چوتھا جِن…ایم ابراہیم خان
کراچی میں کئی جن ایک بار پھر بوتل سے باہر آگئے ہیں۔ اور اِس سے بڑی مشکل یہ ہے کہ ہر جن نے کمال ہوشیاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی اپنی بوتل چھپا بھی دی ہے! ایک جن تو ہے بجلی کی بندش کا جس نے بوتل سے باہر آتے ہی لوگوں کو اس قدر ناک میں دم کیا ہے کہ ٹھیک سے سانس لینا بھی اچھی خاصی مشقّت کے مساوی ہوگیا ہے۔ بہت سوچنے پر بھی شہریوں کی سمجھ میں نہیں آتا کہ ماتم کریں تو کس بات کا کریں، بجلی کے جانے کا یا نہ آنے کا!
بجلی کی بندش کے جن کا کزن ہے پانی کا بحران۔ اپنے کزن کا ساتھ دینے کے لیے یہ جن بھی پوری شان اور آب و تاب کے ساتھ بوتل سے باہر آگیا ہے۔ پاکستان میں تیل تلاش کرنے والی کمپنیاں پوری طرح کامیاب ہوئی ہوں یا نہ ہوئی ہوں، بجلی کی بندش کے نتیجے میں پیدا ہونے والے پانی کے بحران نے لوگوں کا تیل ضرور نکال دیا ہے۔ ہر سال کی طرح اس سال بھی گرمی کا پوٹلا کھلنے سے پہلے ہی بجلی اور پانی کے جن بوتل سے باہر آچکے ہیں۔ اور ہر ایک کا انداز کچھ ایسا ہے کہ ؎
شاید مجھے نکال کے پچھتا رہے ہوں آپ
محفل میں اس خیال سے پھر آگیا ہوں میں!
پانی اور بجلی کے بحران نے شاید کوئی کسر اٹھا رکھی تھی اس لیے اِن کا ساتھ دینے کے لیے اب ایک اور جن میدان میں آگیا ہے۔ یہ جن ہے اسٹریٹ کرائمز کا۔ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں نے اس جن پر بڑی مشکل سے قابو پایا تھا اور اِسے دوبارہ بوتل میں بند کرکے اہلِ کراچی سکون کا سانس لینے کا موقع فراہم کیا تھا۔ مگر ایسا لگتا ہے کہ بوتل میں اسٹریٹ کرائمز کے جن کا دم گھٹنے لگا تھا اور اُس نے بھی کھل کر سانس لینے کے لیے ایک بار پھر بوتل سے باہر آکر بھرپور انٹری دی ہے۔
تو صاحب، صورتِ حال یہ ہے کہ کراچی میں تین جن بوتل سے باہر آکر اپنی مرضی کا کھیل کھیلنے میں مصروف ہیں۔ پانی و بجلی کی بندش کے ہاتھوں شدید مشکلات سے دوچار شہریوں کے لیے رہی سہی کسر اسٹریٹ کرائمز کے بلند ہوتے ہوئے گراف نے پوری کردی ہے۔ یہ تیسری گرمی ہے۔ پہلی گرمی تو قدرت کی پیدا کردہ تھی۔ بجلی و پانی کی بندش کی حِدّت کو دوسری گرمی قرار دے لیجیے۔
اب کراچی کے شہری یہ سوچنے اور پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ اِس ”تِراہے‘‘ سے کس طرف مُڑیں، کدھر کو جائیں۔ ایک مصیبت جاتی ہے تو دوسری آجاتی ہے۔ وہ رخصت ہوتی ہے تو کوئی اور پریشانی دامن گیر، بلکہ بغل گیر ہو جاتی ہے۔ دو سال قبل جب بلدیاتی انتخابات ہوئے تو امید جاگی کہ شاید اب کراچی کا مقدر بدلے گا، بنیادی مسائل حل کرنے کی طرف توجہ دینے کا سلسلہ شروع ہوگا۔ بلدیاتی قیادت آئی تو لوگوں نے سوچا اب شہر کا حلیہ تبدیل ہوگا۔ صفائی ستھرائی پر توجہ دی جانے لگی گی۔ پانی ملے گی اور بجلی کا نظام بھی درست ہوگا۔ مگر ایسا کچھ بھی نہ ہوا … یا نہ کیا جاسکا۔ کیوں؟ اس کیوں کا جواب کسی کے پاس نہیں۔ بلدیاتی انتخابات کے نتیجے میں کراچی کو ایم کیو ایم کا میئر ملا۔ مینڈیٹ ملنے پر بھی جب مسائل حل کرنے کی سبیل نہ نکالی جاسکی تو لوگوں نے استفسار کرنا شروع کیا۔ بلدیاتی قیادت کی طرف سے جواب ملا کہ اختیارات کا معاملہ اٹکا ہوا ہے اور اس کے نتیجے میں فنڈز بھی رکے ہوئے ہیں۔ کراچی کے میئر وسیم اختر نے کئی بار کہا کہ صوبائی حکومت اختیارات دینے پر آمادہ ہے نہ فنڈز۔
