پہلا کالم….عباس مہکری
صحافت کرتے 36سال ہوگئے، اس دوران بہت سے عروج وزوال دیکھے بہت سے واقعات کا چشم دید گواہ ہوں، اس شہر کی رونقیں بھی دیکھی ہیں اور دکھ بھی، صحافت اور سیاست کا عروج بھی دیکھا اور زوال بھی، آج صحافت اور سیاست دونوں بظاہر آزاد نظر آتی ہیں مگرقریب سے دیکھا تو دونوں ہی پابندی کاشکاردکھائی دیتی ہیں۔
کالم لکھنا آسان نہیں خاص طور پراگر آپ کو الفاظ کی حرمت کا پتا ہو، میرا جنگ سے تعلق بطور صحافی پرانا نہیں جتنا پرانا بطور قاری رہا، تجزیئے لکھنا بھی چند سالوں سے شروع کیا مگر آرٹیکل کی تعداد تقریباً پانچ ہزار کے لگ بھگ پہنچ چکی ہے، بہت سے دوستوں نے کتاب لکھنے کامشورہ دیا مگر مجھ میں محمود شام، سہیل وڑائچ یا حسن نثار جیسی گرفت نہیں، میں ہمیشہ سے خبر کا آدمی رہا ہوں مگر کوشش رہی کہ خود خبر نہ بنوں۔
صحافت کا آغاز 1981ء میں کیا جب ملک میں سخت ترین سنسر لگا ہوا تھا، اخبار پرنٹ ہونے سے پہلے حکومت کے شعبہ اطلاعات کے دفتر جاتا تھا جہاں موجود غیر صحافی افسران فیصلہ کرتے تھے کہ کون سی خبر جاسکتی ہے اور کون سی نہیں، آخر میں اخبار پیوند لگے ہوئے کپڑے کی مانند مارکیٹ میں آتا تھا بعد میں اس کی بھی پیوند کاری کردی گئی کیونکہ جان گئے تھے کہ کچھ گڑ بڑ ہے۔
یہ سب پاکستان کی تاریخ کا حصہ ہے مگر آپ کو تدریسی کتابوں میں’’ سب اچھا ہے‘‘ ،ہی ملے گا۔ آج بھی ہمیں یہی فکر ہے کہ لوگوں کو یہ تاریخی حقیقتیں پتا نہ چل سکیں، لہٰذا فکرا چھی تعلیم دینے کی نہیں بلکہ اس چیز کی فکر ہے کہیں صوبائی حکومتیں جمہوری جدوجہد کو نصاب کا حصہ نہ بنالیں، قیام پاکستان کے بعد کی تاریخ حکمرانوں نے مطلب کی لکھوالی جس میں جمہوری جدوجہد کرنے والوں کا ذکر نہیں ملے گا۔ جوش، فیض، فراز اور جالب کی شاعری تو شاید مل جائے مگر ان کے ساتھ حکمرانوں نے کیا کیا تاریخ کی کتابوں سے ہمیشہ غائب رکھا گیا، کیونکہ ہماری تاریخ لکھنے والوں کی بڑی تعداد درباریوں کی رہی، لہٰذا تاریخ میں دربار کا ذکر زیادہ نظر آتا ہے ۔
لہٰذا جب صحافت میں قدم رکھا اور سنسر شپ سے صحافت کا آغاز کیا تو سیلف سنسر شپ بھی آگئی، بات کس طرح کہنی ہے کہ پکڑ میں بھی نہ آئیں، اور بات عوام تک پہنچ بھی جائے، آہستہ آہستہ سیکھ لی، جلد ہی اندازہ ہوگیا کہ انگریزی میں پکڑ مشکل ہے کیونکہ سنسر کرنے والے افسرکے لئے قابل ہونا شرط نہیں تھی بس اس کو یہ پتا تھا کہ لفظ مارشل لا نہ جائے چاہے وہ مضمون مارشل لا کے حق میں ہی کیوں نہ لکھا گیا ہو، اکثر دوسرے ممالک میں آمریت کے خلاف چلنے والی جدوجہد کی خبریں بھی سنسر کا شکار ہوئیں۔
ان پابندیوں نے لکھنے پر مجبور کردیا اور صحافت کا اصل مزہ ہی تب آیا جب شام کے اخبار میں کام کرنے کا موقع ملا، جس سے فائدہ یہ ہوا کہ آرٹیکل لکھنے کاوقت مل گیا۔
میرا ذاتی خیال ہے کہ اچھے صحافی کے لئے سیاست پر گہری نظریا کم ازکم اسے سمجھنا بہت ضروری ہے، مگرہمارے بعض دوستوں نے ایسا سمجھا کہ وہ خود سیاست دان بن گئے۔ میں ہمیشہ سے اس چیز کے خلاف رہا کہ صحافت کو سیاست کی سیڑھی کے طورپر استعمال کیا جائے، جس دن میں نے اپنے الفاظ کا سودا کرلیا اس دن میں نے اپنی صحافت کو دفن کردیا۔
جس کو بھی شیخ وشاہ نے حکم خدا دیا قرار
ہم نے نہیں کیا وہ کام ہاں بہ خدا نہیں کیا
