منتخب کردہ کالم

پھٹیچر سیاست سے آگے کی سوچ! (حرف ناز) نازیہ مصطفیٰ

دہشت گردی کے خلاف ایک دہائی سے زیادہ عرصہ سے جاری جنگ کے نتیجے میں پاکستان میں بہت خون بہہ چکا ہے۔ ایک جانب اگر پاکستانی سپاہ ہزاروں جانثاروں کی لاشیں اٹھاچکی ہے تو عام شہریوں کی شہادتوں کی تعداد بھی شمار میں نہیں۔ دوسرا فریق بھی یہی دعویٰ کرتا ہے کہ آپریشنوں میں مارے جانے والے عسکریت پسند ہوں یا ڈرون حملوں کا رزق بننے والے عام قبائلی ہوں، لاشوں اور قبروںکا شمار مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے۔ لیکن کیا ہلاکت خیزی کا یہ سلسلہ ہمیشہ یونہی چلتا رہے گا؟ کیا لاشیں اٹھانے والے کاندھیں ہمیشہ یونہی لاشیں ڈھوتے رہیں گے؟ اس کا یہی جواب ہے کہ ”نہیں، ہرگز نہیں‘‘۔ اِنہی کالموں میں پہلے بھی لکھا تھا کہ ”ہر جھگڑے ، ہر لڑائی اور ہر جنگ کو ایک روز ختم اور امن قائم ہونا ہوتا ہے، لیکن فی الحال یہ امن قائم ہوتا دکھائی نہیں دے رہا، لیکن اس امن کی تلاش میں سرگرداںعالم اسلام میں ایک نئی تاریخ ضرور لکھی جارہی ہے۔ ایک ایسی تاریخ جس کا ہر لفظ دکھ اور درد میں گندھا ہے۔ ایک ایسی تاریخ جس کا ہر جملہ غم و الم کا نیا پہلو لیے ہوئے ہے۔ ایک ایسی تاریخ جس کا ہر صفحہ معصوم انسانوں کے لہو سے لکھا گیا ہے۔ ایک ایسی تاریخ جس کا ہر باب ہزیمت کا باب ثابت ہورہا ہے۔ اِدھر کشمیر ی مسلمان بالخصوص گزشتہ سات دہائیوں سے اپنے بنیادی حق ” حق ِخودارادیت‘‘ کیلئے ترس رہے ہیں، لاکھوں کشمیری اس حق کیلئے اپنے جانیں قربان کرچکے ہیں، ہزاروں عصمتیں تار تار کی جاچکی ہیں اور لاتعداد نوجوان لاپتہ کیے جاچکے ہیں ،اِن میں سے بہت سوں کے لواحقین بھی برسوں سے اپنے پیاروں کا راستہ تکتے تکتے جان کی بازی ہار چکے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کا ہر گھر کسی نہ کسی شہید کا وارث ہے۔ اس بھارتی جبر کے بعد کئی کشمیری گھرانوں میں تو ماتم کرنے اور بین ڈالنے والا بھی کوئی باقی نہیں رہا اور اُدھر عراق پر جو بیتی اگرچہ وہ کوئی پہلی مرتبہ نہیں بیتی، لیکن اب کی بار تونام نہاد مہذب اقوام نے ظلم وستم میں وحشی منگولوں کو بھی مات دیدی۔ افغانستان میں چھیڑی جانے والی جنگ اب تک لاکھوں مسلمانوں کو نگل چکی ہے۔ یہ وہ جنگ ہے جس کا کوئی انجام بھی دکھائی نہیں دیتا۔مشرق وسطیٰ کے تیل اور دیگر قیمتی معدنیات کے ذخائر تک رسائی کیلئے بنائی جانے والی ”شاہراہ‘‘ اب تک لاکھوں بیگناہوں کے خون سے رنگی جاچکی ہے۔ کوسووو، بوسنیا، چیچنیا، سنکیانگ،برما اور لبنان کی ”خون رنگ‘‘ بھٹیوں میں جھونکے جانے والے بے گناہ مسلمانوں کی تعداد بھی لاکھوں سے کم نہیں ہے۔ فلسطین کی ہتھیلی تو جیسے صرف ظلم سہنے کی لکیروں سے بھری ہے۔ کبھی محاصرے، کبھی جنگ،کبھی جارحیت، کبھی خون آشام اسرائیلی درندوں کی بربریت پر مبنی وہ وحشیانہ کارروائیاں جنہیں دیکھ کر بھیڑیے بھی شرما جائیں اور کبھی نسل کشی کی مذموم سازشیں!!
