ماریہ ملک
قوموں کی زندگی میں جو اقدام انقلابی طور پر قوموں کی قسمت اور مستقبل کا فیصلہ کرتے ہیں اِن میں منعفت بخش معاشی نظام با ہمی سود مند بین الاقوامی تعلقات اور رفاعہ عامہ کے نظام پر قائم مستحکم سیاسی نظام سرِ فہرست ہے ۔ چائنہ پاکستان اقتصادی راہداری کا منصوبہ اِن تمام نمایاں خصوصیات کا حامل ہے اِسی لیے اِس منصوبے کوبجا طور پر نہ صرف پاکستان ، اسکے علاقائی خطے بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی ایک مثبت گیم چنجر کا نام دیا جاتا ہے۔
چائنہ پاکستان اقتصادی راہداری کے منصوبہ کی لاگت بل51 بلین ڈالر ہے اور پاکستان میں نہ صرف گوادر پورٹ، سڑکیں، ریلوے ٹریک بلکہ زراعت، انرجی سیکٹر میں بھی تمام صوبوں کے لیے، مختلف چھوٹے بڑے پراجیکٹس اِس میں شامل ہیں۔ معاشی ماہرین اِس بات پر متفق ہیں کہ یہ انقلابی نوعیت کا منصوبہ پاکستان کے معاشی اقتصادی اور انڈسڑیل حالات پر تیزی سے مثبت اور بہتر اثرات ڈالے گا۔ پاکستان اور چائنہ کے درمیان معاشی تعاون کے لیے بھی یہ منصوبہ ایک کلیدی حیثیت کا حامل ہے۔ چائنہ اپنی معاشی ترقی کے باعث بلاشبہ اِس حیثیت کا مالک ہے کہ وہ دنیا کی معیشت کی سمت کا بڑی حد تک تعین کر رہا ہے چائنہ کی بین الاقوامی معاشی پالیسی میں “ون بیلٹ” “ون روڑ”ایک نمایاں خدوخال ہے ۔ چائنہ معاشی تعاون ، تجارت، سرمایہ کاری اور دیگر بڑے ترقیاتی منصوبوں کے لیے انفراسٹکچر اور جغرافیائی محل و قوع کو بہت اہمیت دیتا ہے۔
چائنہ پاکستان اقتصادی راہداری کا منصوبہ چائنہ کی معیشت کو پاکستان کے سارے صوبوں سے ایک روڑ کے ساتھ منسلک کر دے گا۔ اور اِس سے ملحقہ زراعت، انرجی اور انڈسٹریل منصوبے پاکستان میں معاشی ترقی اور استحکام کا باعث بنے گئے۔ اب تک کے مہیا کئے گئے اعداد و شمار کے مطابق 2015سے 2030کے درمیان یہ منصوبہ 7لاکھ براہ راست روز گار فراہم کرئے گا۔ اسکے علاوہ راہداری اپنے تمام ملحقہ منصوبوں کی تکمیل کے بعدپاکستان کی سالانہ معاشی شرخ نمو میں2.5% اضافہ کا باعث بنے گا۔ گوادبندرگاہ تک پہنچنے سے پہلے اقتصادی راہداری کا یہ منصوبہ پاکستان کے طول و عرض میں بنیادی طور پر چار نوعیت کے معاشی منصوبوں پر کام کرے گی۔ اِن میں )۱)سڑکیں(۲) ریلوے ٹریک (۳)انرجی سیکٹر(۴)زراعت اور دیگر سیکٹر کے منصوبے شامل ہیں۔
روڑ انفراسٹکچر میں ملک بھر میں نئی سڑکوں کے منصوبے کی لاگت تقریباً 11 بلین ڈالر کے قریب ہے۔ اِس میں قراقرم ہائی وے کی دوبارہ جدید معیار کی تعمیر نو ، مشرقی، مغربی روٹ کی تعمیر شامل ہے۔ نیشنل ہائی وے N35 جوکہ شاہراہ قرارقرام کا پاکستان میں موجود887km لمبے حصے پر مشتمل ہے اِسکی تعمیر نو سے لینڈ سلائیڈنگ کے متوتر مسئلہ کو حل کیا جا سکے گا۔ زلزلوں کی وجہ سے اِس حصے میں لینڈ سلائڈ شاہراہ قراقرم کو اکثر ٹریفک کے لیے بند کر دیتی ہے۔
