منتخب کردہ کالم

چار اپریل۔بھٹو شہید کے افکار و نظریات کا یومِ تجدید: بشیر ریاض

4 اپریل کو پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کے 1979ء میں ہونے والے عدالتی قتل کی38ویں برسی ہے۔ زیادہ تر لوگوں کو پتہ ہے کہ یہ وہ تاریخ ہے جب پاکستان اپنی تاریخ کی نچلی ترین سطح پر تھا۔ ایک چالاک آمر نے عدلیہ کو پاکستان کے سب سے زیادہ مقبول وزیراعظم کو غیرقانونی طور پر پھانسی دینے پر مجبور کردیا۔شہید ذوالفقار علی نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کردیا لیکن ضیاء الحق کی برائی کے سامنے جھکنے سے انکار کردیا۔پاکستان کی نئی نسل کو 1970ء کے حالات و واقعات بارے میں معلومات نہیں ہونگی یا اگر ہونگی تو صرف سطحی نوعیت کی ۔ یہ ضروری ہے کہ اس نئی نسل کو5جولائی کی اہمیت سے آگاہ کیا جائے۔ یہ تاریخ کا وہ سیاہ دن ہے جب ایک خوشحال، روادار اور بھائی چارے کی فضا سے بھرپور پاکستان کو ایک تاریک دور میں پھینک دیا گیا۔دہشت گردی اور تشدد، جو آج ہمیں اپنے ارد گرد نظر آتی ہے، کے بیج اُس دن ہماری دھرتی میں بو دئیے گئے تھے جب ضیاء الحق نے افغان جنگ میں امریکہ کا کٹھ پتلی بننے کا فیصلہ کیا۔ وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں، عالمی طور پر، پاکستان خطے میں ایک اُبھرتی ہوئی اقتصادی اور فوجی طاقت کے طور پر جانا جاتا تھا۔دنیا بھر سے سیاح ایک خوشگوار و محفوظ ماحول اور مشرقی مہمان نوازی کا لطف اُٹھانے کیلئے جوق در جوق پاکستان آتے تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے عالمی طور پر اپنی سیاسی بصیرت استعمال کر کے پاکستان کو اسلامی سیاست کا مرکز بنادیا تھا، جس پر پاکستانی آج بھی فخر کرتے ہیں۔
میں اکثر یہ سوچتا ہوں کہ ہمیں آج جس طرح کے گوناگوں بحرانوںکا سامنا ہے، اُس کو ذوالفقار علی بھٹو کیسے حل کرتے۔ آج ہمیں عسکریت پسند اسلام پسندوںکے سرپرست کے طور پر حقیر جانا جاتا ہے اورہم عالمی طور پر تنہائی کا شکار ہیں باوجودیکہ پاکستان دنیا بھر میں واحد نیوکلیئر پاور اورپانچویں بڑی آرمی رکھتا ہے۔ہم مشرق میں بھارت کے خوف کا شکار ہیں اور مغربی سرحد پر دہشت گردی کا سلسلہ جاری ہے۔مشرق وسطیٰ میں سعودی عرب اور ایران کی پراکسی وار کی وجہ سے افراتفری کا ماحول ہے۔اسلامی دنیا کے شدید مسائل اور لڑائیوں کی وجہ سے آج ہمیں ذوالفقار علی بھٹو کی کمی شدت سے محسوس ہورہی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو عالمی سفارتی حوالے سے دنیا بھر میں ایک مدبر کے طور جانے جاتے تھے۔ اگر آج وہ موجود ہوتے تواپنی سفارتکاری سے مسلم دنیا کے درمیان امن و آشتی کا رستہ نکال چکے ہوتے اور مشرق وسطیٰ میں استحکام کیلئے وہ بہت اہم کردار ادا کررہے ہوتے۔انہوں نے یہ کارنامہ 1974ء میں اسلامی سربراہی کانفرنس کے موقع پر سعودی عرب اور ایران کو ایک میز پر بٹھانے سے سرانجام دیا تھا۔اس کانفرنس سے عربوں کو احساس ہوا کہ تیل کو ہتھیار کے طور پر کیسے استعمال کیا جاسکتا ہے، جبکہ پاکستان نے لاکھوں لوگوں کو روزگار کیلئے عرب ممالک میںبھیجا جو آج بھی ہر سال قیمتی زرِ مبادلہ اپنے وطن بھیجتے ہیں۔ہمیں بھٹو کا مشکور ہونا چاہئے جن کی سفارتی صلاحیتوں کے سبب آج بھی ہمارا انحصار مشرق وسطیٰ سے آنے والے سالانہ 15ارب ڈالر کی ترسیلات زر پر ہے۔