دشمن تو دشمن تھے، انہوں نے تو مسلمانوں کے ساتھ جو کرنا تھا وہ اپنی ”صلاحیتیں ‘‘پوری طرح بروے کار لاتے ہوئے کیا، لیکن سوال یہ ہے کہ اسلام کا نام لینے والوں نے خود اپنے بھائی بندوں کے ساتھ کیا کیا؟ کیا اسلام کا نام لینے والوں سے اچھے اور بہتر کی توقع نہیں کی جانی چاہیے تھی؟ لیکن افسوس مسلمانوں نے اپنے ساتھ دشمن سے بھی زیادہ ظلم کیا۔ دنیا کے آفاقی پیغام کی اپنی اپنی تشریحات کیا مناسب ہیں اور معصوم افراد کی زندگی سے کھیلنا کہاں کا اسلام ہے؟جس اسلام میں دشمن کی خواتین، بوڑھوں، بچوں اور غیر جنگجوئوں پر ہاتھ نہ اٹھانے کا حکم ہو،کیا اُس مذہب کے ماننے والوں کو ایک دوسرے کے گلے کاٹنا زیب دیتاہے؟ وہ دین جس میں دورانِ جنگ باغات اور سبز کھلیان جلانے اور کنوئوں میں زہر ملانے کی ممانعت کی گئی ہو،جب اُس دین کے نام لیوا معاشرے کی رگوں میں”گولہ وبارود‘‘ کا زہر اتاریں گے تو اُنہیں کو ن مسلمان مانے گا؟ فرقہ واریت کا عفریت ہماری ایک نسل ہڑپ کرچکا اور دوسری نسل اس عفریت کی جبڑوںمیں پھنسی ہے۔وقت ملے تو کبھی سوچیں تو سہی کہ مشرق میں سنہرے خوشوں سے مزین کھلیانوں سے لے کر مغرب کے ٹھنڈے پانیوں تک اسلام کے نام لیواآزمائش سے کیوںدوچار ہیں؟ کبھی غور تو کریں کہ شمال کے ٹھٹھرتے موسموں سے لے کر جنوب کے تپادینے والے گنجان آباد شہروں اور قصبوں تک مسلمانوں کیلئے جگہ جگہ موت کے پھندے کیوںلگے ہیں؟کبھی جائزہ تو لیں کہ ہمالیہ کے برف زاروں سے لے کر غزہ کے سنگ ریزوں تک حریت پسند مسلمانوں کے خون کا بازار کیوں گرم ہے؟کبھی جاننے کی کوشش تو کریں کہ امریکہ کے صحراؤں سے لے کر آسٹریلیا کے نخلستانوںتک
کلمہ توحید پڑھنے والوں کیلئے مشکلات کی کھیتی کیوںاُگی ہوئی ہے؟کبھی سوچ بچار تو کریں کہ پاکستان کے سونا اگلتے کھیتوںسے لے کر جزیرہ نما عرب میں ”مائع سونا‘‘ کے چشموں تک کسی جگہ توحید کی امینوں کو امان کیوں میسر نہیں ہے؟ سوال تو یہ بھی ہے کہ یہ ہم نے کس کیلئے خود کو جنگوں کا رزق بناڈالا ہے؟یہ ہم کس کیلئے خون کے دریا بہائے جاتے ہیں ؟ یہ ہم کس کیلئے ایک دوسرے کے لہو کے پیاسے ہوئے جاتے ہیں؟ یہ ہم کس کیلئے زمین کو انسانی خون سے سیراب کرتے پھرتے ہیں؟ سوال تو یہ بھی ہے کہ یہ ہم کس کیلئے اُسی شاخ کو کاٹے جارہے ہیں جس پر ہمارا اپنا آشیانہ بنا ہوا ہے۔سوال تو یہ بھی ہے کہ انسانی گوشت کابیوپار آخرکب رکے گا اور اس کو کون روکے گا؟ اور سوال تو یہ بھی ہے کہ آخر ہم سے کب تک لہو کا خراج مانگا جاتا رہے گا؟ آخرکب تک ہمارے بچے یتیم، عورتیں بیوہ اوربوڑھے بے سہارہ ہوتے رہیں گے؟ آخر اس دھرتی کی مانگ خون کی بجائے ستاروں سے کب بھری جائے گی ؟
قارئین کرام!! دنیا میں قیام امن کی خواہش کی کلی ہر شاخ ِدل پر نمودار تو ہوتی ہے لیکن اس دنیاکے 95 فیصد وسائل ہڑپ کرجانے والے چند لاکھ لوگوں کی ہوس اس کلی کو پھول نہیں بننے دیتی اور یہی خالق کائنات کے تخلیق کردہ اس عظیم گلشن کا اصل المیہ ہے لیکن اس المیے پر قابا پانا بھی کچھ مشکل نہیں ہے کیونکہ اس کا سبق بھی ہمیں تاریخ سے مل جاتا ہے۔ دوسری عالمی جنگ میں کروڑوں لوگ خاک و خون کا رزق بن چکے تو امن کی جانب پہلا قدم بڑھاتے ہوئے برطانوی وزیراعظم سرونسٹن چرچل نے کہا تھا کہ ”میں تاریخ لکھنا چاہتا ہوں، اس لیے یقینا تاریخ مجھے معاف کردے گی‘‘۔ ہم بھی اگر اس پھٹیچر سیاست سے باہر نکل کر صرف اور صرف ملک و قوم کے لیے سوچیں گے تو ناصرف تاریخ لکھ پائیں گے، بلکہ تاریخ ہمیں معاف بھی کردے گی!ہے کوئی جو اس پھٹیچر ماحول پر چار حرف بھیج کر پاکستان اور پاکستانیوں کے بارے میں سوچے؟ ہے کوئی جو اِس پھٹیچر سیاست سے آگے کی سوچ رکھتا ہو؟