منتخب کردہ کالم

پی ایس ایل فائنل اور کراچی!…الیاس شاکر

پی ایس ایل فائنل اور کراچی!.

پی ایس ایل فائنل اور کراچی!…الیاس شاکر

کراچی کی قسمت تو کھلتی ہے لیکن پوری طرح نہیں کھلتی۔ پی ایس ایل کا فائنل کراچی میںہو رہا ہے لیکن ٹکٹیں کراچی میں دستیاب نہیں۔ کیسا اتفاق ہے کہ لاہور میں ہونے والے دونوں سیمی فائنلز کی ٹکٹیں آپ کو ویب سائٹ پر اب بھی مل جائیں گی لیکن کراچی میں فائنل کی ٹکٹ پر ”سولڈ آئوٹ‘‘ کا بورڈ پہلے ہی دن لگ گیا تھا۔ پی سی بی کی جانب سے کُل چھبیس ہزار پانچ سو ٹکٹوں کا پچیس فیصد آن لائن فروخت کرنے کا اعلان کیا گیا تھا لیکن جیسے ہی رات کے بارہ بجے‘ ویب سائٹ یا تو ”جام‘‘ ہو گئی یا پھر کر دی گئی۔ کراچی کے شائقین حیران ہیں کہ یہ پچیس فیصد ٹکٹیں کس نے خریدیں؟ کیونکہ ویب سائٹ تو زیادہ ”ویب ٹریفک‘‘ کی وجہ سے بند ہو گئی تھی۔ 15 مارچ کی صبح ہی کوریئر سروس کی تمام مقررہ برانچوں کے باہر رش لگ گیا۔ صرف ایک گھنٹے میں ہزار روپے والے ٹکٹ ختم ہونے کی ”خوشخبری‘‘ سنا دی گئی۔ کئی مقامات پر بورڈ آویزاں کر دیئے گئے کہ صرف آٹھ اور بارہ ہزار روپے والے ٹکٹس دستیاب ہیں۔ اب یہ کراچی کی ڈھائی کروڑ آبادی کا ”کمال‘‘ تھا یا پھر ”بلیک مافیا‘‘ کا ”کرشمہ‘‘ کہ اتنی بڑی تعداد میں ٹکٹ اتنے کم وقت میں نایاب ہو گئے۔ جو اب بھی دگنی یا تگنی قیمتوں پر دستیاب ہیں۔ پی سی بی انتظامیہ نے پہلے ہی دو جنرل انکلوژر کو وی آئی پی کا درجہ دے کر ہزار روپے والے ٹکٹ 12 ہزار روپے کر دیئے۔ یعنی ایک جیسی کرسیوں پر بیٹھنے والے الگ الگ قیمت ادا کر چکے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ شارجہ اور دبئی کی خالی نشستوں کی کسر کراچی سے پوری کی جا رہی ہے۔
کراچی میں منعقدہ ایک فائنل کی ٹکٹیں تو چھ گھنٹے میں فروخت ہوگئیں لیکن لاہور میں ہونے والے دو سیمی فائنلز کی ٹکٹیں اب تک دستیاب ہیں۔ سوشل میڈیا پر یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ کراچی کی آبادی کا درست اندازہ ٹکٹوں کی برق رفتار فروخت سے بھی لگایا جا سکتا ہے۔ کراچی کے شائقین بہرحال نجم سیٹھی کے ممنون ضرور ہیں کہ انہوں نے کرکٹ کی کراچی واپسی میں اہم کردار ادا کیا اورکراچی والوں کوکم ازکم ایک صحت مند تفریح مہیا کی۔
