منتخب کردہ کالم

پیپلز پارٹی کا پنجاب میں احیائے نو ؟ (گنج فکر) آصف بٹ

جناب آصف زرداری پنجاب میں پارٹی کا مورال بلند کرنے کی غرض سے آج کل بلاول ہائوس لاہور میں ڈیرے جمائے ہوئے ہیں۔ لاہور اور پنجاب کو ملکی سیاست میں نمایاں حیثیت حاصل ہے۔ لاہور سے کسی پارٹی کے حق میں اُٹھنے والی لہروں اور موجوں سے پورے ملک کی رائے عامہ پر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ نصف سے زائد آبادی کا حامل ہونے کے باعث پنجاب مرکز میں حکومت سازی کے معاملے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ تعصب اور خواہشات کی عینکیں اُتار کر دیکھا جائے تو موجودہ زمینی حقائق کے پیشِ نظر لاہور اور صوبہ پنجاب میں پی پی پی کے احیائے نو کے امکانات دُور دُور تک دکھائی نہیں دیتے چونکہ ایک تو پی پی پی نے اپنے سابقہ دورِ اقتدار میں مرکز اور سندھ پر عملداری کے باوجود اپنے لئے کوئی مثبت حوالہ قائم نہیں کیا تھادوسرے یہ کہ پنجاب میں تب بھی شہباز شریف جیسا دُور اندیش، سیاسی جمع تفریق کا ماہر اور ہمہ وقت چوکس وزیر اعلیٰ صوبے میں ترقیاتی منصوبوں پر دن رات ایک کئے ہوئے تھا۔ اور رواں اقتدار کے دوران لاہور اور پنجاب کو انفراسٹرکچر کے حوالے اُنہوں نے کہیں کا کہیں پہنچا دیا ہے جس کا فائدہ آئندہ انتخابات میں پی ایم ایل این کو پہنچنا نوشتۂ دیوار ہے۔ پانامالیکس میں چونکہ اُن کا نام ہے اور نہ کردار لہٰذافرض کر لیں کہ مقدمے کا فیصلہ میاں نواز شریف اور اُن کے اہلِ خانہ کے خلاف آ جاتا ہے تو بھی پنجاب کی حد تک عوام یا یوں کہہ لیجئے پی ایم ایل این کے ووٹرز کی رائے پر کسی منفی اثر کا باعث نہیں بنے گا۔ ان حقائق کی روشنی میں اندازہ یہی کہتا ہے کہ لاہور اور پنجاب جناب آصف علی زرداری کے لئے بہت زیادہ بھاری پتھر ہے۔
پاناما مقدمے کا حکومت کے خلاف فیصلہ آنے سے عمران خان اور اُن کے ورکرز کے مورال میں بلندی ضرورآئے گی لیکن پنجاب میں شہباز شریف کی نظر آنیوالی کارکردگی قدم قدم پر اُن کی جگہ روکے کھڑی ہو گی۔ اسکے باوجود آئندہ انتخابات میں پنجاب کے گلی کوچوں میں میاں شہباز شریف اور عمران خان کی شخصیات اور کارناموں کے حوالوں سے سیاسی معرکہ آرائی جمے گی۔ اس پس منظر میں پی پی پی، بالخصوص جناب زرداری کی قیادت میں ، کاکوئی مؤثر رول سیاسی اُفق کے کسی کونے سے اُبھرتا دکھائی نہیں دے رہا۔
اس سچ سے انکار کی گنجائش بہت کم ہے کہ پی پی پی کی کمزور حیثیت وفاقِ پاکستان کے لئے نیک فال نہیں چونکہ وجود میں آنے کے روز سے لے کر 2013 کے عام انتخابات کے نتائج تک فاٹا، گلگت بلتستان، آزاد جموں کشمیر اور چاروں صوبوں کے دُور دراز علاقوں تک اس کی موجودگی وفاق کے اتحاد کی علامت کا مظہر رہی ہے۔ جناب آصف علی زرداری خود اور آج بھی ”ایک زرداری سب پہ بھاری‘‘ کی بے وقت کی راگنی
چھیڑنے والے اُن کے ساتھی جب تک یہ تسلیم نہیں کریں گے کہ محترمہ کی شہادت کے بعد پارٹی اور حکومت چلانے کے سلسلے میں جناب آصف زرداری سے شدید غلطیاں سرزد ہوئی تھیں اور اُن کے ازالہ کی طرف مائل نہیں ہوں گے تو آئندہ انتخابات کے نتائج بھی سابقہ کی بازگشت بن کر ہی سامنے آئیں گے۔ پیپلز پارٹی
