منتخب کردہ کالم

’’پھٹیچر‘‘ اور ’’ریلو کٹّے‘‘… تو ہین آمیز تو نہیں؟ (جمہور نامہ) رئوف کلاسرا

خبطِ عظمت ‘ نرگسیت‘ خود پرستی کی حد کو پہنچی ہوئی خود پسندی… ہیروز میں سبھی تو نہیں ‘ البتہ بعض کسی حد تک اس عارضے سے دوچار ہو جاتے ہیں‘ لیکن ہمارے (ماضی کے) کرکٹ ہیرو میں یہ عارضہ شاید آخری حد کو پہنچ چکا ۔ ماہرین کے مطابق اس نفسیاتی عارضے کا مریض اس احساس کا شکار رہتا ہے کہ ساری دنیا اس کے لیے ہے اور وہ کسی کے لیے نہیں۔دوسرے اس سے پیار کریں‘ اس کا احترام کریں لیکن خود اس کے لیے کسی کا احترام ‘کسی سے پیار لازم نہیں۔
جاوید ہاشمی نے دھرنا بغاوت کے دوران‘ سازش کی بو پا کر‘ تحریک انصاف سے علیحدگی اختیار کی تو خان سے دیرینہ مراسم کے دعویدار‘ اس کے مزاج شناس اور تحریک کے واقفِ درون خانہ کا کہنا تھا‘ ہاشمی واحد لیڈر تھا‘ خان جس کا احترام کرتا لیکن اسے عزت راس نہیں آئی۔
تحریک انصاف کو الوداع کہتے ہوئے جسٹس (ر) وجیہہ الدین کا تبصرہ بھی دلچسپ تھا‘ میں خان سے تو پیار کرسکتا ہوں لیکن اس کے کتوں سے پیار نہیں کر سکتا۔
خان نے 2نومبر(2016) کو اسلام آباد لاک ڈائون کا اعلان کر رکھا تھا اس کی تیاریوں کے لیے 27اکتوبر کو اسلام آباد میں تحریک انصاف یوتھ ونگ کے اجلاس پر پولیس ”کریک ڈائون‘‘ کے خلاف خان نے جمعہ 28اکتوبر کو ملک گیر یوم احتجاج کا اعلان کیا۔ شیخ رشید کا کہنا تھا کہ کچھ بھی ہووہ نمازِ جمعہ کے بعد راولپنڈی کے کمیٹی چوک ضرورپہنچے گا‘ جہاں خان کی آمد کا بھی اعلان کیا گیا تھا۔ شیخ ایک موٹر سائیکل پر شہر کی اندرونی گلیوں سے ہوتا‘ کمیٹی چوک پہنچ گیا لیکن خان بنی گالا میں پُش اپس میں مصروف رہا ۔اخبار نویسوں کے سوال پر شیخ کے منہ سے نکل گیا‘ خان کو آج بھی پہنچنا چاہیے تھا‘ اور 13اگست کی شب بھی جلسے میں آنا چاہیے تھا۔ خان اُدھار رکھنے کا قائل نہیں‘ تُرت جواب دیا‘ لیڈر اپنے فیصلے خود کرتا ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ وہ لوگوں کے کہنے پر کبھی یہاںاور کبھی وہاں بھاگا پھرے۔خان نے شیخ کو اس کی اوقات بتا دی تھی۔
لاہور میں پی ایس ایل فائنل سے اگلے روز خان نے سپریم کورٹ رپورٹرز ایسوسی ایشن کو مدعو کر رکھا تھا۔ پاناما کیس پر عدالتی کارروائی سے بات پی ایس ایل فائنل تک پہنچ گئی۔ اس حوالے سے خان کا مؤقف دلچسپ رہا تھا۔21فروری کو اس کا خیر مقدم کرتے ہوئے خان کا کہنا تھا‘ بہتر ہوتا کہ پی ایس ایل کے سارے میچ پاکستان میں ہوتے تاہم لاہور میں فائنل کے انعقاد سے بھی پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ کے لیے دروازہ کھلے گا‘ دنیا میں پاکستان کے محفوظ اور پرامن ہونے کا تاثر جائے گا ۔(اس سے پہلے (13فروری کو ) لاہور کے چیئرنگ کراس میں اور تین روز بعد (16فروری کو) سیہون شریف میں لال شہباز قلندر کے مزار پر دہشت گردی کا بدترین واقعہ ہو چکا تھا)23فروری کو ڈیفنس لاہور میںایک اور دھماکے میں سات ‘ آٹھ افراد جاں بحق ہو گئے۔ اس صورت حال میں لاہور میں پی ایس ایل فائنل کا انعقاد‘ ریاستِ پاکستان کے لیے ایک بڑا چیلنج بن گیا تھا۔ یہ حکومتِ پاکستان‘ اس کے اداروں اور سب سے بڑھ کر اہلِ پاکستان کے عزم اور حوصلے کا امتحان تھااور خادمِ پنجاب کی انتظامی صلاحیتوں اور ان کی گورننس کی آزمائش بھی۔کہا جاتا ہے کہ خادم پنجاب اور ان کی انتظامی مشینری معاملے کے دونوں پہلوئوں پر غور کر رہی تھی۔ اس حوالے سے سر اٹھانے والے اندیشے کچھ ایسے بے بنیاد بھی نہ تھے۔ ایسے میں وزیر اعظم کے فیصلے نے حکومت پنجاب کو یکسو ہونے میں مدد دی۔ آرمی چیف نے بھی ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی کرا دی تھی۔ لیکن اب خان نے یو ٹرن لے لیا تھا اور لاہور میں فائنل کے انعقاد کو پاگل پن اور حماقت قرار دے رہا تھا۔ وہ دُور کی کوڑی لایا‘ شہر بھر میں کرفیو لگا کر اور 20ہزار تماشائیوں کے لیے 60ہزاراہل کاروں کو متعین کر کے دنیا میں کس پرامن اور محفوظ پاکستان کا تاثر دیا جائے گا؟
