منتخب کردہ کالم

’’پُراسرار‘‘ ملاقات…رئوف طاہر

’’پُراسرار‘‘ ملاقات…رئوف طاہر

جمعرات‘ 28 دسمبر کی شام ٹی وی چینلز کی بریکنگ نیوز‘ اگلے روز کے اخبارات میں بھی صفحۂ اول کی نمایاں ترین خبروں میں ایک تھی… جنرل (ر) ناصر جنجوعہ کی نوازشریف سے ملاقات۔ جاتی اُمرا میں پانچ گھنٹے کی اس ملاقات میں قومی سلامتی اور دہشت گردی کے مسائل پر بات ہوئی۔ خبر میں معزول وزیراعظم کے نقطۂ نظر کی تفصیل بھی تھی‘ مثلاً ہمسایہ ملکوں کے ساتھ بہتر تعلقات کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے انہوں نے افغانستان میں امن کو خطے میں امن کے لیے ناگزیر قرار دیا اور اس عزم کا اظہار بھی کہ پاک سرزمین پر آخری دہشت گرد کے خاتمے تک دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری رہے گی۔
ایک معاصر انگریزی اخبار سے خصوصی گفتگو میں مسلم لیگ نون کے سیکرٹری اطلاعات اور کلائمیٹ چینج کے وفاقی وزیر مشاہد اللہ خاں کا کہنا تھا کہ معزول وزیراعظم برسرِاقتدار جماعت کے سربراہ کی حیثیت سے حکومت کے کسی بھی رکن سے مل سکتے ہیں۔ قومی سلامتی اور خودمختاری کے حوالے سے وہ ہمیشہ بہت حساس رہے ہیں۔ ہمسایوں سے بہتر تعلقات کی خواہش کے باوجود انہوں نے قومی مفادات کو کبھی نظرانداز نہیں کیا۔ اپنی تیسری وزارتِ عظمیٰ میں جنرل اسمبلی کے اجلاس سے اپنے پہلے خطاب (ستمبر 2013ئ) میں انہوں نے مسئلہ کشمیر کو پوری شدت سے اٹھایا اور اسے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیریوں کے حق خودارادیت کے ذریعے حل کرنے پر زور دیا۔ 2016ء میں انہوں نے برہان مظفر وانی کا ذکر بھی کیا۔ وفاقی کابینہ نے ان کی زیرِ صدارت اجلاس میں عظیم کشمیری حریت پسند نوجوان کو ”شہید‘‘ قرار دیا۔ پارلیمنٹ کے خصوصی اجلاس میں مقبوضہ کشمیر میں بھارتی ظلم و تشدد کی مذمت اور کشمیریوں کی تحریک آزادی کی بھرپور حمایت کا اعادہ کیا گیا۔ مشاہد اللہ خاں کا کہنا تھا‘ ایسا شاندار ٹریک ریکارڈ رکھنے والے لیڈر کو حُبّ الوطنی کے کسی سرٹیفکیٹ کی ضرورت نہیں۔ ایک سوال پر ان کا موقف تھا کہ نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر کو کابینہ کے سویلین ممبر کی حیثیت میں‘ برسراقتدار جماعت کے سربراہ کو سلامتی کے معاملات پر بریفنگ کے لیے کوئی اجازت نامہ درکار نہیں۔
