منتخب کردہ کالم

چوتھا از خود نوٹس سبحان اللہ

لیجیے ہم ابھی معظم خان مندوخیل کے پہلے والے ’’از خود نوٹس‘‘ کو سنبھال نہیں پا رہے تھے کہ چوتھا بھی آگیا، جس کے لیے ہم سب سے پہلے تو پشتو کا ایک ٹپہ کہیں گے کہ

د پلار زانگو مے زانگولہ

ناسا پہ غگ شو چہ نیکہ دے پیدا شو نہ

یعنی میں ابھی اپنے باپ کا جھولا ہی جھلا رہا تھا کہ اچانک آوازہ اٹھا کہ مبارک ہو تیرا دادا پیدا ہو گیا ہے، یہ چوتھا از خود نوٹس بھی پہلے والے تین ’’از خود نوٹس‘‘ کا دادا نہ سہی باپ تو لگتا ہی ہے کیونکہ اتنے عرصے میں اس ملک کی سیاست، معیشت، قانون ، حکومت اور زندگی کا حلیہ اتنا بگڑ چکا ہے کہ پہچان کے لائق نہیں رہا ہے، خدا سلامت رکھے، ہمارے لیڈر محکمے اور ادارے پہلے بھی اس کام میں یدطولیٰ رکھتے تھے لیکن اب تو کچھ زیادہ ہی ان کا ہاتھ چل نکلا ہے۔

اب تو پہنچے ہیں کچھ اور بھی دشوار مقام
اس کی فرقت میں فقط جی کا زیاں تھا پہلے

ویسے اگر اجازت ہو تو تھوڑا سا ہم بھی اپنا رونا روئیں اچھی خاصی جلن ہوتی ہے، جب کسی کے کالموں کا مجموعہ چھپتا ہے، اب تک کل ملا کر صحیح تعداد تو ہمیں بھی معلوم نہیں لیکن دس بارہ ہزار سے اوپر کالم تو ہم نے لکھے ہی ہوں گے لیکن کوئی ننھا منا سا مجموعہ بھی چھپوا نہیں سکے ہیں کہ کوئی پبلشر وغیرہ مہربان نہیں ہوتا اور خود ہم۔

درم و دام اپنے پاس کہاں؟
چیل کے گھونسلے میں ماس کہاں؟

خیر کس کس بات کا رونا رویئے، وہ اپنے گاؤں میں ایک ماسی ’’گل دانہ‘‘ میتوں کو رونے میں درجہ کمال کو پہنچی تھی، اکثر بلاوے پر جاتی تھی اور خوب مرغن ہو کر آتی تھی، ایک دن اسے ایک میت پر لے جایا گیا ،گل دانہ خالہ میت کے سرہانے بیٹھ گئی اور میت کا جائزہ لینے لگی ،کافی دیرگزری تو گھر والی خواتین نے کہنی سے ٹھوکا مار کر اسٹارٹ ہونے کے لیے اکسایا لیکن گل دانہ بدستور چپ تھی کچھ اور دیر گزرنے پر کچھ خواتین نے ان کے کان میں کھسر پھسر کی کہ بٹن آن کر دو، پھر بھی وہ کچھ نہ بولی، آخر ایک خاتون نے کہا ،گل دانہ خالہ کیا بات ہے، چپکے سے بولی بہن تو ہی بتا میں اس کا کیا روؤں کوئی رونے کی جگہ اس میں ہے ہی نہیں، ہمارا معاملہ اس کے بالکل الٹ ہے، ہمارے اندر ایسی کوئی خوبی نہیں ہے جو رونے کے لائق نہ ہو،

حیراں ہو دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں
مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں

مقدور ہی تو نہیں ہے ورنہ ہم کسی نہ کسی ’’گل دانہ‘‘ خالہ یا شیخ معظم خان مندوخیل کو رکھ لیتے، اس سے پہلے شیخ معظم خان مندوخیل کے تین ’’از خود نوٹس‘‘ منظر عام پر آچکے ہیں اور یہ چوتھا مجموعہ ان کے کالموں کا اس وقت ہمارے سامنے ہے ، ان چاروں میں وہی رونا ہے جو ہم تمام کالم نگار روتے رہتے ہیں لیکن شیخ معظم خان کا اندازہ سب سے الگ ہے، وہ رونا بھی اس ادا سے روتے ہیں کہ پڑھنے والے کو بھی اپنے ساتھ اس رونے میں شامل کر لیتے ہیں، یا یوں کہئے کہ خربوزہ ایسا تیز رنگ پکڑتا ہے کہ دوسرے خربوزے بلکہ شاید کچھ ’’تربوزے‘‘ بھی رنگ پکڑ لیں، ان کے کاموں کو ہم اگر ایک شعر میں سمیٹنا چاہیں تو اس کے لیے مرشد کا یہ شعر کفایت کرتا ہے کہ