اختیارات کی لڑائی دراصل کیا ہے اور کیا نہیں یہ تو ہم نہیں جانتے اور دیگر اہلِ کراچی بھی ہم جیسے ہی ہیں یعنی لاعلم و بے خبر مگر ہاں، اتنا ہم ضرور جانتے ہیں کہ کوئی امید بر نہ آئی اور معاملات جہاں تھے وہیں ہیں۔ تمام بنیادی مسائل اب تک حل کیے جانے کے منتظر ہیں۔
کراچی کو، بظاہر، منصوبے کے تحت مسائلستان میں تبدیل کیا گیا ہے۔ بہت سے بنیادی مسائل آسانی سے حل کیے جاسکتے تھے مگر انہیں غیر حل شدہ چھوڑ کر بڑا ہونے دیا گیا۔ اور اب ہر بنیادی مسئلہ ایک بڑے عفریت کی طرح منہ کھولے کھڑا ہے۔ شہر کو بہتر بنانے کے تمام منصوبے کچھ ہی دیر میں اپنا اثر کھونے لگتے ہیں۔ مسائل کے پنپنے کی راہ چھوڑی جاتی ہے تاکہ اصلاحِ احوال کی کوئی بھی صورت حقیقی معنوں میں کامیاب و کارگر ثابت نہ ہوسکے۔
ڈھائی تین سال قبل شہر کو بے امنی اور جرائم سے پاک کرنے کے لیے چلایا جانے والا بھرپور آپریشن کامیابی سے ہم کنار ہوا۔ یہ کامیابی انتہائی حیرت انگیز تھی۔ اہلِ کراچی کو ابتداء میں تو یقین ہی نہ آیا کہ ایسا بھی ہوسکتا ہے یعنی قتل و غارت، ٹارگٹ کلنگ، اغواء برائے تاوان، بھتہ خوری، چوری چکاری، لوٹ مار … سبھی کچھ اِس حد تک کم ہوسکتا ہے کہ سکون کا سانس لینا نصیب ہو۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے دی ہوئی ہدایات کے مطابق کام کیا اور بھرپور کامیابی نصیب ہوئی۔ مگر اب تین سال گزرنے پر ایک بار پر تمام برائیاں ابھرتی ہوئی محسوس ہو رہی ہیں۔ معاملات جس تیزی سے بگڑ رہے ہیں اُسے دیکھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے اُنہیں بگاڑا جارہا ہے۔ شہر کی درستی بعض حلقوں کو پسند نہیں آئی۔ وہ ایک بار پھر جرائم کا بازار گرم دیکھنا چاہتے ہیں۔ شہر میں قتل و غارت برائے نام ہے اور ٹارگٹ کلنگ بھی بہ قدرِ اشکِ بلبل رہ گئی ہے مگر نادیدہ ہاتھ اپنا کام کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ محسوس کیا جاسکتا ہے کہ شہر کو ایک بار پھر خرابیوں کی دلدل میں دھکیلنے کی تیاری کی جارہی ہے۔ بجلی اور پانی کے بحران کو حل کرنا تو بہت دور کی بات ہے، صفائی ستھرائی پر ہی توجہ نہیں دی جارہی۔ شہر بھر میں مکھی مچھر اور کیڑوں مکوڑوں کی بھرمار ہے۔ صحتِ عامہ کے حوالے سے پیچیدگیاں بڑھتی جارہی ہیں۔ لاکھوں افراد مختلف عوارض میں مبتلا ہیں۔ سانس کے امراض خاص طور پر پھیل رہے ہیں۔ کراچی کی بلدیاتی قیادت اور صوبائی حکومت کے درمیان معاملات اب تک طے نہیں پاسکے ہیں۔ ہم آہنگی جس قدر دکھائی دینی چاہیے اس سے کہیں کم بھی نظر نہیں آرہی۔
گرمی کے ساتھ ساتھ انتخابات کا موسم بھی آیا چاہتا ہے۔ ایم کیو ایم شہر کی سب سے بڑی، بلکہ واحد اسٹیک ہولڈر رہی ہے مگر اب وہ بھی شدید شکست و ریخت کا شکار ہے۔ جس پارٹی سے لوگوں نے امیدیں وابستہ کر رکھی ہوں اگر وہی اندرونی اور بیرونی کمزوریوں کی نذر ہو جائے تو لوگ کیا کریں؟
بجلی کی لوڈ شیڈنگ، پانی کی بڑھتی ہوئی قلت اور اسٹریٹ کرائمز … یہ تین جن شاید ناکافی تھی اس لیے اب چوتھا جن تیار ہو رہا ہے۔ یہ جن ہے شہری قیادت کے خلاء کا۔ آئندہ عام انتخابات میں کراچی کی تمام نشستوں کی ایسی بندر بانٹ ہوتی دکھائی دے رہی ہے کہ شہر کی بات کرنے والا کوئی نہ رہے گا۔ ایم کیو ایم کے کم از کم پانچ دھڑے ہوچکے ہیں۔ پی پی پی اور پی ٹی آئی کے علاوہ اے این پی بھی ہے۔ اگر تمام نشستیں ان میں تقسیم ہوگئیں یعنی تتر بتر ہوگئیں تو شہر کے لیے پوری قوت سے آواز اٹھانے والی پارٹی ڈھونڈے نہ ملے گی۔