پاکستان مسلم لیگ نون کے سینیٹر جنرل (ر) عبدالقیوم نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کی جنرل کونسل کے سالانہ اجلاس میں شرکت کے لیے لاہور آئے ہوئے تھے‘ جناب الطاف حسن قریشی کی ان سے شناسائی برسوں پر محیط ہے۔ سول ملٹری ریلیشن شپ ایک بار پھر سیاسی تبصروں اور تجزیوں کا اہم موضوع ہے۔ الطاف صاحب نے کچھ درونِ خانہ احوال جاننے کے لیے جنرل صاحب کو جمخانہ میں برنچ پر مدعو کر لیا۔ جنرل نے مارشل لاء کے چاروں ادوار دیکھے ہیں۔ فیلڈ مارشل ایوب خاں کے آخری اڑھائی تین برسوں میں وہ ینگ آرمی افسر تھے۔ جنرل ضیاء الحق کے دَور (افغان جہاد کے دنوں میں) وہ جی ایچ کیو میں تھے۔ مشرف کے دَور میں انہوں نے پاکستان اسٹیل کراچی کے چیئرمین کی حیثیت سے اس قومی ادارے کو اپنے پائوں پر کھڑا کرنے کی بساط بھر کوشش کی (اور اس میں بہت حد تک کامیاب بھی رہے) آرمی کی موجودہ قیادت سے بھی وہ مناسب ربط و ضبط رکھتے ہیں۔ سینیٹ سے حالیہ خطاب میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے ریٹائرڈ جرنیل کی سنیارٹی کا ذکر کرتے ہوئے کہا‘ یہ جب لیفٹیننٹ جنرل تھے‘ میں لیفٹیننٹ کرنل تھا۔ اس سے قبل جی ایچ کیو میں ارکانِ سینیٹ سے ملاقات میں بھی جنرل قیوم موجود تھے۔ جمخانہ کے اس برنچ میں کسی لاگ لپیٹ کے بغیر ان کا کہنا تھا‘ فوج نے سویلین معاملات میں جب جب مداخلت کی‘ اس کا ملک کو بھی نقصان ہوا اور فوج کو بھی…یہ جو ہندوستان ہم سے آگے نظر آتا ہے‘ تو اس کا ایک بنیادی سبب وہاں جمہوریت کا تسلسل بھی ہے۔ جنرل کا کہنا تھا کہ فوج کی قیادت کو بھی اس حقیقت کا بخوبی احساس ہے۔ جمہوریت کے استحکام کے لیے سیاسی قیادتوں کو بھی اپنی ذمہ داری کا احساس کرنا چاہیے۔ اس میں سیاسی جماعتوں کو گراس روٹ لیول تک لے جانا‘ بلدیاتی اداروں کو مضبوط کرنا‘ پارلیمنٹ کو اہمیت دینا اور قیادت و کارکن کے درمیان رابطوں کا فروغ شامل ہے۔ جنرل قیوم وزیراعظم بے نظیر بھٹو صاحبہ کے ملٹری سیکرٹری بھی رہے۔ وہ بتا رہے تھے کہ محترمہ کے سہ ماہی شیڈول میں کسی نہ کسی ڈویژن کے ارکان پارلیمنٹ سے میٹنگ لازماً شامل ہوتی تھی۔
معزول وزیراعظم سے جنرل ناصر جنجوعہ کی طویل ملاقات کے حوالے سے جنرل قیوم کا بے تکلفانہ جواب تھا کہ وہ کچھ کہنے کی پوزیشن میں نہیں۔ لیکن قومی سلامتی کے حوالے سے اس تبادلۂ خیال کی اہمیت و افادیت سے کسے انکار ہو گا۔ ان کا کہنا تھا‘ بلوچستان میں بدترین شورش کے دنوں میں جنرل ناصر جنجوعہ وہاں کور کمانڈر تھے۔ انہوں نے اور ان کے رفقاء نے شورش کو کچلنے اور امن و امان کو بحال کرنے میں قابل قدر خدمات انجام دیں۔ تیسری بار وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد دہشت گردی کا خاتمہ میاں نوازشریف کی اولین ترجیحات میں شامل تھا۔ اس حوالے سے بلوچستان پر بھی ان کی خصوصی نظر تھی۔ وہ کوئٹہ جاتے تو جنرل جنجوعہ انہیں تازہ ترین صورتحال کے حوالے سے بریف کرتے۔ وہ ریٹائر ہوئے تو وزیراعظم نے انہیں قومی سلامتی کے امور پر مشیر بنا لیا۔ موجودہ وزیراعظم جناب شاہد خاقان عباسی کی کابینہ میں بھی وہ یہ ذمہ داری نبھا رہے ہیں۔
