منتخب کردہ کالم

’’پیغامِ پاکستان‘‘ اور ’’ردّ الفساد‘‘…رئوف طاہر

’’پیغامِ پاکستان‘‘ اور ’’ردّ الفساد‘‘

’’پیغامِ پاکستان‘‘ اور ’’ردّ الفساد‘‘…رئوف طاہر

بنیادی طور پر یہ دہشتگردی کیخلاف تمام مذہبی مکاتبِ فکر کے مدارس کی تنظیموں پر مشتمل ”وفاق ہائے دینی مدارس‘‘ کا فتویٰ تھا جس کا اہتمام گزشتہ سال نومبر میں ہوا۔ پھر اس سال 11 جنوری کو ایوانِ صدر میں منعقدہ ایک عظیم الشان تقریب میں ”پیغامِ پاکستان‘‘ کے عنوان سے یہ قومی بیانیہ قرار پایا جس پر ملک بھر کے 1829 جید علما اور ممتاز دانشوروں کے دستخط ہیں۔ مملکت کی بنیادی دستاویز کی حیثیت سے آئینِ پاکستان اس بائیس نکاتی بیانئے کا نکتۂ اول ہے۔ دیگر اہم نکات کے مطابق مسلح جہاد (قتال) کا اعلان صرف ریاست کا حق ہے۔ ”تکفیر‘‘ کا اختیار بھی صرف عدالت کو حاصل ہے اور اس عزم کا اظہار بھی کہ پاکستان کی سرزمین کو کسی بھی قسم کی دہشتگردی کیلئے استعمال نہیں ہونے دیا جائیگا۔ اس فتوے میں خود کش حملوں کو بھی شرعاً حرام قرار دیا گیا ہے۔
برادرم خورشید ندیم بھی کمال آدمی ہیں، وہ اس حیاتِ مستعار کو قدرت کا ایسا احسانِ عظیم اور ایسی نعمتِ عظمیٰ سمجھتے ہیں جس کے ایک لمحے کا ضیاع بھی ان کے نزدیک کفرانِ نعمت ہے۔ جامِ زندگی دُردِ تہ جام تک پینا شاید اسی کو کہتے ہیں۔ وہ جو شاعر نے کہا تھا ؎
عشق وہ کارِ مسلسل ہے کہ ہم اپنے لئے
ایک لحظہ بھی پس انداز نہیں کر سکتے
وہ ”دنیا‘‘ میں ہفتے میں تین کالم لکھتے ہیں۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن کی حیثیت سے تحقیقی سرگرمیاں الگ ہیں۔ ایک ٹی وی چینل پر علمی قسم کا پروگرام بھی کرتے ہیں۔ ”آرگنائزیشن فار ریسرچ اینڈ ایجوکیشن‘‘ کے نام سے ایک ادارہ بھی چلاتے ہیں اور اس سب کچھ کے ساتھ مختلف تقریبات میں شرکت بھی۔ اس جمعہ کو لاہور آئے تو مقامی ہوٹل میں شہر کے دو اڑھائی درجن اہلِ فکر و نظر کے ساتھ ایک نشست کا اہتمام کیا۔ اس ناچیز کے سوا سبھی جینوئن سکالر تھے۔ نام لکھوں تو بہت سی جگہ یہی فہرست لے جائے گی۔ صرف اتنا کافی ہے کہ کرسی ٔ صدارت پر شامی صاحب تھے۔ ”پیغامِ پاکستان کے بعد‘‘؟ اس نشست کا عنوان تھا اور مقصد اہل دانش (خصوصاً الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا والوں) کو اس حوالے سے ان کی ذمہ داری کا احساس دلانا تھا۔ خورشید ندیم کو گلہ تھا کہ میڈیا میں اس ”قومی بیانئے‘‘ کو وہ اہمیت نہیں دی گئی جو اس کا حق تھا۔ یہ پہلے روز ٹی وی چینلز پر دوسرے، تیسرے نمبر کی نیوز بنی۔ اگلے روز اخبارات کے پہلے صفحے پر دو تین کالمی سرخی اور پھر طاقِ نسیاں ہوگئی۔ خورشید ندیم اس نشست کی غرض و غایت بیان کر چکے تو شرکاء کے اظہارِ خیال کا سلسلہ شروع ہوا۔ خود کش حملوں کے حرام ہونے کی بات ہوئی تو گزشتہ دنوں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی طویل آف دی ریکارڈ گفتگو سے فیض یاب ہونے والے ایک دوست نے جناب جنرل ہی کی زبانی دلچسپ کہانی سنائی۔ وہ علما ء کی ایک نشست تھی، جنرل صاحب خود کش حملوں کیخلاف گفتگو کر چکے تو حاضرین میں سے بعض نے کہا، 1965ء کی جنگ میں دشمن کے ٹینکوں کو روکنے کیلئے ہمارے نوجوان سینوں پر بم باندھ کر لیٹ گئے تھے۔ کیا وہ خودکش کارروائی نہ تھی؟ جنرل صاحب کا سوال تھا‘ یہ آپ کو کس نے بتایا؟… ”ہم یہ کہانیاں طویل عرصہ تک پڑھتے بھی رہے، سنتے بھی رہے اور سناتے بھی رہے‘‘ … لیکن جنرل صاحب نے اس پروپیگنڈے کو ”اون‘‘ نہ کیا۔ تاثر یہ تھا کہ یہ زیادہ تر قصے کہانیاں ہی تھیں۔
ہم ان دنوں گیارہ، بارہ سال کے تھے، ہمیں یاد ہے‘ جنگ کے بعد سبز چوغوں والے بزرگوں کے قصے بھی عام ہوئے تھے۔ ان میں سے بعض دریائے راوی کے پُل پر تھے جو دشمن کے جہازوں سے گرائے جانے والے بموں کو دبوچتے اور دریا میں ڈال دیتے۔
ماضی کی ”جہادی تنظیموں‘‘ کے قومی سیاست میں حصہ لینے کی بات ہوئی تو بعض دوستوں کا نکتہ تھا‘ اگر بلوچ عسکریت پسندوں کیلئے صلائے عام ہے کہ وہ واپس آئیں اور قومی دھارے میں شامل ہو جائیں تو ”جہادی تنظیموں‘‘ کے سیاسی جماعتیں بننے پر اعتراض کیوں ؟ نکتہ معقول تھا، خود ہم بھی اسکے حامی اور وکیل رہے ہیں۔ مثلاً ایک دور کی سپاہ صحابہ جو پڑوسی ملک میں انقلاب کے بعد انقلابی قیادت کی طرف سے دوسرے ملکوں میں ”انقلاب‘‘ برآمد کرنے کی پالیسی کے رد عمل میں وجود میں آئی اور عمل اور رد عمل کا سلسلہ پھیلتا چلا گیا۔ طرفین کے بہت سے لوگ مارے گئے، پھر عقل سلیم بروئے کار آئی اور قیادت ہوش کے ناخن لینے لگی تو انتہا پسند لشکر جھنگوی بنا کر الگ ہو گئے۔ ان میں سے بیشتر وزیرستان جا کر ”پاکستانی طالبان‘‘ کا حصہ بن گئے اور باقی ماندہ ” سپاہ صحابہ‘‘ مولانا لدھیانوی کی زیر قیادت ”اہلسنت والجماعت ‘‘ کے نام سے قومی دھارے میں آگئی۔ یہ دفاعِ پاکستان کونسل میں جنرل حمید گل کے پہلو میں اور انتخابی سیاست میں (جھنگ میں بطور خاص) مسلم لیگ ن کی حلیف بن گئی۔ اس میں رانا ثناء اللہ کی کاوش بھی کم نہ تھی۔