ذوالفقار علی بھٹو کی اپنی قوم کیلئے بے تحاشا خدمات ہیں اور ان میں سے کچھ خدمات ممتاز اہمیت کی حامل ہیں۔جس وقت ذوالفقار علی بھٹو کو ملک کی باگ ڈور سنبھالنے کا موقع ملا تو پاکستان کے حالات بہت مشکل تھے۔ آج کی نسل کیلئے اُن حالات کا جاننا بہت ضروری ہے۔ یہ وہ وقت تھا جب بنگلہ دیش کی علیحدگی کے بعد پاکستان کے نوے ہزار فوجی بھارت کی حراست میں تھے اور پاکستانیوں کے حوصلے نہایت پست درجے پر تھے۔ بھٹو نے یہ ممکن بنایا کہ کشمیر پر سمجھوتے کے بغیر یہ تمام فوجی واپس اپنے وطن میں آگئے۔یہ کوئی آسان کام نہیں تھا۔بھٹو نے پاکستانیوں کی عزت نفس بحال کی اور کچھ ہی سال میں وہ ملک کو زمین سے آسمان کی بلندیوں پر لے گئے۔بھٹو کا دوسرا اہم کام 1973 کے آئین کو بنانے کیلئے مختلف سوچ رکھنے والے سیاستدانوں کو اکٹھا کرنا تھا ۔ یہ آئین وقت کی اہم ترین ضرورت تھا اوراس کے ساتھ ملک کی حفاظت کیلئے نیوکلیئر سیکیورٹی پر کام شروع کیا۔لیکن بھٹو صاحب کی سب سے بڑی کامیابی عام عوام کی جمہوریت میں شراکت تھی جس سے عوام حکومتی پالیسی بنانے میں مکمل بااختیار ہوگئے۔عام آدمی بھٹو سے محبت کرتا ہے اور دنیا رشک اور احترام سے پاکستانیوں کو دیکھتی ہے۔ذوالفقار علی بھٹو بین الاقوامی سطح پر ایک عظیم صلاحیت کے رہنما کے طور پر احترام کی نظر سے دیکھے جاتے تھے۔بھٹو کی انہی کامیابیوں اور کارکردگی کے سبب دنیا بھر کے قابل اعتماد اخبارات میں سراہا گیا مثلاً نیو یارک ٹائمز، کرسچن سائنس مانیٹر وغیرہ۔
ان تمام کامیابیوں اور خدمات کے باوجود 4اپریل ہوکررہا۔یہ حیران کن امر ہے کہ ایسا کیوں ہوا۔ شاید ہمارے دشمن ہماری بڑھتی ہوئی طاقت سے ڈر گئے تھے، شاید مغرب بھٹو کے اسلامی ممالک کا مشترکہ بلاک بنانے سے خوفزدہ ہوگیا، یا شاید چین کے ساتھ ہمارے بڑھتے ہوئے تعلقات دشمنوں کی آنکھوں میں کھٹکنے لگے تھے۔اب بھی میں، جب بھٹو لیگیسی فاؤنڈیشن میں بیٹھ کر اہم تاریخی فائلوں کے اوراق کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہوں تو میرا اس بات پر یقین پختہ ہوجاتا ہے کہ چار اپریل کو ، ضیاء نے قومی دشمنوں کے ساتھ ملک کر یا اداروں کو کمزور کرکے بھٹو جیسے عظیم لیڈر کو قتل کیا۔مجھے بھٹو صاحب سے واقفیت کا فخر حاصل ہے اور اس کے بعد اُن کی بیٹی محترمہ شہید بے نظیر بھٹو کے ساتھ کام کرنے کا اور اب تیسری نسل کے ساتھ ہوں، جس کی نمائندگی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کرتے ہیں۔
چار اپریل کا دن عظیم رہنماشہید ذوالفقار علی بھٹو کی عظیم قربانی کی یاد دلاتا رہے گا۔انہوں نے اپنی 51ویں سالگرہ راولپنڈی کی جیل میں ڈیتھ سیل میں گزاری۔ وہ ایک باہمت انسان تھے، اور انہوں نے خراب صحت کے باوجود اس آزمائش کا مقابلہ نہایت وقار اور پرسکون انداز میں کیا۔ذوالفقار علی بھٹو کی اپنے عوام کیلئے قربانی دینے کا یہ دن اس بات کا اعادہ کرنے کیلئے بہت اہم ہے کہ اس دن ہم شہید ذوالفقار علی بھٹو کے جمہوری نظریات اور سیاسی فلاسفی کی پیروی کرنے کا عزم کریں۔دہشت گردی اور ناانصافی کا ناسوربھٹو کے نام کومٹانے میں بری طرح ناکام ہوچکا ہے، کیونکہ بھٹو کا نام آج بھی زندہ ہے اور پاکستان کے گلی محلوں میں آج بھی یہ صدا سنائی دیتی ہے ”زندہ ہے بھٹو زندہ ہے‘‘۔
وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں، عالمی طور پر، پاکستان خطے میں ایک اُبھرتی ہوئی اقتصادی اور فوجی طاقت کے طور پر جانا جاتا تھا۔دنیا بھر سے سیاح ایک خوشگوار و محفوظ ماحول اور مشرقی مہمان نوازی کا لطف اُٹھانے کیلئے جوق در جوق پاکستان آتے تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے عالمی طور پر اپنی سیاسی بصیرت استعمال کر کے پاکستان کو اسلامی سیاست کا مرکز بنادیا تھا، جس پر پاکستانی آج بھی فخر کرتے ہیں۔