چاند، مٹکا، جیپ اور ٹینک….خالد مسعود خان
”جنگ اور محبت میں سب جائز ہے‘‘ اللہ جانے یہ محاورہ کس فوجی جرنیل یا عاشقِ نامراد نے بنایا کہ عشق اور جنگ میں اخلاقیات کا جنازہ نکل گیا۔ بہر حال جنگ اور محبت کی حد تک تو اس نامعقول محاورے نے جو ”ڈھیں پٹاس‘‘ کرنا تھا وہ تو کر لیا‘ پھر یار لوگوں نے ان دو کاموں کے ساتھ ایک تیسرا کام بھی فٹ کر لیا اور یہ کام ”سیاست‘‘ تھا۔ الحمد للہ ہمارے ہاں سیاست‘ جو پہلے سے ہی جھوٹ اور فراڈ کا ملغوبہ تھی‘ اس محاورے کے بعد کہ ”جنگ، محبت اور سیاست میں سب جائز ہے‘‘ بالکل ہی پاجامے سے باہر نکل گئی۔ اب عالم یہ ہے کہ ہماری سیاست میں جھوٹ، فراڈ، دھوکہ دہی، کرپشن، لوٹا گردی اور وعدہ خلافی نہ صرف یہ کہ عیب کے زمرے سے نکل گئے ہیں بلکہ خوبی بن گئے ہیں۔ جو شخص ان کاموں میں جتنا ماہر ہے وہ اتنا ہی کامیاب سیاستدان ہے اور اس کی شہرت بحیثیتِ سیاستدان باقیوں سے اتنی ہی زیادہ ہے۔
ہمارے الیکشنوں کے نزدیک ہر بار کوئی نہ کوئی نئی اخلاقی گراوٹ اور پستی متعارف ہوتی ہے اور بندہ حیران رہ جاتا ہے کہ آخر یہ اخلاقی دیوالیہ پن کہاں جا کر فل سٹاپ لگائے گا؟ لوٹا ہونا تو خیر سے اب ہماری سیاست کا ایک جزوِ لاینفک بن چکا ہے اس لیے اس پر اب اتنا زیادہ نہ تو شور مچتا ہے اور نہ ہی اس کی اب اس زور و شور سے مذمت ہوتی ہے کہ عوام اب خرابی کے عادی ہو چکے ہیں۔ لیکن اس بار جو نئی خرابی اور اخلاقی گراوٹ متعارف ہوئی ہے وہ جیپ پر سوار ہو کر آئی ہے۔
ڈوریاں ہلانے والوں کے آزاد گروپ بھی اب ہماری سیاست میں نیا اضافہ نہیں ہیں۔ 2008 ء کے الیکشن میں ”اوپر والوں‘‘ کی آشیر باد سے آنے والوں نے ”چاند‘‘ کا انتخابی نشان الاٹ کروایا۔ اس ”اوپر والوں‘‘ سے مراد آپ جو بھی لے لیں تاہم یہ پرویز خٹک والی تشریح کہ ”اوپر والے‘‘ سے اس کی مراد ”بنی گالہ‘‘ تھی‘ ہرگز نہیں ہے‘ ویسے یہ اوپر والے کی اصطلاح اب ایک اوپن سیکرٹ ہے اور ہر شخص اس سے آگاہ ہے‘ تاہم احتیاطاً یار لوگ لکھتے وقت محکمے کا نام نہیں لکھتے۔ ویسے بھی لکھنے کی کیا ضرورت ہے؟ سب لوگوں کو اگر بغیر نام لیے سب باتیں پتا چل جائیں تو بھلا نام لینے کی ضرورت بھی کیا ہے؟ ان ”اوپر والوں‘‘ کا معاملہ بھی ولیم جاسوس جیسا ہے۔
