وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ نے سرینگر اور پاکستان میں تقریباً 300 افراد سے ملاقاتیں کیں اور کشمیر پر بات کرنے کی پیشکش کی۔ یہ دونوں اقدامات باعث ستائش ہیں لیکن یہ دو سے تین سال دیر سے کیے گئے ہیں۔ اُس وقت کشمیری بھی اپنے مسئلے کا مذاکرات کے ذریعے حل چاہتے تھے۔ یٰسین ملک اور شبیر شاہ جیسے لیڈروں نے بھی سرینگر اور نئی دہلی میں بند کمرے میں ہونے والی بات چیت میں حصہ لیا۔
جب ریاست کے بھارت کے ساتھ الحاق کا فیصلہ ہوا تھا تو تین محکموں دفاع‘ امور خارجہ اور مواصلات کے سوال باقی تمام محکمے کشمیر کو دینے کا وعدہ کیا گیا تھا لیکن گورنر جگ موہن ضرورت سے زیادہ پر جوش تھے اور ان کے بعد آنیوالے این این وہرہ بھی اپنے اختیارات کو بہت پھیلانے کے مشتاق تھے۔ انھوں نے اس بات کا کوئی خیال نہیں رکھا کہ ریاست نے اپنے الحاق پر صرف تین وزارتیں مرکز کے سپرد کی ہیں۔ کشمیری لیڈر مرکز کے تجاوز پر بہت ناخوش تھے لیکن وہ کچھ نہیں کر سکتے تھے۔
آج کی نئی نسل اپنے بزرگوں کی نسبت بہت آگے نکل چکی ہے۔ اب وہ مکمل آزادی چاہتے ہیں جس میں انھیں خارجہ پالیسی کی تشکیل کا اختیار بھی حاصل ہو۔ وہ جس قسم کی خود مختاری چاہتے ہیں وہ ویسی ہی ہے جیسے دنیا کے دیگر آزاد ممالک کو حاصل ہے۔ کشمیریوں کے نمایندوں نے گزشتہ ماہ مجھے سری نگر میں مدعو کیا تھا۔ میں نے دیکھا کہ وہ خاصے مشتعل تھے لیکن اپنے مطالبے کے بارے میں بہت واضح تھے۔ ان کو بنیاد پرست یا بھارت مخالف کہنا بجا نہیں۔ یہ درست ہے کہ وہ سری نگر کو بھی واشنگٹن اور لندن کی طرح آزادانہ طور پر اسلام آباد کے ساتھ تعلق رکھنے کے حق میں ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ ان کی خارجہ پالیسی کا فیصلہ ریاستی اسمبلی کے منتخب اراکین کریں گے نہ کہ انھیں نئی دہلی یا اسلام آباد سے ڈکٹیشن دی جائے۔
میں نے انھیں کہا کہ ان کا مطالبہ قابل فہم ہے لیکن بھارت اپنی سرحدوں کے اندر ایک اور اسلامی ملک کی تشکیل کس طرح برداشت کر سکتا ہے جب کہ اس کو قیام پاکستان کا پہلے ہی خاصا تلخ تجربہ ہو چکا ہے۔ جب میں نے یہ کہا کہ بھارتی لوک سبھا میں وزیراعظم نریندر مودی کو اکثریت حاصل ہے اور وہ آپکا مطالبہ بھلا کیسے تسلیم کر سکتے ہیں تو انھوں نے اپنے کندھے اچکاتے ہوئے کہا کہ یہ تمہارا مسئلہ ہے، ہمارا نہیں۔ جہاں تک خود مختاری کی حدود کا تعلق ہے تو اس بات پر بحث ہو سکتی ہے۔ لیکن وہ الحاق پر کسی صورت آمادہ نہیں۔
وہ نوجوان جو سری نگر میں سیکیورٹی فورسز پر پتھراؤ کرتے ہیں ممکن ہے کہ ان کو گمراہ کر دیا گیا ہو لیکن وہ آزادی کی امنگوں کا اپنے انداز سے اظہار کرتے ہیں۔ وہ یٰسین ملک اور شبیر شاہ کی پالیسی سے بہت آگے نکل چکے ہیں۔ وہ بھارت کے ساتھ کسی صورت بھی الحاق پر آمادہ نہیں اور نہ ہی پاکستان کے ساتھ الحاق چاہتے ہیں حالانکہ بعض انتہا پسند عناصر یقیناً یہ چاہتے ہونگے۔ میرا خیال ہے کہ چند سال پہلے تک یہ معاملہ سری نگر اور نئی دہلی کی حکومتوں کے مابین طے کیا جا سکتا تھا لیکن آج کشمیری چاہتے ہیں کہ ریاست کے مستقبل کے بارے میں کیے جانے والے کسی بھی فیصلے میں ان کو لازماً شامل کیا جائے۔ اقوام متحدہ نے کشمیر میں استصواب رائے کی قرار داد منظور کی تھی جب کہ بعدازاں مسز اندرا گاندھی اور پاکستان کے ذوالفقار علی بھٹو کے درمیان شملہ معاہدہ عمل میں آیا تھا مگر اب یہ دونوں اپنا اثر کھو چکے ہیں۔
