منتخب کردہ کالم

پکڑ لو مجھے، اُلٹا لٹکا دو (ترازو) محمد بلال غوری

جج، قانون کے اس طالب علم کو کہتے ہیں جو اپنے امتحانی پرچے کے نمبر بھی خود ہی لگاتا ہے۔ (امریکی مصنف، ایچ ایل میکن)
قانون مکڑی کا وہ جالا ہے جس میں چھوٹے موٹے کیڑے مکوڑے تو پھنس جاتے ہیں مگر بڑے جاندار باآسانی اسے پھاڑ کر نکل جاتے ہیں۔ (ارسطو سے منسوب ایک مقولہ)
عجب کرپشن کی غضب کہانیاں تو سالہا سال سے سنتے آرہے ہیں مگر یہ کیسی جادو نگری ہے کہ علی بابا چالیس چوروں سمیت رنگے ہاتھوں پکڑا جائے تو بھی باعزت بری ہو جاتا ہے۔ صدر غلام اسحاق خان نے بینظیر بھٹو کی حکومت برطرف کی تو قوم کو بتایا گیا کہ پیپلز پارٹی ملک لوٹ کر کھا گئی۔ بدعنوانوں کا احتساب کرنے کے لیے منجھے ہوئے بیوروکریٹ روئیداد خان کی خدمات حاصل کی گئیں۔ بینظیر کے خلاف مقدمات بنائے گئے، چھان بین شروع ہوئی، ثبوت اکٹھے کیے گئے مگر ‘وہ جو بیچتے تھے دوائے دل، وہ دکان اپنی بڑھا گئے‘ والا معاملہ ہوا۔ صدر فاروق لغاری نے انہیں الزامات کے تحت ایک مرتبہ پھر بینظیر کی حکومت کو رخصت کر دیا تو عوام کا خیال تھا کہ ہو نہ ہو اس مرتبہ یہ اونٹ کسی کروٹ بیٹھے گا مگر اس بار بھی محتسب یہی راگ الاپتے نظر آئے کہ کرپشن رے کرپشن تیری کون سی کل سیدھی۔ نواز شریف دو تہائی اکثریت لے کر دوسری مرتبہ وزیر اعظم منتخب ہوئے تو انہوں نے سیاست کے خیمے میں گھسنے والے کرپشن کے اونٹ کو نکیل ڈالنے کی ذمہ داری احتساب سیل کے چیئرمین سیف الرحمان کو سونپ دی۔ واقفانِ حال بتاتے ہیں کہ جب ٹرپل ون بریگیڈ کے کمانڈوز وزیر اعظم سیکرٹریٹ میں داخل ہوئے تو سیف الرحمان کا اپنا ”احتساب‘‘ نکل گیا۔ پرویز مشرف نے قومی احتساب بیورو یعنی نیب کا ادارہ قائم کیا تو مایوسی کے اندھیروں میں امید کی ایک نئی کرن دکھائی دی کہ شاید اب کڑا اور بے لاگ احتساب ہو اور لوٹی ہوئی رقم واپس لائی جائے‘ مگر این آراو نے ان امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ گویا، حسرت ان غنچوں پہ جو بن کھلے مرجھا گئے۔ جن پر مخالفین مسٹر ٹین پرسنٹ کی پھبتی کستے تھے وہ صدر مملکت بن گئے‘ مگر اس قوم کی عظمت کو سلام، اس نے پھر بھی احتساب کے خواب دیکھنے کا سلسلہ ترک نہ کیا۔
جب آصف زرداری ایوان صدر میں جلوہ افروز تھے تو وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف حبیب جالب کے انقلاب آفریں اشعار پڑھ پڑھ کر اس عزم کا اظہار کیا کرتے تھے کہ وہ ملک لوٹنے والوں کو الٹا لٹکائیں گے اور ان کا پیٹ پھاڑ کر لوٹی ہوئی دولت واپس لائیں گے۔ قسمت کے دھنی اور مقدر کے سکندر میاں نواز شریف پر قدرت مہربان ہوئی اور وہ ایک مرتبہ پھر انتخابات جیت کر وزیر اعظم منتخب ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ سب نے سوچا، اس مرتبہ تو احتساب کا ادھورا خواب ضرور شرمندہ تعبیر ہو گا۔ حسب وعدہ یہ دھرتی دھڑ دھڑ دھڑکے گی‘ اور ملک لوٹنے والوں کو چوراہوں میں الٹا لٹکایا جائے گا۔ اب جبکہ موجودہ دور حکومت اپنے اختتامی برس میں داخل ہوا چاہتا ہے، احتساب کا خواب تو شرمندہ تعبیر ہوتا دکھائی نہیں دیتا؛ البتہ یہ خواب دیکھنے والے ضرور شرمندہ نظر آتے ہیں۔ کوٹیکنا ریفرنس، سرے محل وغیرہ تو ماضی کا قصہ اور احتساب کا عبرتناک حصہ ہو چلے، مضحکہ خیز حقیقت یہ ہے کہ چمنستان احتساب کی کوئی بھی بیل منڈھے نہیں چڑھ سکی۔ ماضی قریب میں صوبائی وزیر مذہبی امور حامد سعید کاظمی کو حج انتظامات میں مال بنانے کے الزام میں گرفتار کیا گیا‘ مگر وہ باعزت بری ہو گئے۔ بلوچستان کے سیکرٹری فنانس مشتاق رئیسانی کے گھر سے 40 ارب روپے بر آمد ہوئے مگر وہ نیب سے پلی بارگین کرکے چھوٹ گئے۔ سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کے صاحبزادے ارسلان افتخار پر کرپشن کے الزامات لگے تو یوں لگا جیسے آسمان ٹوٹ گرے گا‘ لیکن بات آئی گئی ہو گئی۔ سابق آرمی چیف راحیل شریف نے کڑے احتساب کا اعلان کیا تو سب سہم گئے مگر بعد میں معلوم ہوا کہ کرپٹ جرنیلوں کو ”شدید ناراضی‘‘ کی سزا دے کر فارغ کر دیا گیا۔