روڑ انفراسٹرکچر کے مشرقی روٹ میں پنجاب اور سند ھ کے درمیان M6, ،M5اورM9 تعمیر کی جائے گی۔ جو کراچی کو حیدرآباد سکھر ملتان اور پھر لاہور سے ملائے گی۔ 1152 kmاِس لمبے موٹروے ٹریک کے مختلف حصو ں پر کام تیزی سے جاری ہے جو بلاشبہ پاکستان کے روڑ انفراسٹرکچرکو عالمی معیار سے ہم آہنگ کرے گا۔
مغربی روٹ میں بلو چستان ، خیبر پختوانحوا اور مغربی پنجاب کے شہروں کو جدید معیار کی موٹروے سے ملایا جائے گا۔ منصوبے کے اِس حصے میں870 kmلمبی سڑک کی بلوچستان میں تعمیر نو کی جائے گی یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ 620 kmکی تعمیر نو جنوری 2016تک مکمل کی جاچکی ہے۔ یہ بات اِس لیے بھی اہم ہے کہ روڑ انفراسٹرکچر اور اقتصادی راہداری کے دیگر ذیلی منصوبے جو مغربی روٹ سے متعلق ہیں اِن کے بارے میں کچھ سیاسی جماعتیں بے بنیاد پراپیگنڈا کرنے میں مصروف ہیں۔ کچھ عناصر یہ تاثر پھیلانا چاہتے ہیں کہ مغربی روٹ کی تعمیر میں تا خیر سے کام لیا جا رہا ہے۔ حالانکہ وزیراعظم نواز شریف اِس حصے کی ترجیحی بنیادوں پر تعمیر کے احکام دے چکے ہیں جن پر کام جاری ہے۔ مئی 2016میں مغربی روٹ کے ایک اور 285kmلمبے حصے کی
موٹروے پر کام شروع کیا جا چکا ہے۔ اِسکے علاوہ مغربی روٹ میں ضلع خوشاب اور گوادر کو 193 kmلمبی نئی تعمیرشدہ موٹروے M 8 کے ذریعے فروری 2016میں ملایا گیا۔
مغربی روٹ کی ایک اور خاصیت یہ بھی ہے کہ اِس روٹ کے ساتھ سپیشل اکنامک زون کی تعمیر بھی کی جائے گی اِن میں 7 سپیشل ذون خیبرپختوانخوا میں تعمیر کئے جائیں گے۔ مغربی روٹ میں N85نیشنل ہائی وے پر 470kmلمبی سڑک جو سہراب کو خوشاب سے ملائے گی تکمیل کے آخری مراحل میں ہے۔ مغربی روٹ کے 1153kmلمبی موٹرویز اور سپیشل اکنا مک ذون بلاشبہ اِس بات کی دلیل ہیں کہ چائنہ پاکستان اقتصادی راہداری درحقیقت پاکستان کے پسماندہ مگر وسائل سے مالا مال علاقوں کو بھرپور سہولتیں مہیا کرنے کا منصوبہ ہے۔ اِن سپیشل ذون میں علاقوں کے وسائل کی منا سبت سے ترقیاتی منصوبے بنائے جائیں گے جو نہ صرف علاقائی روز گار کا باعث بنیں گئے بلکہ پاکستان کی معاشی ترقی قدرتی وسائل اور علاقائی صلاحیتوں کو بھر پور طور پر اجاگر کرئے گی۔ اِس لیے سیاسی عناصر کو کم از کم اقتصادی راہداری کے بیش بہا منصوبے جو کہ ملکی مفاد میں ہیں کو تنقید کا نشانہ بنانے سے مکمل اجتناب کر کے اپنی قومی و ملی جذبے کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔
