسلام آباد اور کراچی کے سکولوں میں داخلہ بند ہے۔ مجبوراً ہائی کورٹ کی اجازت سے بی بی شہید بلاول کو ساتھ لے کر دبئی جا رہی ہیں۔ بیٹیوں کے لیے فلائٹ میں سیٹیں نہ مل سکیں۔ اُنھیں ناہید خان اور فلپینو ملازمہ کے ساتھ کچھ عرصہ اور کراچی میں رکنا ہے۔ بچوں کا باپ لکھپت جیل لاہور کا قیدی تھا۔ ایک مجبور ماں بیٹیوں سے کہتی ہے “YOU GOT TO TAKE CARE OF YOUR MOTHER. YOU WILL BE TOGETHER AND YOUR MOTHER WILL BE ALONE ABROAD”
محترمہ صاحبہ مجسمِ غم تھیں{ پھر بھی آواز مستحکم۔ اس سے آگے کا منظر اولاد والے نہیں پڑھ سکیں گے۔ اس لیے یہاں رُک جاتا ہوں۔ وزیرِ اعظم کون تھا۔ احتساب کمیشن کا سربراہ کون۔ احتساب بینچ میں بیٹھا منصف کون تھا‘ اسے بھی رہنے دیتے ہیں۔ کیونکہ قوم نے پوچھنا یہ تھا کہ یہ ” ڈیم گیم‘‘ کے پیچھے کیا ہے…؟؟؟
پاکستان میں ڈیم گیم کی تاریخ انتہائی سادہ ہے۔ بھارت نے سندھ طاس معاہدے کے بعد ہمارا پانی چوری کرنا شروع کر دیا۔ بلکہ اسے چوری کی بجائے ڈکیتی کہنا مزید درست ہو گا۔ یہ ڈیم گیم کا افتتاحی کلیپ تھا۔ تاریخ ، آرکائیو ، اخبار اور میڈیا دیکھ لیجئے۔ پاکستان کے اندر سے اس ڈکیتی کے خلاف کبھی کسی نے چوں تک نہیں کی ۔ اسی عرصے میں و طنِ عزیز تربیلا جوائنٹ وینچر اور منگلہ ڈیم سمیت پانی کے کچھ ذخیرے تعمیر کرنے میں کامیاب ہو گیا ۔ لیکن ڈکیتی بڑھتی ہی گئی ۔ بھارت کی دیدہ دلیری آسمان کو چھونے لگی ۔ اور پاکستان کے اندر سے حکمران اشرافیہ کی مجرمانہ خاموشی ، اپنے ہی پانی کی ڈکیتی پر مہرِ تصدیق لگاتی چلی گئی ۔ ڈیم گیم میں ٹوئسٹ تب آیا جب کالا باغ ڈیم کے لیے ابتدائی تعمیرات مکمل ہو گئیں ۔ یہ ریکارڈ کی بات ہے کہ شمال مغربی سرحدی صوبے کے کانگریس نواز اور اُن کے چند اور ہم نوا قو م پرست مختلف حکومتوں کو پانی کے مسئلے پر بلیک میل کرنا شروع ہو گئے۔ کبھی کمزور ڈکٹیٹر کالا باغ ڈیم کے مسئلے پر گھٹنے ٹیک گئے ۔ اور کبھی کمرشل جمہوریت بھارت کی ان پراکسی آوازوں کے سامنے لمبی لیٹ گئی۔
آئینی طور پر ملک کے اندر Consensus یا اتفاقِ رائے بنانے کے لیے تین ادارے موجود ہیں۔
نمبر 1 : قومی معاملات پر اتفاقِ رائے پیدا کرنے کے لیے پہلا ادارہ پارلیمان ہے ۔ جہاں گفتگو ، بحث مباحثہ ، لابنگ اور دلائل کے ذریعے کسی نتیجے پر پہنچا جا سکتا ہے ۔ سوات میں پاکستان کی رِٹ کی واپسی ۔ اے پی ایس میں معصوم بچوں کے قتلِ عام کے بعد آئینی ترمیم کے ذریعے فوجی عدالتوں کا قیام ۔ اس قومی پلیٹ فارم سے اتفاقِ رائے کے ذریعے منظور ہونے والے دو تازہ ترین اقدامات ہیں۔
نمبر 2 : آئین کے اندر درج قومی اتفاقِ رائے کے لیے دوسرا ادارہ مشترکہ مفادات کی کونسل ہے ۔ یہاں سے بھی حال ہی میں دو اہم ترین قومی امور پر قومی اتفاقِ رائے قائم ہوا ۔ ایک مردم شماری اور اُس کے نتیجے میں منعقد ہونے والے عام انتخابات ۔ دوسرے نیشنل فنانس کمیشن میں آبادی کی بجائے مسائل اور غربت کی بنیاد پر قومی وسائل کی تقسیم کا نیا فارمولا ۔