جمہوری دور بھی دیکھے اورغیر جمہوری دور بھی، غالباً میں آٹھویں جماعت میں تھا جب سانحہ مشرقی پاکستان ہوا، سب اچھا کہاگیا، لکھا گیا مگرحقیقت کچھ اور تھی،ہمارا المیہ یہ رہا ہے کہ ہم تاریخ کا صرف وہ رخ اپنے عوام کو دکھاتےاور بتاتےہیں جس میں اپنی غلطی نہ ہو، اس وقت کےاخبارات پر نظر ڈالیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ ہم نے اپنے لوگوں سے کتنا جھوٹ بولا ہے۔ 1971ء کی بنیاد بہت پہلے رکھ دی گئی تھی مگرون یونٹ اور پھر فاطمہ جناح کی صدارتی الیکشن میں زبردستی شکست نے سیاست کا نقشہ بدل دیا، بی بی سی سے پتا چلا کہ ملک ٹوٹ گیا ہے۔
صحافت میں آنے سے پہلےہی ساری تاریخ پر نظر ڈال چکا تھا آج بھی سوچتا ہوں کہ کاش 1970ء میں اقتدار جمہوری انداز میں منتقل ہوجاتا تو اکثریت مطمئن ہوجاتی مگر ہم تو کسی اور جانب نکل گئے۔
بھٹوصاحب کا دور آیا اور پہلی بار ’’نیا پاکستان‘‘ کا نعرہ سنا،کاش بھٹو صاحب جومیرے خیال میں پاکستان کے اب تک کے سب سے ذہین اور مقبول سیاست دان گزرے ہیں بنیادی غلطی کرگئے اور وہ تھی اپنے قریب ترین اور وفادار ساتھیوں کا ساتھ چھوڑنے کی،جس کا اندازہ انہیں 1977ء میں ہوا، آزادی اظہار ،عدلیہ کے حوالے سے کچھ سخت قوانین اورتنقید برداشت نہ کرناان کے زوال کاباعث بنا مگر تاریخ بھٹو کو آئین کے خالق، ایٹمی پروگرام کے خالق اور پاکستان کی واحد غیر جانبدارانہ خارجہ پالیسی کے حوالے سے بھی یاد رکھے گی پھر
جس دھج سے کوئی مقتل کوگیا وہ شان سلامت رہتی ہے
صحافت میں قدم رکھا تو بھٹو کو پھانسی ہوچکی تھی، بھٹو اپنی تمام تر غلطیوں کےباوجود 1977ء کامارشل لا لگنے کے بعد پہلے سےزیادہ مقبول ہوگیا، شاید یہی وجہ تھی کہ 18اکتوبر 77ء کے الیکشن ملتوی کردیئے گئے، آج یہ جان کر اور بھی دکھ ہوتا ہے کہ ان انتخابات کو ملتوی کروانے میں کچھ نامور صحافیوں کا بھی ہاتھ تھا، یہ بات کسی اور نے نہیں انہی میں سے ایک انتہائی قابل احترام مدیر نے بتائی، اس سے یہ بھی اندازہ ہوا کہ رائے عامہ ہموار کرنے کی خاطر جمہوری اقدار کا سودا کیسے کیا جاتا رہا ہے۔ بہر حال عملی صحافت میں آنے کے بعد اندازہ ہوا کہ ہم نے لوگوں کو پورا سچ کبھی نہیں بتایا، اس دوران میں نے کراچی میں قتل و غارت گری سے لے کر سیاست دانوں کے قتل اور جمہوری جدوجہد کو قریب سے دیکھا یہ وہ دور بھی تھا جب خود صحافیوں نے آزادی اظہار کی خاطر قیدوبند اور کوڑے تک کھائے، مگریہ سب ہمارے نصاب کا حصہ نہیں، ہمیں تو یہ پڑھایا جاتاہے کہ سیاست، جمہوریت سب ڈھونگ ہے، یہ بھی جمہوریت کا حسن ہے کہ آپ کو جمہوریت کو برا کہنے کا حق حاصل ہے، آمریت میں آمریت کو برا کہنے پر جیل مگر جمہوریت میں جمہوریت کو برا کہنے پرا قتدار مل سکتا ہے۔
اگر میرے کالم! اس قابل ہوئے کہ میںکچھ جگہ بنانے میںکامیاب ہوگیا تو میں ضرور ان واقعات کولکھو ں گا، جو میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھے ہیں، کچھ یادگار ملاقاتیں، انٹرویو، چونکہ حیدرآباد اور کراچی کے درمیان ہی بچپن اور جوانی گزری اور سندھ کی سیاست کو قریب سے جاننے کاموقع ملا تو یہ بھی میرے کالم کاموضوع رہیں گے۔ تنقید سے ہمیشہ تعمیر کا پہلو نکالنے کی کوشش کرتاہوں، لہٰذا اگر دوستوں کی رہنمائی حاصل ہوتی رہی تو مجھے خوشی ہو گی۔
ہم نے صحافت اور سیاست میں لمبا سفر طے کیا، قربانی دی تو کچھ جمہوری آزادی نصیب ہوئی، سیاست دانوں کو سیاست اورصحافیوں کو صحافت اب بھی سیکھنے کی ضرورت ہے مگر خدارا ہم کوسیکھنے دیں، نہ بتائیں کہ سیاست کیا ہوتی ہے اور صحافت کیا، بہتر ہے جو جس کا کام ہے وہی کرے کیونکہ اب غلطی کی گنجائش نہیں۔ ہم 71سالوں میں ایک دوسرے کا کام کرتے کرتے اپنا ہی کام بھول گئےہیں۔