پھر چوہدری نثار علی خان!! رئوف کلاسرا
چوہدری نثار اگر غائب ہو جائیں تو پھر وہ ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتے۔ اپوزیشن طعنے مارتی رہے، میڈیا پکارتا رہے وہ آپ کو نہیں ملیں گے۔ لیکن جب ملتے ہیں تو وہ دبنگ انداز میں انٹری ڈالتے ہیں اور پھر انہی پر ہی خبریں بنتی ہیں۔ ایک دفعہ پھر چوہدری نثار خبروں میں ہیں اور یقینا ایک اہم موقع پر۔ اس بار انہوں نے ایک دفعہ پھر گستاخی کر دی ہے اور گستاخی بھی کسی اور کی نہیں بادشاہ سلامت نواز شریف کی۔
چوہدری نثار اور وزیر اعظم نواز شریف کے درمیان بارہ اکتوبر کی بغاوت کے بعد تعلقات کبھی اچھے نہیں رہے۔(تفصیلات میری کتاب ”ایک سیاست کئی کہانیاں‘‘ میں پڑھ جا سکتی ہیں)۔ نواز شریف کبھی بھولنے پر یقین نہیں رکھتے تو چوہدری نثار زیادہ وضاحتیں نہیں دیتے اور چپ رہنا انہوں نے بھی نہیں سیکھا۔ نواز شریف صاحب کو گلہ ہے جنرل مشرف کو آرمی چیف چوہدری نثار نے بنوایا تھا‘ جس کے بعد ان کے اقتدار کی کشتی ڈوب گئی تھی۔ عرصہ تک نواز شریف اور چوہدری نثار کی بول چال نہیں رہی۔ چوہدری نثار کو کچھ بھی کہیں اور میں خود ان کی بہت ساری باتوں کا ناقد ہوں لیکن وہ خوشامدی نہیں ہیں۔ طویل عرصے سے میں پارلیمنٹ جا رہا ہوں۔ ہر بڑے سے بڑے وزیر کو وہاں نواز شریف کی خوشامد کرتے دیکھا ہے، اگر کسی کو ایسا کرتے ہوئے نہیں دیکھا تو وہ چوہدری نثار ہیں۔ اگر نواز شریف صاحب کو کوئی نارمل انداز میں لیتا ہے تو وہ چوہدری نثار ہیں۔ وہ ہٹو بچو گروپ سے دور رہتے ہیں۔ شروع میں چوہدری نثار نے نواز شریف خاندان کی پاناما سکینڈل کے معاملے میں دفاع کرنے کی کچھ کوشش کی تو چند سمجھدار دوستوں نے سجھایا کہ آپ اپنا نام کیوں خراب کرتے ہیں‘ آپ پر کرپشن کا کوئی داغ نہیں ہے‘ آپ کرپٹ لوگوں اور کرپشن کا دفاع کرکے خود کو خراب کر بیٹھیں گے۔ چوہدری صاحب کو اس کے بعد کبھی شریف خاندان کا دفاع کرتے نہیں دیکھا گیا۔ ان پر مجھے بہت سارے اعتراضات ہیں کہ وزیر داخلہ کی حیثیت سے انہوں نے کرپشن کی بہت ساری فائلیں دبا دیں‘ جو یقینا سیاسی فائدہ دیکھ کر دبائی ہوں گی۔ آئی بی سے جو سابق ایک وزیر داخلہ نے پچاس کروڑ روپے نقد نکلوا کر ہڑپ کر لیے، ان کا کبھی کوئی حساب کتاب نہیں مانگا۔ کرائسز مینجمنٹ سیل کے سیکریٹ فنڈ سے سابق وزیر داخلہ نے جو لوٹ مار کی اس پر بھی چوہدری نثار علی خان خاموش پائے گئے۔ پاسپورٹ سکینڈل پر بھی انہوں نے کوئی کارروائی نہیں کی۔ ایف آئی اے نے دوبئی میں ان ہزاروں پاکستانیوں کو ڈھونڈ نکالا تھا جنہوں نے پاکستان سے کالا دھن دوبئی بھیجا اور وہاں جائیدادیں خریدیں۔ اس فائل میں بڑے بڑے نام تھے جو پیسہ چوری کرکے دوبئی لے گئے تھے‘ لیکن چوہدری نثار صاحب نے وہ فائل بھی دبا لی۔ اس فائل کے مطابق ایک وائس ایئر مارشل نے بھی بیس لاکھ درہم کی جائیداد دوبئی میں خریدی۔ موصوف روزانہ دن میں کئی بار تین چار چینلز پر حب الوطنی کا لیکچر دے رہے ہوتے ہیں۔ ان کا موقف ہے ”میرا داماد ڈاکٹر ہے۔ اس نے مجھے بیرونِ ملک سے پیسے بھیجے کہ انکل آپ اس بھاری رقم سے دوبئی میں جائیداد خرید لیں‘‘۔ اس سے ایک اور داماد کیپٹن صفدر یاد آ گئے جنہوں نے جے آئی ٹی کو بتایا کہ انہوں نے راجن پور میں جو کئی مربع زمین خریدی‘ وہ دراصل ان کے سسرالیوں کی طرف سے ہر ماہ دی جانے والی پندرہ سو ریال جیب خرچ سے بچت کرکے لی گئی تھی۔ سسرالیوں کے اس جیب خرچ میں اتنی برکت تھی کہ اس سے ہی مانسہرہ میں بھی کئی ایکڑ زمین کیپٹن نے خرید لی۔
خیر ایک طویل فہرست ہے جو پیش کی جا سکتی ہے کہ وزیر داخلہ کے طور پر چوہدری صاحب بہت سارے کمپرومائز کرتے رہے‘ اور میرے جیسے لوگ مایوس ہوئے جو سمجھتے تھے کہ شاید وہ زیرو ٹالرنس سے کام لیں گے۔
سیاسی معاملات چوہدری نثار سے بہتر شاید ہی کوئی سمجھتا ہو گا۔ اگر وہ کابینہ کے اجلاس میں بول پڑے ہیں تو یہ پہلی دفعہ نہیں ہو رہا۔ وہ ماضی میں بھی نواز شریف صاحب کے سامنے جرأت کر کے بات کرتے رہے ہیں۔ اور نواز شریف صاحب کو ان کی یہ عادت پسند نہیں ہے۔ نواز شریف چوہدری نثار کو اس حد تک ناپسند کرتے ہیں کہ ایک دفعہ ایک سابق سینیٹر نے مجھے خود بتایا کہ اس نے گھر پر امریکی سفیر کو کھانے پر بلایا ہوا تھا اور نواز شریف کو بھی‘ جو اس وقت تک وزیر اعظم بن چکے تھے‘ دعوت دی۔ ان سے پوچھ لیا کہ آپ کچھ وزیروں کے نام بتا دیں جن کو بلا لوں۔ نواز شریف نے کچھ وزیروں کے نام اس سینیٹر کو دیے۔ سینیٹر حیران ہوا کہ اس میں چوہدری نثار کا نام شامل نہیں تھا۔ سینیٹر نے سوچا‘ شاید وزیر اعظم بھول گئے ہوں گے؛ چنانچہ پوچھا: چوہدری نثار کو بھی دعوت دے دوں، تو وزیر اعظم بولے کیوں اپنی شام خراب کرنی ہے۔ رہنے دیں۔