امریکہ میں ایک خفیہ ایجنسی کے اہلکار کو ایک دور دراز کے قصبے میں کسی خاص مشن پر بھیجا گیا اور اسے بتایا گیا کہ اس قصبے میں اس کی مدد کے لیے اسی ایجنسی کا ایک اور اہلکار موجود ہے‘ جو اسی قصبے کا رہائشی ہے۔ ہیڈ کوارٹر سے جانے والے خفیہ اہلکار نے قصبے میں موجود خفیہ اہلکار یعنی جاسوس کا اتہ پتہ معلوم کیا تو اسے بتایا گیا کہ اس کا نام ولیم ہے ، اور بس۔ مزید یہ بتایا گیا کہ اس کو پہچاننے کے لیے ایک خفیہ کوڈ ورڈ استعمال کرنا ہوگا۔ اگر تمہیں معلوم پڑے کہ یہ شخص ولیم ہے اور تمہیں اس پر یہ شک بھی ہو کہ یہی مطلوبہ جاسوس یعنی ولیم ہے تو تم اس کے سامنے ایک جملہ بولنا کہ ”اس قصبے کا موسم آج بڑا خوشگوار ہے‘‘ اگر وہ جواباً تمہیں کہے کہ ”اس قصبے کا موسم سارا سال ہی خوشگوار رہتا ہے‘‘ تو جان جائو کہ یہی تمہارا مطلوبہ شخص ولیم ہے اور وہی تمہاری اس خفیہ مشن میں مدد کرے گا۔
شہر سے خفیہ ایجنسی کا اہلکار شام کے وقت اس قصبے میں پہنچا اور ہوٹل میں کمرہ لینے کے بعد نیچے قصبے کے واحد شراب خانے میں چلا گیا۔ اس نے سوچا کہ کسی شخص کو تلاش کرنے کے لیے یہ ہمیشہ سے ہی ایک بہترین مقام ہوتا ہے۔ وہاں ایک پیگ پینے کے بعد اس نے ویٹر سے کہا کہ میں اس قصبے میں اجنبی ہوں اور یہاں اس قصبے میں مسٹر ولیم سے ملنا چا ہتا ہوں۔ ویٹر کہنے لگا: اس قصبے میں چار ولیم نامی شخص ہیں اور اتفاق دیکھیے کہ میرا نام بھی ولیم ہے۔ شہر والے جاسوس نے سوچا کہ ممکن ہے یہ جاسوس اپنی شناخت کو خفیہ رکھنے کے لیے یہاں کام کر رہا ہو اور ویسے بھی ادھر ادھر کی معلومات حاصل کرنے کے لیے شراب خانہ بہترین جگہ ہوتی ہے جہاں شرابی ٹن ہو کر کچھ بھی بک سکتا ہے۔ اس نے سوچا کیوں نہ وہ کوڈورڈ کا استعمال کر کے دیکھیں۔ کیا پتا یہی مطلوبہ ولیم ہو۔ اس نے اسے کہا کہ ”اس قصبے کا موسم آج بڑا خوشگوار ہے‘‘۔ ولیم زور سے ہنسا اور کہنے لگا اچھا! تو یوں کہیں ناں کہ آپ ولیم جاسوس کو ملنا چاہتے ہیں۔ وہ سامنے والی گلی میں بائیں ہاتھ والے چوتھے مکان میں رہتا ہے۔
اس بار جو اخلاقی گراوٹ کا نیا شاہکار متعارف ہوا ہے وہ جیپ سواروں کے نام سے آیا ہے۔ بلکہ یوں کہیں کہ اس بار اخلاقیات کا جنازہ جیپ گاڑی پر سوار ہو کر آیا ہے۔ جس طرح عزت داروں کا جنازہ ”توپ گاڑی‘‘ پر رکھ کر لایا جاتا ہے اسی طرح اخلاقیات سے عاری سیاست کا جنازہ اس بار جیپ گاڑی پر آیا ہے۔ جنوبی پنجاب میں چار پانچ ایم این ایز اور تین چار ایم پی ایز نے عین اس دن‘ جو انتخابی نشانات واپس لینے کا آخری دن تھا‘ اپنا ”شیر‘‘ کا ٹکٹ واپس کیا اور آزاد جیپ کے نشان پر الیکشن لڑنے کا اعلان کر دیا۔ یہ کام انہوں نے آخری دن عین آخری وقت پر کیا۔اب صورتحال یہ ہے کہ جن جن حلقوں سے انہوں نے اپنا شیر کا ٹکٹ واپس کر کے آزاد الیکشن لڑنے کا اعلان کیا ہے ان حلقوں میں مسلم لیگ ن کا کوئی امیدوار موجود ہی نہیں۔ سارا راجن پور تقریباً صاف ہوگیا ہے۔ یہی حال دیگر کئی حلقوں کا ہے۔ اگر وہ یہ کام ایک دن پیشتر بھی کرتے تو مسلم لیگ ن ان کی جگہ کسی متبادل شخص کو اپنا امیدوار بنا سکتی تھی۔ کسی اور شخص کو شیر کے انتخابی نشان کے تحت لڑنے کے لیے اپنا پارٹی ٹکٹ جاری کر سکتی تھی مگر انہوں نے اس کی کوئی گنجائش ہی نہیں چھوڑی۔ ان کا بیان ہے کہ ان کو میاں نواز شریف کے بیانیے سے اتفاق نہیں تھا۔ انہیں میاں نواز شریف کی اداروں سے ٹکرائو والی پالیسی سے اتفاق نہیں تھا۔ اگر یہ بات سچ ہے تو میاں نواز شریف کا بیانیہ اور اداروں سے ٹکرائو کی پالیسی تو پچھلے گیارہ ماہ یعنی اقتدار سے اٹھائیس جولائی 2017 ء کو فراغت کے بعد سے ہی سب کے سامنے ہے۔
عین آخری دن میاں نواز شریف کے بیانیے اور اداروں سے ٹکرائو کی پالیسی کو بہانہ بنانے والوں کو یہ بات گزشتہ گیارہ ماہ میں کوئی نظر نہیں آئی؟ گورچانی فیملی کو عموماً اور پانچ سال تک پنجاب اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر رہنے والے علی شیر گورچانی کو یہ بات ٹکٹ کی درخواست دیتے وقت کیوں یاد نہیں آئی؟ یہ بات پارلیمانی بورڈ کو انٹرویو دیتے وقت کیوں اس کے ذہن میں نہیں آئی؟ اسے یہ بات بت دھیان میں کیوں نہیں آئی جب وہ مسلم لیگ ن کا ٹکٹ ریٹرننگ آفیسر کو جمع کروا رہا تھا؟ کیا ایسے لوگ اسمبلی میں بھیجے جانے کے قابل ہیں‘ جنہیں ساری باتیں اقتدار کے مزے ختم ہونے کے بعد یاد آتی ہیں؟ کیا یہ لوگ اس قابل ہیں کہ انہیں قانون سازی جیسا اعلیٰ اور ارفع فریضہ سونپا جائے؟ کیا یہ اخلاقیات کے وہ تقاضے پورے کرتے ہیں جو انہیں آئین کی دفعہ 62/63 پر پورا اترنے کے لیے درکار ہے؟
اس ”جنگ، محبت اور سیاست میں سب کچھ جائز ہے‘‘ نے ہمارے پہلے سے برباد شدہ سیاسی کلچر کو مزید برباد کر دیا ہے۔ بات اس بار چاند اور مٹکے سے ہوتے ہوئے جیپ تک آن پہنچی ہے۔ میری الیکشن کمیشن سے درخواست ہے کہ الیکشن 2023ء میں انتخابی نشانات میں ایک اور انتخابی نشان کا اضافہ کر دیں اور یہ نشان ہو ”ٹینک‘‘ اس سے ساری بات سمجھنے میں عوام کو مزید آسانی حاصل ہو جائے گی۔