ملک کی وہ واحد سیاسی پارٹی ہے جو ملک کے استحصال زدہ طبقات کی نمائندہ رہی ہے جس نے آئین، جمہوریت، عوام اور ملکی وقار کی خاطر ایثار اور قربانیوں کی لازوال اور بے مثال تاریخ مرتب کی ہے۔ زرداری صاحب نے اپنے دور میں سوچی سمجھی سکیم کے تحت بھٹوز کی محبت میں اُن کی قومی خدمات کی بناء پر سرشار ورکرز کو دیوار کے ساتھ لگا کر اُن لوگوں کو پارٹی اور حکومتی عہدوں پر مسلط کیا جن کا نہ صرف یہ کہ پارٹی کے ابتلاء کے دور میں کوئی حصہ نہ تھا بلکہ اُن کا شمار اُس کے بدترین مخالفین میں ہوا کرتا تھا۔ آغا وسیم جس کا پورا خاندان ضیاء الحق کے دورِ استبداد میں قلعوں اور جیلوں میں سال ہا سال تشدد کی چکی میں پستا رہا اور وہ آج بھی دیارِ غیر میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہا ہے، نے فیس بُک پر اوپر نیچے چھ چھ افراد کی تصاویر چسپاں کر کے عام کی ہیں۔ اوپر وہ لوگ ہیں جو زرداری صاحب کے دور میں پارٹی اور حکومت کے مزے لوٹتے رہے اور جب پی پی پی کے کارکنان جیلوں اور قلعوں میں تشدد کی بھٹی میں کندن بن رہے تھے اور کچھ پھانسی گھاٹوں پر جیئے بھٹو کے نعروں کے ساتھ اس جہانِ فانی کو خیر باد کہہ رہے تھے وہ جنرل ضیاء الحق کے ہمراہ پیپلز پارٹی کو ختم کرنے کا ”مقدس فریضہ‘‘ سرانجام دے رہے تھے اور نیچے اُن چھ کارکنان کی تصویریں ہیں جنہیں ضیاء الحق کے دور میں پھانسی دے دی گئی تھی۔ اس وقت جب زرداری صاحب پنجاب میں پیپلز پارٹی کو زندگی عطا کرنے کیلئے اپنے انداز میں کوشاں ہیں ۔ یہ خاکسار جسے ضیاء الحق کے دور میں سزائے موت سنائی گئی لیکن اللہ کو اس کی زندگی مقصود تھی، بیٹھا پی پی پی کا نوحہ لکھ رہا ہے۔
جناب آصف علی زرداری کی ملک سے غیر حاضری کے دوران بلاول بھٹو کے خم ٹھونک کر سیاست میں نکلنے کے باعث پی پی پی کے تنِ مردہ میں زندگی کے آثار نمایاں ہونے لگے تھے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ بلاول 2018 کے انتخابات کا میدان مار لیتے لیکن اتنا ضرور ممکنات میں شامل کیا جا سکتا ہے کہ پارٹی متحرک اور فعال صورت پہ آ جاتی اور محروم طبقات کو ایسا لیڈر میسر آ جاتا جسے وہ اپنی اُمیدوں کا مرکز بنا لیتے۔ اب بھی وقت ہے کہ جناب آصف علی زرداری پس منظر میں رہ کر نوجوان بلاول کو اپنے تجربات سے مستفید کریں اور اُنہیں کھل کر اپنے انداز میں عوامی سیاست کا موقع فراہم کریں۔عوام ذوالفقار بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی چلتی پھرتی تصویر بلاول کو دیکھنا، سننا اور عزت کے مقام پر واپس لانا چاہتے ہیں۔سیاست اور سفاکی کا چولی دامن کا ساتھ ہے اس کے سینے میں نہ دِل ہوتا ہے نہ ہی رشتوں کا مقام۔ اس حقیقت سے شناسائی کے باوجودخاکسار کی جناب آصف علی زرداری سے استدعا ہے کہ وہ اپنی طبع پہ جبر کر کے بلاول کو راستہ دیں۔ اسی میں ملک، قوم اور پیپلز پارٹی کی بھلائی مضمر ہے۔