اس اتوار کو جنرل ناصر جنجوعہ‘ اپنے انڈین ہم منصب اجیت دوول سے ہونے والی خفیہ ملاقات کے حوالے سے بریکنگ نیوز اور ٹاک شوز کا گرما گرم موضوع بن گئے۔ تھائی لینڈ کے دارالحکومت بنکاک میں دو گھنٹے کی یہ ملاقات ”خفیہ‘‘ نہ رہی تھی۔ پاکستان نے اس حوالے سے اپنی ذمہ داری نبھائی لیکن وعدہ خلافی انڈیا کی طرف سے ہوئی۔ اس ”لِیک‘‘ کے لیے ”انڈین ایکسپریس‘‘ کو ذریعہ بنایا گیا تھا۔ یہ ملاقات ”اچانک‘‘ نہ تھی‘ بلکہ کئی روز پہلے سے طے شدہ تھی۔
لائن آف کنٹرول پر ”گرما گرمی‘‘ کے حوالے سے 2017ء گزشتہ تین چار برسوں میں بدترین رہا تھا۔ اس سال سیز فائر کی 820 خلاف ورزیاں ہوئیں‘ خود انڈین ایکسپریس کے مطابق ان میں انڈین آرمی کے 31 سپاہی مارے گئے۔ 18 دسمبر کو جنرل ناصر جنجوعہ نے اسلام آباد میں نیشنل سکیورٹی سیمینار سے خطاب میں جنوبی ایشیاء میں امن و استحکام کو درپیش سنگین مسائل کا ذکر کرتے ہوئے نیوکلیئر وار کے خطرے کا بھی اظہار کیا تھا۔ تو کیا بنکاک کی یہ ملاقات خطے کو ایک بڑی جنگ سے بچانے کی حکمت عملی کا حصہ تھی؟
کشیدہ تعلقات کے حامل دو پڑوسیوں کے نیشنل سکیورٹی ایڈوائزرز کی یہ ملاقات پہلی نہ تھی۔ ذرائع کے مطابق دسمبر 2015ء میں بھی دونوں میں ایسی ہی ملاقات ہوئی تھی‘ اس کے لیے بھی بنکاک ہی کا انتخاب ہوا جس میں دونوں ملکوں کے خارجہ سیکرٹری بھی موجود تھے۔ اس ملاقات کے بعد ہی 25 دسمبر 2015ء کا وہ تاریخی واقعہ ہوا‘ جب وزیراعظم مودی کابل سے دہلی جاتے ہوئے پاکستان کی طرف سے کسی دعوت کے بغیر لاہور ائیرپورٹ پر اترے اور جاتی امراء میں اپنے پاکستانی ہم منصب سے ملاقات کی۔ اسے وزیراعظم نوازشریف کی سالگرہ پر مبارکباد کا عنوان دیا گیا تھا۔
تو کیا بنکاک سے واپسی پر جاتی امرا میں سابق وزیراعظم سے قومی سلامتی کے مشیر کی طویل ملاقات‘ اپنے بھارتی ہم منصب سے میٹنگ پر بریفنگ کے لیے تھی؟ لیکن اتوار کے روز ”ذرائع‘‘ ایسی کسی ملاقات سے لاعلمی کا اظہار کر رہے تھے۔ ایک بڑے میڈیا ہائوس سے وابستہ‘ ساکھ اور اعتبار کے حامل اخبار نویس کا اہم ذرائع کے حوالے سے کہنا تھا کہ جنرل جنجوعہ کی نوازشریف سے ملاقات ہوئی ہی نہیں‘ ملنے والا کوئی اور تھا…اور موضوع بھی پاک‘ بھارت معاملات نہیں بلکہ پاک سعودیہ تعلقات تھے۔ پاکستان ہی داخلی و خارجی مسائل سے دوچار نہیں‘ برادر ملک سعودی عرب کو بھی مشکلات درپیش ہیں جس کے لیے اسے پاکستان کی عسکری اور سیاسی‘ دونوں قیادتوں کی مدد کی ضرورت ہے اور شریف برادران کا دورہ سعودی عرب اسی حوالے سے تھا۔