اب لشکر طیبہ اور جماعت الدعوۃ والے حافظ سعید بھی ملّی مسلم لیگ کے نام سے سیاست کرنا چاہتے ہیں تو اس کا خیر مقدم کیا جانا چاہئے لیکن اس میں معاملہ ”ٹائمنگ‘‘ اور ”منصوبہ سازوں کی حکمتِ عملی‘‘ کا بھی ہے۔ ہمارے برادر عزیز سلمان غنی خود حافظ سعید صاحب کے حوالے سے یہ کہانی دنیا نیوز سمیت مختلف ٹی وی چینلز پر بیان کر چکے (اور اپنے تجزیوں میں لکھ بھی چکے ہیں) کہ 2013ء کے الیکشن سے قبل جنرل پاشا نے حافظ صاحب سے رابطہ کیا اور انہیں الیکشن میں حصہ لینے کا ”مشورہ‘‘ دیا۔ حافظ صاحب نے یہ کہہ کر معذرت کرلی کہ ان کے خیال میں اس سے نواز شریف کے ووٹ ٹوٹیں گے اور عمران خان کو فائدہ ہوگا۔ نواز شریف‘ حافظ صاحب کا آئیڈیل تو نہیں تھے لیکن وہ انہیں عمران خان سے کہیں بہتر سمجھتے تھے۔
اب حافظ صاحب کی ملّی مسلم لیگ اس وقت منظر عام پر آئی جب نواز شریف کی نا اہلی کے بعد حلقہ 120 میں ضمنی انتخاب ہو رہا تھا۔ انتخابی سیاست میں یہ ملّی مسلم لیگ کی پہلی انٹری تھی۔ معزول وزیر اعظم کے حلقے سے اس کے امیدوار کی کامیابی، بعض طاقتوروں کو کسی صورت قبول نہ تھی۔ اس کیلئے جو حکمت عملی تیار کی گئی اور جو تجزیے کئے گئے ان میں ایک نکتہ یہ بھی تھا کہ مسلم لیگ ن کے روایتی مذہبی ووٹر میں سے کم و بیش اتنے ووٹ فلاں مذہبی جماعت اور اتنے ووٹ فلاں مذہبی جماعت توڑ لے گی۔ اور یہ دونوں نوزائیدہ مذہبی جماعتیں تقریباً 13 ہزار ووٹ لے گئیں، تجزیہ کاروں کے مطابق یہ مسلم لیگ ن ہی کے ووٹر تھے۔ اور دلچسپ بات یہ کہ دونوں کا انتخابی بیانیہ ایسی تقاریر اور ایسا لٹریچر تھا‘ نیشنل ایکشن پلان میں جسے ”نفرت آمیز مواد‘‘ میں شمار کیا گیا تھا۔ الیکشن کے بعد ایک پٹیشن کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے جسٹس (اب ریٹائرڈ)دوست محمد خاں کے ریمارکس تھے ، کالعدم جماعتوں کو الیکشن لڑنے کیلئے چھتری کس نے مہیا کی؟
سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف ”ضربِ عضب‘‘ کے ”بانی‘‘ تھے۔ موجودہ آرمی چیف جنرل قمر باجوہ نے دہشتگردی کیخلاف جنگ کو ”رد الفساد‘‘ کا نام دیا۔ ”فساد‘‘ (اور ”ظلم‘‘) کا ایک مطلب یہ ہے کہ چیز یں اپنی اپنی جگہ پر نہ ہوں۔ یہی بات اداروں پر بھی صادق آتی ہے، آئین نے جن کے دائرہ کار متعین کر دیئے ہیں۔ ”رد الفساد‘‘ کا بنیادی تقاضا یہ بھی ہے کہ ادارے اپنی اپنی آئینی حدود میں بروئے کار رہیں، وہ حدود جن کا تعین آئین میں کر دیا گیاہے۔ آئین‘ جسے ”پیغامِ پاکستان‘‘ میں نکتۂ اول قرار دیا گیا ہے۔