دیکھنا ’’تحریر‘‘ کی لذت کہ جو اس نے کہا
میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے

دنیا جانتی ہے اور پاکستان کے باشندے خاص طور پر وہ جو ابھی صرف شکل و صورت میں انسان لگنے لگے ہیں اور ابھی انسان کی قسمت، قیمت اور حقوق سے بہت دور ہیں وہ جانتے ہیں کیوں کہ پبلک سب جانتی ہے کہ ہم جس ’’اونٹ‘‘ پر سوارہیں اس کی کوئی کل بھی سیدھی نہیں ہے اور نہ ہی اس کا یہ پتہ چلتا ہے کہ کس کروٹ بیٹھے گا کب بیٹھے گا کہاں بیٹھے گا اور بیٹھے گا بھی نہیں، یونہی دشت و بیابان میں دوڑتا رہے گا ۔ نہ ہاتھ باگ پر ہیں نہ پا ہے رکاب میں چنانچہ جو حساس دل رکھتے ہیں وہ اس پر چپ کیسے رہ سکتے ہیں کہ آخر اس بے مہار، باولے اور اندھے اونٹ کا کیا بنے گا اور جو اس پر سوار ہوئے ہیں کسی منزل پر پہنچنے کے لیے وہ کہاں پہنچیں گے، شیخ معظم خان نے کس موضوع کو روئے بغیر چھوڑا ہے۔

ہماری زندگی اور خاص طور پر حکومتی ’’عنایات‘‘ کا ہر ہر پہلو اس نے گہرائی سے دیکھا ہے، سمجھا ہے اور پھر اس پر قلم اٹھایا ہے اور ایک دل ایک نظر اور ایک قلم والا اس کے سوا اور کر بھی کیا سکتا ہے، پاکستان کے بنانے والوں نے ایک خاص مقصد کو سامنے رکھ کر اس کے لیے بے پناہ قربانیاں دی تھیں، بے شمار اپنی جانوں سے گزر گئے لاتعداد لٹ پٹ گئے دربدر ہوئے اس لیے کہ ان کے خوابوں میں ایک فردوس گم گشتہ تھی لیکن خوابوں سے جاگے تو ’’رضیہ‘‘ غنڈوں کے درمیان تھی، کل، کل کل اور کل کے وعدوں پر ایک ایسی سیاست کہ کسی نے کیا خوب اس کا نقشہ کھینچا ہے کہ

میرے وطن کی سیاست کا حال کیا پوچھو
گھری ہوئی طوائف تماش بینوں میں

جو تماش بین نہیں ہیں عام شریف اور کام سے کام رکھنے والے لوگ ہیں وہ انگشت بدندان اور ناطقہ سربگریاں ہیں کہ ہم تو چلے تھے چین، پہنچ گئے جاپان ۔۔۔ اعرابی بے چارہ چلا تھا عربستان کو اور جا پہنچا ترکستان، چنانچہ وہ کڑھتے رہتے ہیں اور جو ان میں بولنے والے ہیں وہ شیخ معظم خان بن جاتے ہیں، نقار خانے میں طوطی کو سنتا ہی کون ہے، بہروں کے آگے بانسری بجانا اور اندھوں کو آئینے دکھانا ہے، سو بجا رہے ہیں دکھا رہے ہیں کہ شاید ۔۔۔ شاید ۔۔۔ شاید کہ ترے دل میں اتر جائے مری بات ۔ کچھ ہوں یا نہ ہو یہ الگ بات ہے لیکن کم از کم کچھ لوگ اپنا فرض تو ادا کر رہے ہیں، اپنے درد دل کا اظہار تو کر رہے ہیں وہ جو داناؤں نے کہا ہے کہ برائی کو اگر ہاتھ سے نہیں روک سکتے تو زبان سے روکو یہ نہ کر سکو تو دل میں ہی برائی کو برائی تو کہو، ایسے حالات میں شیخ معظم خان جیسے لوگ غنیمت ہیں کہ اذان تو دے رہے ہیں چاہے کوئی جاگے نہ جاگے موذن کا فرض تو اذان دینا ہے۔

شکست و فتح نصیبوں سے ہے ولے اے میر
مقابلہ تو دل ناتواں نے خواب کیا