کراچی میں کرکٹ نو سال بعد واپس آ رہی ہے۔ نیشنل سٹیڈیم کراچی 1955ء میں تعمیر ہوا جہاں پہلا میچ اسی سال پاکستان اور بھارت کے درمیان کھیلا گیا جبکہ آخری میچ پاکستان نے سری لنکا کے خلاف 2009ء میں کھیلا تھا۔ 2000ء تک پاکستان کرکٹ ٹیم نیشنل سٹیڈیم میں کوئی میچ نہیں ہاری تھی۔ جس کے بعدسے اب تک اسے یہاں صرف دو ٹیسٹ میچوں میں شکست ہوئی ہے۔
پاکستان کرکٹ بورڈ کو ہر سال آئی سی سی سے سٹیڈیمز وغیرہ کے لئے بھاری رقم ملتی ہے۔ ملک کے خراب حالات پر بورڈ نے بھی سوچا کہ اب یہاں میچز توممکن نہیں اس لئے ڈویلپمنٹ فنڈز کا استعمال ہی نہیں کیا گیا بلکہ اسی رقم سے ہر ماہ سود کی مد میں ملنے والے کروڑوں روپے سے دیگر اخراجات پورے کئے جاتے رہے۔ اسی لیے نیشنل سٹیڈیم اس حال کو پہنچ گیا کہ پی ایس ایل تھری کے فائنل کیلئے نیشنل سٹیڈیم کراچی کا جب اعلان ہوا تو یہاں کی تزئین و آرائش پر ہی ڈیڑھ ارب روپے خرچ ہوئے۔ پی ایس ایل فائنل تک چھت بننا بھی ممکن نظر نہیں آتا جس سے ٹی وی پر اچھا تاثر نہیں جائے گا اور پوری دنیا میں ٹوٹا پھوٹا سٹیڈیم پاکستان کے بجائے شام کی زیادہ ترجمانی کر سکتا ہے۔ سست رفتار ترقیاتی کاموں کی وجہ سے ایک مرحلہ ایسا بھی آیا کہ جب لگ رہا تھا کہ فائنل بھی کراچی سے چھین کر لاہور کو دے دیا جائے گا لیکن پھر نجم سیٹھی نے کراچی والوں کو خوشخبری سنا دی۔
پی ایس ایل کے فائنل اور سیمی فائنلز کیلئے بیشتر غیر ملکی کھلاڑیوں کو پاکستان آنے کیلئے بار بار درخواست کرنا پڑ رہی ہے جو کہ انتہائی تشویش کا باعث ہے حالانکہ انہیں یہ بھی بتا دیا گیا ہے کہ تمام کھلاڑیوں کو صدارتی سکیورٹی ملے گی۔ اگر غیر ملکی کھلاڑی پاکستان نہ آئے تو یہ پی ایس ایل کیلئے بہت بڑا دھچکا ہو گا۔ یہ چیئرمین نجم سیٹھی کی بڑی ناکامی ہوگی اور انہیں بھی یہ ضرور سوچنا پڑے گا کہ آئندہ پی ایس ایل کیلئے غیر ملکی کھلاڑیوں کو اسی شرط پر خریدا جائے کہ وہ پاکستان آئیں۔ پی ایس ایل اب کرکٹ کا ایسا بخار بن رہا ہے کہ غیرملکی کھلاڑی چاہے چار ہوں یا دو‘ شائقین پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ ویسے بھی اس بار پاکستانی کھلاڑیوں کی پرفارمنس غیر ملکی کھلاڑیوں سے قدرے بہتر ہے۔ لیکن ظاہر ہے دنیا کی ہر لیگ میں مایہ ناز کھلاڑی شامل اسی لئے کئے جاتے ہیں کہ کرکٹ کو ایسا ”تڑکا‘‘ لگایا جائے کہ دنیا بھر کے شائقین اسے اپنی ہی لیگ سمجھیں۔ انڈین پریمیئر لیگ کی ناکامی کی ایک وجہ پاکستانی کھلاڑیوں کا نہ کھیلنا بھی ہے۔ جس کا بھارتی کرکٹ بورڈ کو بخوبی اندازہ ہے لیکن وہاں کے حکمرانوں کی کرکٹ میں مداخلت اور منفی سوچ نے آئی پی ایل کو تباہ کر دیا۔ بھارت کے مقابلے میں بنگلہ دیش کی پریمیئر لیگ بہت آگے نکل چکی ہے۔