یہ اس وقت کی بات ہے جب چوہدری نثار کو ابھی وزیر داخلہ بنے کچھ ہی دن ہوئے تھے۔ میں ہکا بکا سینیٹر کی بات سنتا رہا۔ واقعی درست کہتے ہیں‘ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا، سب مفادات ہوتے ہیں جو آپ کو اکٹھا کرتے ہیں۔ یہ طے ہے کہ چوہدری نثار‘ نواز شریف کو نہیں چھوڑیں گے لیکن وہ اُن کے منہ پر بولنا بھی نہیں چھوڑیں گے۔ انہیں پتہ ہے نواز شریف صاحب نے انہیں پارٹی یا کابینہ میں کوئی اپنی خوشی سے نہیں رکھا ہوا۔ چوہدری نثار سے بہتر مقرر اور سیاسی طور پر سمجھدار ان کی پارٹی میں اور کوئی نہیں ہے‘ خصوصاً اپوزیشن کے دنوں میں چوہدری نثار کی بہت ضرورت پڑتی ہے۔ اس کے علاوہ وہ یہ افورڈ بھی نہیں کر سکتے کہ چوہدری نثار نواز لیگ کو چھوڑ جائیں اور ان کی سیاسی ذہانت کا فائدہ کوئی اور پارٹی اٹھائے۔
اب سازش کی بھی سن لیں۔ نواز لیگ کھل کر نام نہیں لے رہی لیکن ان کا اشارہ واضح طور پر پنڈی کی طرف ہے۔ اور پنڈی والے یقینا اس پر بہت ڈسٹرب ہیں کہ ان پر اس چیز کا الزام لگ رہا ہے جس میں وہ شریک نہیں تھے۔ رہی سہی کسر بھارت میں چھپنے والی خبر نے پوری کر دی ہے کہ نواز شریف اگر چلا گیا تو اس سے بھارت کو نقصان ہو گا۔
بہرحال سیاسی حکومت نے وہ سمجھداری نہیں دکھائی جس کی اس سے توقع تھی۔ گہرے سیاسی بادل چھا رہے ہیں اور اس سے بچنے کا بہتر حل یہ تھا کہ نواز شریف صاحب استعفیٰ دے دیتے اور اسمبلی کوئی نیا قائد چن لیتی۔ جمہوریت اسی طرح آگے چلتی ہے۔ کوئی ناگزیز نہیں ہوتا۔ بہرحال اتنی خبر دے سکتا ہوں کہ فوج اور سیاسی حکومت کے درمیان حالات دوبارہ اسی نہج پر جا کھڑے ہوئے ہیں‘ جو ڈان لیکس کے وقت‘ جنرل راحیل کی ریٹائرمنٹ سے پہلے تھے۔ دونوں اطراف سے وہ تکلف بھی ختم ہو گیا ہے جو کچھ دن پہلے تک نظر آرہا تھا۔ اس کے مظاہرے کچھ روز میں کھل کر نظر آئیں گے۔ اب دونوں اطراف سے کھل کر کام شروع ہو گیا ہے۔
دوسری طرف کرپشن کا آخری دفاع یہ رہ گیا ہے کہ پہلے مقامی سازش کو اس کا ذمہ دار قرار دیا جا رہا تھا اور اب جب سے دوبئی میں وزیر اعظم کی مارکیٹنگ منیجر کی نوکری کا اقامہ باہر نکلا ہے‘ اسے عالمی سازش کا نام دے دیا گیا ہے!
یا سازش تیری خیر… تیرا سہارا
لفظ ”سازش‘‘ ایجاد کرنے والے کو بعد از مرگ اکیس توپوں کی سلامی۔ یہ لفظ کہاںکہاں کام نہیں آتا۔ تعجب ہے کہ نالائق سے نالائق اور کرپٹ حکمران اپنی ذاتی غلطیوں کو اس لفظ کے پردے میں چھپا کر ایک لمحے میں بے قصور ہونے کا سرٹیفکیٹ لے لیتا ہے اور عوام کی نظروں میں مظلوم بن جاتا ہے۔ ویسے حیران ہوتا ہوں کہ اگر لفظ ”سازش‘‘ نہ ہوتا تو پتہ نہیں انسانی تاریخ کیسے لکھی جاتی۔
تھینک یو سازش!