منتخب کردہ کالم

چودھری نثار کو نظر انداز کیوں‌کیا گیا؟ اجمل جامی

چودھری نثار کو نظر انداز کیوں‌کیا گیا؟ اجمل جامی

چار لوگوں کو علم ہے کہ پاکستان کو کن حالات سے دو چار کیا جا رہا ہے ۔ یہ پانامہ کا فیصلہ آنے سے ایک شام پہلے دل گرفتہ چوہدری نثار علی خان کہہ رہے تھے ۔ ایک وہ، دوسرے نواز شریف اور باقی دو سے ان کی مراد چیف آف آرمی سٹاف اور ڈی جی آئی ایس آئی تھے ۔ نواز شریف اور ”پاور ہائوسز‘‘ کو متنبہ کر تے ہوئے وہ مسلسل ڈھکے چھپے لفظوں میں ایک خوفناک مستقبل کی تصویر کشی کر رہے تھے ۔ ذاتی دانست میں ان کی پریس کانفرنس انتہائی نپی تلی اور معنی خیز تھی ۔ یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ چوہدری نثار ن لیگ سے مکمل دوری کا فیصلہ کر چکے تھے ، لیکن مشکل وقت اور دوستوں کے اصرار کے سامنے وہ بے بس ہوئے اور اب رنجیدہ دل کے ساتھ نواز شریف کے ہم قدم ہیں۔
وہ تب بھی ہم قدم تھے جب مشرف دور میں نواز شریف کے بڑے بڑے متوالے ساتھ چھوڑ گئے ، وہ تب بھی ہم رکاب تھے جب نواز شریف کو ائیر پورٹ سے باہر نہ نکلنے دیا گیا، ان کی وفاداری تب بھی غیر مشروط رہی جب کنٹینروں پر انہیں پکار پکار کر پارٹی بدلنے پر اکسایا جا رہا تھا۔وہ آج بھی نواز شریف اور پارٹی کے ساتھ ہیں جب ہواؤں کا رخ بدل رہا ہے اور جب آسمان پر بربادیوں کے چرچے ہیں۔
یہ چوہدری نثار ہی تھے جو خوشامدیوں کے جھرمٹ میں اختلاف رائے کرتے رہے ۔ یہ وہی چوہدری نثار ہیں جنہوں نے آج سے دس بارہ سال پہلے لندن میں ن لیگ کی ایک اہم بیٹھک میں ببانگِ دہل دل کی بات کہہ ڈالی۔ مشرف دور میں ن لیگ کے درجن بھر ایم این ایز اور بچے کھچے سرکردہ رہنما نواز شریف اور شہباز شریف کے ہمراہ ایون فیلڈز کے فلیٹس میں سر جوڑے مستقبل کی سیاسی حکمت عملی پر غور کر رہے تھے ، اس وقت کے ایک پارٹی ترجمان کے پاس مائیک پہنچا تو وہ اٹھ کھڑے ہوئے ، نوازشریف نے مشورہ دیا کہ آپ بیٹھ کر بات کرلیں۔ موصوف (اس وقت کے ترجمان) بضد رہے کہ بات کھڑے ہو کر زیادہ موثر ہوگی۔ بہر حال! مائیک سنبھالتے ہی اندرون لاہور کا یہ متوالا اپنے روایتی انداز میں پھٹ پڑا۔ کہا میاں صاحب! میں کیا مشورہ دوں ؟ کیا پالیسی لائن دوں؟ کیا سیاسی حکمت عملی پیش کروں؟ ایسی کیا بات بتائوں جس پر عمل کرکے ہم سرخرو ہوسکیں۔ پارٹی جو بھی فیصلہ کرتی ہے میں ان منتخب ایم این ایز سے گزارش کرتا ہوں کہ جناب آپ فلاں معاملے پر فلاں سیاسی لائن لیجئے اور پریس کے لئے بیان جاری کریں تو یہ حضرات جو اس وقت آپ کی شان میں قصیدہ خواں ہیں،مجھے کہتے ہیں کہ بھائی ! مشرف کا دور ہے ، جان بچانا مشکل ہے ، ہم پارٹی کے حق میں اپنے نام سے کوئی بھی اخباری بیان جاری نہیں کر سکتے ۔ میاں برادران سے کہہ دینا کہ فون بند تھا اور صاحب حلقے کے کسی دور دراز گائوں میں ہیں۔ پارٹی ترجمان یہ بات کہتے ہوئے جذباتی ہو گئے اور بار بار کہتے رہے کہ میاں صاحب میں پارٹی ترجمان ہوں لیکن جب پارٹی کی ترجمانی کے لئے ان رہنمائوں کی سپورٹ مانگتا ہوں تو یہ آئوٹ آف کانٹیکٹ ہونے کا بہانہ پیش کرتے ہیں، اور یہاں آپ کے ہاں آتے ہی آپ کی خوشامد پر مامور ہو جاتے ہیں، پہلے ان سے پوچھئیے کہ کیا ایسا نہیں؟ ابھی یہ صاحب اپنی جذباتی تقریر جاری رکھے ہوئے تھے کہ چوہدری نثار علی خان اٹھ کھڑے ہوئے ۔ کہا میاں صاحب! اگر آپ کو اس نوجوان جیسے کام کے چار بندے بھی مل جائیں تو یاد رکھیں مسلم لیگ ن کبھی کسی محا ذ پر ناکام نہیں ہوگی۔ لیکن اس موقع پر چونکہ بات سننے والوں کے چہرے لال ہو چکے تھے لہٰذا بات آئی گئی ہو گئی ۔