کراچی میں پی ایس ایل کے فائنل کو یادگار بنانے کیلئے وزیراعلیٰ سندھ اور میئرکراچی وسیم اختر میدان میں ہیں۔ ان کے درمیان مقابلے بازی کا بھی امکان ہے۔ کراچی کو سجانے کی تیاریاں بھی ہو رہی ہیں۔ فل ڈریس ریہرسل بھی جاری ہے۔ پاک فوج‘ رینجرز اور پولیس سب الرٹ ہیں۔ شائقین غیر ملکی کھلاڑیوں کے منتظر ہیں لیکن سندھ حکومت کی ایک اور کوتاہی کسی بھی بڑی مشکل کا سبب بن سکتی ہے۔ ڈرگ روڈ فلائی اوور کا تعمیراتی کام تاحال مکمل نہیں ہوا جو کسی بھی رکاوٹ کا سبب بن سکتا ہے اور روزانہ ٹریفک جام کا سامنا کرنے والے کراچی والوں کوکرکٹ ٹیموں کی آمد پر شاہراہ فیصل مکمل ”جام‘‘ مل سکتی ہے۔ اس طرح ایک خوشگوار موقع ناخوشگوار ہو سکتا ہے۔
پلے آف مرحلے کے لیے کوالیفائی کرنے والی ٹیمیں 18 اور 19 مارچ کی درمیانی شب لاہور پہنچیں گی اور 20 اور 21 مارچ کو قذافی سٹیڈیم میں میچزکھیلیں گی۔ جس کے بعد فائنلسٹ ٹیمیں کراچی اور باقی دو ٹیمیں واپس اپنے ”ہیڈ کوارٹرز‘‘ چلی جائیں گی۔
پی ایس ایل میں کرکٹ ٹیموں کی فائنل کارکردگی پر نظر ڈالی جائے تو اسلام آباد یونائیٹڈ پہلے‘ کراچی کنگز دوسرے نمبر پر براجمان ہیں۔ اور دونوں سیمی فائنلز کھیلیں گی جبکہ پشاور زلمی اور کوئٹہ گلیڈی ایٹرز گزشتہ دونوں سیزنز کی طرح پی ایس ایل تھری کے سیمی فائنل میں بھی آمنے سامنے ہیں۔ کراچی کنگز کی فتح کی صورت میں فائنل انتہائی دلچسپ اور عوام سے بھرپور ہونے کا امکان ہے۔ لاہور قلندرز ٹورنامنٹ کی سب سے بدقسمت ٹیم ثابت ہوئی ہے جس نے پہلے ہارنے کی ڈبل ہیٹ ٹرک کی اور پھر دوسری ٹیموں کو باہر نکالنے کی”منصوبہ بندی‘‘ پر عمل شروع کر دیا۔ سب کی خواہش تھی کہ فائنل کراچی اور لاہور کے درمیان ہو۔ ایسا ہوتا تو صورتحال ہی کچھ اور ہوتی۔ ان دونوں ٹیموں کے آمنے سامنے آنے پر جو جوش و خروش نظر آتا ہے‘ ویسا کسی اور میچ میں نظر نہیں آتا۔ سوشل میڈیا پر ان دنوںٹیموں کے میچ کو پاک بھارت میچ سے بھی تشبیہ دی جاتی رہی۔ پی ایس ایل تھری میں شاندار آغاز کرنے والی ملتان سلطانز کی ٹیم بھی اب واپسی کا ٹکٹ کٹوا چکی ہے۔ فی الحال اسلام آباد کی ٹیم کو فیوریٹ قرار دیا جا رہا ہے۔