ریلوے ٹریک کی تعمیر میں بنیادی طور پر پاکستان کی موجودہ ٹریک کی جدید معیار کی تعمیر نو شامل ہے۔ اِس میں شامل منصوبے ML 1پشاور سے ملتان سے حیدآباد کے علاوہ ML2کوٹری سندھ سے اٹک پنجاب تک اور ML3جو بلوچستان افغانستان باڈر سے ڈیرہ اسماعیل خان کو براستہ کوئٹہ اور ژوب سے ملائے گی۔ اِسکے علاوہ خنجراب بائی پاس کی ریل لنک کو بھی 2030تک مکمل کر لیا جائے گا ریلوے ٹریک چائنہ اور دیگر مصنوعات کو کراچی اور گوادر پورٹ تک براہ راست رسائی دے گا۔
انرجی سکیٹر کے منصوبوں میں33بلین ڈالر کی لاگت کے مختلف پراجیکٹس شامل ہیں جو پاکستان کے توانائی کے شعبے کے دیرینہ مسائل کو بلا شبہ ختم کرے گی۔ تقریباً 10,400 MWکے منصوبے 2020تک مکمل کر لیے جائیں گئے۔ اِن میں دنیا کا سب سے بڑا سولر پاور پلانٹ قائد اعظم سولر پارک بہاولپور، ساہیوال کول
پاور پلانٹ، پورٹ قاسم پاور پراجیکٹ ، حب پاور کمپنی پراجیکٹ اور دیگر پراجیکٹس نمایا ں ہیں۔ دیگر انرجی
سیکٹرکے منصوبے جن پر کام پہلے سے ہی جاری ہے اِن میں بلو کی پاور پلانٹ، بھیکی پاور پلانٹ، نیلم جہلم ہائیڈرو پور پلانٹ ، تربیلا توسیع 4اور CASA1000شامل ہیں۔ یہ تمام منصوبے اپنی تکمیل کے بعد نہ صرف انرجی سیکٹر میں درپیش کمی کو پورا کریں گے بلکہ ملک کی انرجی سیکٹر کی پیداوار اور انڈسٹری کو مستحکم بھی کریں گے۔ چائنہ پاکستان اقتصادی راہداری کے منصوبے میں دونوں ممالک کے درمیان معاشی، اقتصادی اور تجارتی تعاون کو مزید بہتر کرنا بھی شامل ہے۔ اِس وسیع تر تعاون کے تحت زراعت ، سائنس و ٹیکنالوجی اور دیگر شعبوں میں دونوں ممالک CPECکے استحکام خوشحالی اور ترقی کے لیے کام کریں گے۔
گوادر پورٹ اِس منصوبے کا بین الاقوامی معاشی و اقتصادی اور تجارتی انقلاب کا دوسرا نام ہے۔ گوادر پورٹ اِس خطے کی سب سے بڑی بندرگاہ ہے جس میں 120برتھ اور اِسکی گہرائی 17.1.18.2میٹر ہے جو اِسکی وسعت اور زیادہ کام کرنے کی صلاحیت کی عکاس ہے ۔ گوادر پورٹ برصغیر ، سنٹرل ایشیاء ، ویسٹرن چائنہ اور مشرقی وسطٰی کے ذخائر سے مالا مال علاقوں کو جدید بندرگاہ کے ذریعے ملائے گا اور باہمی اور بین الاقوامی تجارت و سرمایہ کاری میں یقیناًایک انقلاب لائے گا۔ گوادر کی بندرگاہ عالمی سطح پر پہلے سے موجود بندرگاہوں کے لیے بہت بڑا چیلنج ہے اِس لیے پاکستان کی ترقی کے مخالف اور چائنہ پاکستان دوستی سے خائف ممالک اِسکی بے جا مخالفت میں مصروف عمل رہتے ہیں۔ گوادر پورٹ اپنی تکمیل کے بعد پاکستان کو معاشی طور پر ناقابل تسخیر بنا دے گی۔ اور ہماری معیشت براہ راست عالمی تجارت و سرمایہ کاری میں اپنا حصہ تلاش کر سکے گی۔ اِسی قومی مفاد اور ملکی سلامتی وقار کو پیش نظر رکھتے ہوئے تمام سیاسی عناصر کو اِس عظیم منصوبے پر قومی یکجہتی کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور بے جا تنقید اور متنازعہ گفتگو سے پرہیز کرنا چاہیے یہی ہمارے ملک کے تمام حصوں کے ترقی و خوشحال کا ضامن ہے