آج صورتحال بہت مختلف ہو چکی ہے۔ یہ افسوس کی بات کا کہ نہ بھارت کو اور نہ ہی پاکستان کو اس کا خیال ہے، یا کم از کم دونوں طرف سے اسی تاثر کا اظہار کیا جاتا ہے۔ اب یہ ایک تکون بن گئی ہے لہٰذا کسی سمجھوتے پر پہنچنے کے لیے اس کے تینوں پہلوؤں تک رسائی حاصل کرنا پڑے گی۔ اگر بھارت کی طرف سے کوئی اور وفد سری نگر بھیجا جائے تو وہ بے سود ہو گا کیونکہ کشمیری محسوس کرتے ہیں کہ ان کے ساتھ پہلے جو وعدے کیے گئے ہیں وہ پورے نہیں ہوئے۔
کشمیر کے سابق وزیراعلیٰ عمر فاروق عبداللہ کا، جو اب نیشنل کانفرنس کی قیادت کرتے ہیں یہ کہنا درست ہے کہ سری نگر میں بھارت کی طرف سے اگر مزید وفود بھیجے جاتے ہیں تو ان کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا کیونکہ قبل ازیں آنے والے وفود کے فیصلے وزارت داخلہ کی راہداریوں میں گرد اڑا رہے ہیں۔ نئی دہلی حکومت اگر کوئی قدم اٹھانا چاہتی ہے تو اسے اسی نکتہ سے شروع کرنا ہو گا جہاں تک وہ پہلے پہنچ چکی ہے۔
اصل میں یہ شیخ عبداللہ کا مطالبہ تھا جنھیں 12 سال تک قید کی سزا بھگتنا پڑی۔ وہ چاہتے تھے کہ نئی دہلی کی حکومت اس بات کو تسلیم کرے کہ کشمیر کا الحاق اسی شرط پر ہوا تھا کہ متذکرہ تین محکمے بھارت کے پاس رہیں گے لہٰذا بھارت کو اس بات کا کوئی حق نہیں کہ وہ دفاع‘ خارجہ اور مواصلات کے علاوہ کوئی اور محکمہ کشمیر کی مرضی کے بغیر اپنے پاس رکھنے کی کوشش کرے۔ شاید اس وقت سے دریائے جہلم میں بہت سا پانی بہہ چکا ہے لیکن اب بھی معاملات کو درست کیا جا سکتا ہے بشرطیکہ بھارت وہ اپنے تمام قوانین واپس لے لے جو اس نے ہٹ دھرمی سے کشمیر پر لاگو کر رکھے ہیں۔ کشمیر کے نوجوان گو کہ اس پر بھی خوش نہیں ہونگے البتہ حالات کو سازگار بنایا جا سکتا ہے۔
سری نگر میں میری کشمیری طلباء سے بھی بات چیت ہوئی ہے اور میں نے انھیں بتایا ہے کہ ان کی مکمل آزادی کا مطالبہ تسلیم کیا جانا ممکن نہیں۔ بھارت کو پہلے ہی پاکستان کی آزادی کا بہت قلق ہے اور اگر کشمیر کو مکمل آزادی دی جائے تو اس سے بھارت کے مصائب اور مشکلات میں اضافہ ہو جائے گا۔ میں نے انھیں یہ بھی بتایا کہ چونکہ ان کی ریاست چاروں طرف سے خشکی سے گھری ہے لہٰذا انھیں اپنے کاروبار کی خاطر بھارت یا پاکستان میں سے کسی ایک پر انحصار کرنا ہو گا۔ جواب میں انھوں نے کہا کہ وہ سوئٹزرلینڈ کی طرح ایک سیاحتی علاقہ بن جائیں گے جہاں ساری دنیا کے سیاح آ سکیں گے اور یہی ان کی آمدنی کا بڑا ذریعہ ہو گا۔ انھیں فوج رکھنے کی کوئی ضرورت نہیں ہو گی کیونکہ زیادہ خرچہ فوج پر ہی ہوتا ہے۔ وہ اپنے مال کے لیے مارکیٹ تلاش کر لیں گے لیکن موجودہ صورت حال انھیں ہر گز قبول نہیں ہے۔
نئی دہلی کشمیر کے مستقبل کے بارے میں بات کرنے سے پہلے دہشت گردی پر بات کرنا چاہتا ہے۔ پاکستان نے مذاکرات پر آمادگی ظاہر کی ہے جس میں آگے چل کر کشمیر کا مسئلہ بھی شامل کیا جا سکتا ہے۔ پاک فوج کو بھی دونوں ممالک کے مابین حالات معمول پر لانے کے لیے کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔ اس سے دونوں پڑوسیوں کا فائدہ ہو گا لہٰذا بھارت کو پاکستان کے ساتھ مذاکرات سے پہلے کشمیر کا مسئلہ حل کرنا چاہیے جس کے لیے اسے شیخ عبداللہ اور جواہر لعل نہرو کے مابین ہونے والے سمجھوتے پر عمل درآمد کرنا ہو گا اور کشمیر پر لاگو تمام قوانین واپس لینا ہونگے۔