لیکن شہر میں کرفیو لگا‘ نہ 60ہزار اہل کار متعین کیے گئے۔ چار اور پانچ مارچ کی درمیانی شب لاہور میں‘ یوں لگتا تھا چاند رات ہو۔ قذافی سٹیڈیم کے گردو پیش‘ محدود سے علاقے میں حفاظتی اقدامات سے قطع نظر‘ جشن کا سماں تھا۔ ان میں خواتین اور بچے بھی تھے۔ فائنل کے روز صبح ہی صبح شائقین کی قطاریں لگ گئی تھیں جن کے لیے سٹیڈیم کے گیٹ‘ طے شدہ وقت سے ڈیڑھ دو گھنے پہلے ہی کھول دیے گئے۔ یہ جوش و خروش لاہور ہی میں نہیں‘ ملک بھر میں تھا۔ شہروں میں کھلے مقامات پربڑی اسکرینیں لگائی جا رہی تھیں ۔ سینما مالکان نے بڑی اسکرینوں پر میچ دکھانے کے لیے الگ سے انتظامات کر رکھے تھے ۔کوئٹہ کے اکبر بگٹی انٹرنیشنل سٹیڈیم میں بھی جذبوں کی یہی کیفیت تھی۔
ڈکٹیٹر یاد آیا‘ کس تکبر کے ساتھ اس نے اکبر بگٹی کو دھمکی دی تھی‘یہ 1970ء کی دہائی نہیں‘یہ 2006ء ہے اور پھر باقاعدہ ہاتھوں سے پوزیشن بنا کر کہا‘ وہاں سے ماروں گا کہ پتہ ہی نہیں چلے گا۔ بلوچ بزرگ لیڈر مار دیا گیا‘اور اب صوبے کا سب سے بڑا سٹیڈیم اس کے نام سے منسوب ہے۔ اس روز ٹی وی چینلز پر بار بار اکبر بگٹی انٹرنیشنل سٹیڈیم کا ذکر تھا لیکن خود ڈکٹیٹر ملک سے مفرور ہے‘ اپنے وطن کی سرزمین اس پر تنگ ہو چکی ‘ ؎
یہ کون بول رہا تھا خدا کے لہجے میں
یہ وقت کس کی رعونت پہ خاک ڈال گیا
5مارچ کو یہ اہلِ پاکستان کی طرف سے قومی یکجہتی کا ولولہ انگیز مظاہرہ تھا۔
سپریم کورٹ”کور‘‘ کرنے والے رپورٹروں سے بے تکلف گفتگو میں خان کا کہنا تھا ‘یہ” پھٹیچر‘‘ اور ”ریلو کٹے‘‘ تھے جنہیں افریقہ وغیرہ سے بلا لیا گیا۔پیسے کے لیے تو یہ کلب کی سطح کے میچوں کے لیے بھی آنے کو تیار ہوتے ہیں۔ لاہور فائنل کے حوالے سے خان دور کی کوڑی لایا۔ اس میں کیون پیٹرسن نہیں تھا۔ کرس گیل نہیں تھا۔ خان کو یاد نہ رہا کہ گیل کراچی کنگز میں تھا اور اس کی ٹیم نے فائنل کے لیے کوالی فائی نہیں کیا تھا۔ کوئٹہ گلیڈیٹر کا پیٹر سن لاہور آنے کو تیار تھا لیکن اس کی بیگم نے خود خان کے اس بیان کو دلیل بنایا کہ لاہور میں فائنل کا انعقاد‘ حماقت اور پاگل پن ہے۔ پیٹرسن اس پاگل پن کا حصہ کیوں بنتا؟ لیکن ڈیرن سیمی تو لاہور آیا اور پشاور زلمے میں اس کے ساتھ باقی غیر ملکی کھلاڑی بھی آئے ۔ سیمی ٹی ٹونٹی کے دو ورلڈ کپ جیتنے والا کپتان۔ اینکر پرسن کے پے درپے سوالات سے زچ ہو کر خان کا کہنا تھا ”پھٹیچر‘‘ اور ”ریلو کٹے‘‘ کوئی Derogatoryالفاظ تو نہیں۔ یاد آیا‘ اس نے 2013کے الیکشن میں عدلیہ کے کردار کو (پی ٹی آئی کے خلاف) شرمناک قرار دینا شروع کیا تو چیف جسٹس افتخار چودھری نے طلب کر لیا جہاں خان کا کہنا تھا ‘ عدلیہ سے مراد سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ نہیں بلکہ ریٹرننگ آفیسر تھے اور یہ کہ اسے شرمناک کے حقیقی مفہوم اور معنی کا بھی اندازہ نہ تھا۔
چار اور پانچ مارچ کی درمیانی شب لاہور میں‘ یوں لگتا تھا چاند رات ہو۔ قذافی سٹیڈیم کے گردو پیش‘ محدود سے علاقے میں حفاظتی اقدامات سے قطع نظر‘ جشن کا سماں تھا۔ ان میں خواتین اور بچے بھی تھے۔ فائنل کے روز صبح ہی صبح شائقین کی قطاریں لگ گئی تھیں جن کے لیے سٹیڈیم کے گیٹ‘ طے شدہ وقت سے ڈیڑھ دو گھنے پہلے ہی کھول دیے گئے۔ یہ جوش و خروش لاہور ہی میں نہیں‘ ملک بھر میں تھا۔