جو شکایت چوہدری نثار علی خان کو دس بارہ سال پہلے تھی آج دو ہزار سترہ میں بھی وہ اسی جانب اشارہ کرتے رہے ۔ تو پھر بدلا کیا؟ سیاست میں تو یقینا بہت کچھ سیکھ لیا گیا لیکن مزاج شاید وہی رہے ۔ آج بھی چوہدری نثار خوشامدیوں سے نالاں تھے ۔ آج بھی چوہدری نثار دہائی دے رہے تھے کہ میاں صاحب! ان سے بچیں، اس ٹولے کی خود ساختہ ترجمانی نے مروا ڈالا، ان سے بچیں۔ سینئرز کو کھڈے لائن لگانے سے گریز کیجئے ۔ مخاصمت حل نہیں۔لیکن انہیں نہیں سنا گیا۔ اور بدقسمتی سے انہیں اب بھی نہیں سنا جائے گا۔
امریکہ بہادرنے پاکستان پر ایک پرائی جنگ تھوپی، اور اب وہ افغانستان کی آگ میں پاکستان کو دھکیلنا چا ہ رہا ہے ۔ باخبر اور صاحب بصیرت درویش بتاتے ہیں کہ امریکہ افغان جنگ کو پاکستان تک لانے پر مصر ہو چکا۔ یہی وہ بھیانک منظر نامہ ہے جس کی جانب چوہدری نثاردبے لفظوں میں اشارہ کرتے رہے ، رہی سہی کسر افغانستان میں امریکہ بھارت گٹھ جوڑ سے پوری ہونے کو ہے ۔ لیکن ہم ہیں کہ ہمیشہ کی طرح پانی سر سے گزرنے کے بعد ہوش کا در کھولیں گے ۔ نوازشریف صاحب کے پاس نا اہلی کے بعد ایک موقع تھا کہ وہ زیتون کی شاخ پیش کرتے ، چوہدری نثار علی خان کو باقی ماندہ مدت کے لئے وزیر اعظم نامزد کر دیتے ۔ تقریباً تمام سیاسی جماعتیں قبول کرتیں، پاور ہائوسز بھی خوش آمدید کہتے ۔مفاہمت کی کوئی صورت نکلتی اور ایک صفحے پر نہ ہونے کا طوفان شانت ہوا کی صورت اختیار کرلیتا۔ پنجاب ہاتھ میں رہتا کیونکہ شہباز شریف نے صوبے بھر کو مٹھی میں بند کر رکھا تھا، شہباز شریف کے وفاق میں جانے سے ن لیگ کی مضبوط پچ مخالفوں کے لیے سازگار ہو سکتی ہے ۔ ‘پاور پلئیرز’ زور دار چوکوں چھکوں سے پنجاب کے کئی بالرز کو دھول چٹا سکتے ہیں ۔ لیکن نہیں معلوم کہ میاں صاحب کو قومی اور صوبائی اسمبلی کے تقریباً پانچ سو پارلیمنٹرینز میں صرف شہباز شریف اور ان کے صاحبزادے حمزہ شہباز ہی کیوں پسند آرہے ہیں؟ کیا باقی سب نا اہل ہیں؟ کیا ان میں سے کوئی ایک بھی قابل بھروسہ نہیں؟ اور اگر جواب ہاں میں ہے تو میاں صاحب سوچنے کا مقام ہے ، پھر یہ آپ کے سپاہی نہیں بلکہ بیساکھیاں ہیں۔ نواز لیگ کے پاس موقع تھا کہ چوہدری نثار کی رائے پر غور کرتے کیونکہ شہباز شریف کا مستقبل بھی خطرات سے پُر ہے ، کل کلاں اگر حدیبیہ پیپر ملز کی تلوار آن گری تو پھر کیا ہوگا؟ پھر وزارت عظمیٰ کون سنبھالے گا؟
مسلم لیگ کا کوئی بھی فیصلہ اب صرف شریف خاندان کا فیصلہ نہیں، کیوں کہ ن لیگ قومی اثاثہ بن چکی ہے ، یہ واحد جماعت ہے جو اس وقت اسٹیبلشمنٹ کی بیساکھیوں کی محتاج نہیں اور اگلے انتخابات جیتنے کی پوزیشن میں اب بھی آسکتی ہے ، اسے بچانے کی پرواہ کیجئے ورنہ آسمانوں پر بربادیوں کے چرچے عام ہوتے جا رہے ہیں۔
جو شکایت چوہدری نثار علی خان کو دس بارہ سال پہلے تھی آج دو ہزار سترہ میں بھی وہ اسی جانب اشارہ کرتے رہے ۔ تو پھر بدلا کیا؟ سیاست میں تو یقینا بہت کچھ سیکھ لیا گیا لیکن مزاج شاید وہی رہے ۔ آج بھی چوہدری نثار خوشامدیوں سے نالاں تھے ۔ آج بھی چوہدری نثار دہائی دے رہے تھے کہ میاں صاحب! ان سے بچیں، اس ٹولے کی خود ساختہ ترجمانی نے مروا ڈالا، ان سے بچیں۔ سینئرز کو کھڈے لائن لگانے سے گریز کیجئے ۔ مخاصمت حل نہیں۔لیکن انہیں نہیں سنا گیا۔ اور بدقسمتی سے انہیں اب بھی نہیں سنا جائے گا۔