ماڈل ایان علی منی لانڈرنگ کے الزامات پر گرفتار ہوئیں تو لوگوں نے سوچا، شطرنج باز قانون کی گرفت میں نہیں آئے تو کیا ہوا، ان کے مہرے تو پکڑے گئے۔ دفعتاً یوں لگا جیسے اب تک نہ پکڑے گئے سب لٹیروں کا غصہ اس ماڈل پر نکالا جائے گا اور اسے نشان عبرت بنا دیا جائے گا مگر وہ نرم و نازک حسینہ بھی قانون کے جالے سے بچ نکلنے میں کامیاب ہو گئیں۔ شرجیل میمن طویل عرصہ بعد وطن واپس آئے تو انہیں بھی عدالت سے ضمانت مل گئی اور جب تک یہ کالم شائع ہو گا اربوں روپے کی کرپشن کے الزامات میں گرفتار ڈاکٹر عاصم حسین کو بھی رہائی مل چکی ہو گی۔ جنہیں اب بھی یہ توقع ہے کہ پانامہ کے مقدمے میں وزیر اعظم کو نااہل قرار دیا جائے گا، ان کی ہمت کی داد نہ دینا یقینا ناانصافی ہو گی‘ بہرحال عدالت کا فیصلہ ہی حتمی ہو گا۔
یہ تو سب طویل تمہید تھی جو میں نے چاچا پھتو کے تاریخی جملے آپ تک پہنچانے کے لیے قلمبند کی۔ چاچا پھتو میرا پرانا واقف کار ہے۔ اس کے اصرار پر یہ فخریہ پیشکش میں آپ تک پہنچا رہا ہوں۔ چاچا پھتو کہتا ہے کہ آف شور کمپنیوں پر تمام تر
شور و غوغا کے باوجود شریف خاندان کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے کوئی غلط کام نہیں کیا تو ان کی بات مان لینے میں کیا حرج ہے؟ قبلہ آصف زرداری اگر فرماتے ہیں کہ جھوٹے پر اللہ کی لعنت، ماڈل ایان علی سے میرا کوئی تعلق نہیں تو یقین کرنے میں کیا قباحت ہے؟ حامد سعید کاظمی کا اصرار ہے کہ ان پر لگائے گئے الزامات جھوٹے ہیں تو سچ ہی کہتے ہوں گے، بھلا ایسا معزز آدمی غلط بیانی کر سکتا ہے؟ راجہ پرویز اشرف، شرجیل میمن اور ڈاکٹر عاصم حسین کے خلاف اب تک کرپشن کا کوئی الزام ثابت نہیں کیا جا سکا تو عدالتیں بیچاری کیا کریں؟ آخر کب تک ان بیگناہوں اور بے قصوروں کو پابند سلاسل رکھا جائے؟ بھلا ایسے خاندانی لوگ جنہوں نے کبھی پتنگ کی ڈور نہیں لوٹی، ملکی خزانہ کیسے لوٹ سکتے ہیں؟ میں نے زچ ہو کر کہا، چاچا! تم واقعی پھتو ہو۔ اگر یہ سب لوگ بے قصور اور بے گناہ ہیں تو پھر ملکی خزانہ کس نے لوٹا ہے؟ ہر سال اربوں روپے کس کے اکائونٹس میں جاتے ہیں اور ہماری بدحالی کا ذمہ دار کون ہے؟ چاچا پھتو نے سینے پر ہاتھ رکھ کر کہا ”اگر یہ سب لوگ انتہائی ایماندار، نیک، پرہیزگار اور حاجی نمازی ہیں تو پھر نیب اور اینٹی کرپشن مجھے آکر گرفتار کرلے، میں ہی ہوں ان کا مجرم۔ میں بلا جبر اعتراف کرتا ہوں کہ جتنا بھی قومی خزانہ لوٹا گیا، میں نے نقب لگائی۔ سرے محل بھی میرا ہے، سوئس اکائونٹس بھی میرے ہیں، آف شور کمپنیاں بھی میری ہیں، لندن کے فلیٹ بھی میرے ہیں، حاجیوں کو بھی میں نے لوٹا، رینٹل پاور پلانٹس پر بھی میں نے مال بنایا، یہ سب کچھ میرا کیا دھرا ہے کہ ان لٹیروں کو ووٹ تو میں ہی دیتا ہوں، آئو پکڑ لو مجھے، الٹا لٹکا دو مجھے، ختم کرو یہ تماشا۔
میں بلا جبر اعتراف کرتا ہوں کہ جتنا بھی قومی خزانہ لوٹا گیا، میں نے نقب لگائی۔ سرے محل بھی میرا ہے، سوئس اکائونٹس بھی میرے ہیں، آف شور کمپنیاں بھی میری ہیں، لندن کے فلیٹ بھی میرے ہیں، حاجیوں کو بھی میں نے لوٹا، رینٹل پاور پلانٹس پر بھی میں نے مال بنایا، یہ سب کچھ میرا کیا دھرا ہے کہ ان لٹیروں کو ووٹ تو میں ہی دیتا ہوں، آئو پکڑ لو مجھے، الٹا لٹکا دو مجھے، ختم کرو یہ تماشا۔