نمبر 3 : قومی امور پر مختلف آراء میں سے آئینی راستہ نکالنے کا تیسرا فورم سپریم کورٹ آف پاکستان ہے ۔ مشرقی پاکستان کے سقوط کے بعد ایک آئینی بحران پیدا ہوا تھا۔ وہ یہ کہ پارلیمنٹ کی غیر موجودگی میں بجٹ کون پاس کرے گا۔ یہ معاملہ سپر یم کورٹ کے سامنے (Advisory jurisdiction) میں پیش ہوا ۔ جہاں سے پچھلے بجٹ کو عبوری بجٹ قرار دے کر مسئلے کا حل نکال لیا گیا ۔
میں کوئی محکمہ آبیات کا ماہر نہیں۔ نہ ہی اعداد و شمار کے رٹے پر انحصار کرنا چاہتا ہوں ۔ سامنے کی بات ہے‘ پورے پاکستان میں جنگل تیزی سے کٹ رہے ہیں ۔ سیزن وقت سے پہلے آتے ہیں۔ کبھی وقت پہ بھی موسم نہیں بدلتا ۔ زمین کے نیچے واٹر ٹیبل جو 80 سے 120 فٹ پر تھا‘280 فٹ سے آگے نکل چکا ہے ۔ ہر سال بارشوں کا سمندر نما پانی بحرِ ہند اور بحیرہ عرب میں جا گرتا ہے۔ ‘پانی چوری ہو جائے گا‘ کی آواز لگانے والے ہاری ، مزارع اور کاشتکار نہیں‘ کارپوریٹ ایگریکلچر کے بادشاہ ایسے سرمایہ دار ہیں جنہوں نے درجہ چہارم کی سرکاری ملازمت سے سیاسی کیرئیر شروع کیا اور ہٰذا مِن فضلِ ربی کے ذریعے لاکھوں ایکڑ اراضی کے مالک ہو گئے۔ چھوٹا کاشت کار یا زمیندار ہمیشہ سے ٹیل اینڈر (Tail Ender) چلا آتا ہے ۔ جس کی قسمت میں پانی کُلی، استنجا ، اور وضو کرنے کے لیے ہی بچتا ہے ۔
ڈیم گیم میں بیرونی انویسٹمنٹ کی اصل کہانی کوئی جاننا چا ہے تو جناب شمس الملک صاحب سے سن لے ۔
قوم نے پوچھنا یہ تھا کہ اگر پاکستان کے بجٹ سے چلنے والے ایک آئینی ادارے میں یہ احساس جاگا کہ ڈیم بننا چاہیے تو اس کے نتیجے میں صوبائی خود مختاری کو کیا خطرہ ہے؟ چیف جسٹس جناب جسٹس میاں ثاقب نثار اور چیف ایگزیکٹیو عمران خان ڈیم کے لیے اپنوں سے چندہ مانگ رہے ہیں ۔ قومی عزت گھر والوں سے چندہ مانگنے سے دائو پر لگتی ہے یا آئی ایم ایف ، ورلڈ بینک اور اے ڈی بی کے سامنے کشکول پھیلانے سے۔ پوچھنا یہ تھا کہ ڈیم کے مسئلے پر مودی کے آدرش پورے کرنا حب الوطنی اور ڈیم کے لیے جھولی پھیلانا غداری ہے کیا؟
ہر کوئی دل کی ہتھیلی پہ ہے صحرا رکھے
کس کو سیراب کرے کس کو پیاسا رکھے
قوم نے پوچھنا یہ تھا کہ اگر پاکستان کے بجٹ سے چلنے والے ایک آئینی ادارے میں یہ احساس جاگا کہ ڈیم بننا چاہیے تو اس کے نتیجے میں صوبائی خود مختاری کو کیا خطرہ ہے؟ چیف جسٹس جناب جسٹس میاں ثاقب نثار اور چیف ایگزیکٹیو عمران خان ڈیم کے لیے اپنوں سے چندہ مانگ رہے ہیں ۔ قومی عزت گھر والوں سے چندہ مانگنے سے دائو پر لگتی ہے یا آئی ایم ایف ، ورلڈ بینک اور اے ڈی بی کے سامنے کشکول پھیلانے سے۔