چوہدری صاحب کا سچ اور پی آئی اے…عظیم ایم میاں
امریکہ ہم پاکستانیوں کی قومی اور سیاسی زندگی کا اتنا لازمی اور نمایاں حصہ چلا آرہا ہے کہ کوئی بھی فوجی یا سویلین حکمراںاپنی تحریروں اور دور حکمرانی میں امریکی رول کو اعلانیہ تسلیم کئے بغیر نہیں رہ سکا۔ فیلڈ مارشل صدر ایوب خان کی کتاب ’’ فرینڈ ناٹ ماسٹرز‘‘ ہویاذوالفقار علی بھٹو کی‘‘ اگر مجھے قتل کیاگیا‘‘ پھر صدر جنرل پرویز مشرف کی ‘‘ ان دی لائن آف فائر‘‘ سبھی نے اپنے اپنے دور حکمرانی میں اس امریکی رول اور بالا دستی کا کسی نہ کسی شکل میں اعتراف کیاہے۔ چند روز قبل سابق وزیراعظم اور40سال سے پاکستانی سیاست کے اہم کردار چوہدری شجاعت حسین کی کتاب ’’ سچ تو یہ ہے ‘‘ بھی امریکی رول بارے متعدد انکشافات لئے ہوئے ہے جن میں پاکستانی انتخابات2008سے دوروز قبل تین اہم ڈیموکریٹ سینیٹرز جوزف بائیڈن، چک ہیگل اور جان کیری کا دورہ پاکستان، ملاقات اور الیکشن سے قبل نتائج بارے پیغام اور دھمکی کے علاوہ بے نظیر بھٹو اور پرویز مشرف حکومت کے مابین مذاکرات کے ساتھ ساتھ چوہدری شجاعت کا یہ سچا مشاہدہ بھی قابل توجہ ہے کہ پرویز مشرف یہ سمجھنے لگے تھے کہ ’’ ان کی آئندہ سیاسی بقا کی ایک ہی صورت ہے کہ وہ امریکہ اور بے نظیربھٹو کے ساتھ’’ کچھ لو اور کچھ دو‘‘ کی بنیاد پر آئندہ کیلئے معاملات طے کرلیں۔ اس طرح ان کی
دوسری میعاد صدارت پکی ہوجائے گی‘‘۔ بقول چوہدری شجاعت یہی غلطی پرویز مشرف کے اقتدارکے زوال کا باعث بنی۔چند تصاویر سمیت328صفحات پر مشتمل یہ خود نوشت چوہدری شجاعت کے پردادا چوہدری حیات محمدخاں کے ذکر سے شروع ہوکر ایوب خان کے دور حکمرانی سے لیکر بھٹو، نواز شریف اور مشرف ادوار حکومت تک کے عرصہ کے دوران اپنے مشاہدات اور تجربات کے ساتھ اب امریکہ بھی پہنچ چکی ہے اور امریکہ کے پاکستانیوں کیلئے ان انکشافات کے علاوہ صفحہ231پر تحریر بہت توجہ اور تبصروں کا باعث بنی ہوئی ہے۔ اپنی45دنوں کی وزارت عظمیٰ کے دور میں پاکستان کیلئے ہر سال کروڑوں ڈالرز کماکر بھیجنے والے اوورسیز پاکستانیوں کی خدمت کے طور پر چوہدری شجاعت نے اپنے ان احکامات کا ذکر کیا ہے جن کے تحت پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ یہ سروس فراہم کی کہ بیرون ملک وفات پانے والےپاکستانیوں کی میت پی آئی اے بلا معاوضہ پاکستان پہنچانے کی خدمت انجام دے۔ اس سے قبل میت پاکستان پہنچانے پر خاصی رقم صرف ہوتی تھی اور قانون کے مطابق وفات پانیوانے شخص کے بینک اکاونٹس کو وراثت طے ہونے تک ’’ فریز‘‘ بھی کردیا جاتا تھا لہٰذا لواحقین اور دوستوں کو ہی یہ بھاری اخراجات ادا کرنا پڑتے تھے۔ اس مفت سروس کے اقدام سے چوہدری شجاعت حسین کیلئے اوورسیز پاکستانیوں میں اچھا تاثر پیدا ہوا۔ کتاب میں تحریر یہ بات بھی درست ہے کہ وزیر اعظم چوہدری شجاعت کے اس حکم اور اقدام کو آنے والی پاکستانی حکومتیں بھی تبدیل نہیں کرسکیں لیکن حکومتی غلط پالیسیوں، پی آئی اے کے نظام اور افراد کے سیاسی استعمال بدانتظامی اورکرپشن نے پی آئی اے کو اتنا بدحال کردیا ہے کہ پی آئی اے کی امریکہ کیلئے پروازیں مکمل طور پربند کردی گئیں متعدد انٹرنیشنل سیکٹرز پر’’ کوڈ شیرنگ‘‘ کے ذریعے دوسری ایئرلائنوں کی پروازوں پر پی آئی اے کا فلائٹ نمبر زندہ رہ گیا ہے۔ امریکہ کے اوور سیز پاکستانیوں کو پاکستان آنے جانے اور پیاروں کی امریکہ میں وفات کی صورت میں میتوں کو پاکستان لے جانے کیلئے دیگر ایئرلائنوں کے رحم وکرم پر چھوڑ دیاگیا ہے۔ میت کو پاکستان لے جانے پر وزن کی مناسبت سے بھاری اخراجات بھی غم زدہ لواحقین اور دوستوں کی اضافی ذمہ داری ٹھہرے اور ان ایئرلائنوں کی شرائط کی تعمیل وتکمیل ایک علیحدہ داستان ہے۔
امریکہ میں زندگی کے چالیس سال سے زائد کا عرصہ پی آئی اے اور پاکستانی کمیونٹی کے نشیب و فراز کو دیکھتے ہوئے گزرا ہے۔ جب نیو یارک سے پاکستان کے کسی بھی ایئر پورٹ تک اور پھر نیویارک واپسی کا ’’ رائونڈ ٹرپ‘‘ کرایہ500امریکی ڈالرز سے بھی (کم اکنامی کلاس کا کرایہ تھا) پاکستانی کمیونٹی کی امریکہ میں آبادی ابھی کم تھی لیکن پی آئی اے کی پروازوں پر خوب گہماگہمی ہواکرتی ۔ دور دراز کی امریکی ریاستوں سے بھی پاکستان جانے کیلئے خاندان سفرکرکے نیو یارک پہنچتے اور خوشی خوشی پی آئی اے سے پاکستان کا سفر کرتے ۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی اور وزیر اعظم محمد خان اور کئی دیگر اہم شخصیات کےامریکہ میں انتقال کی صورت میں نیو یارک ایئر پورٹ پر پی آئی اے کارگوسیکشن میں ضرورت کے وقت نماز جنازہ بھی ادا کی گئی ۔ میتوں کو پاکستان بھیجنے کیلئے پی آئی اےکارگوریٹ کا50فی صدچارج کیا کرتی مگر لوگ مطمئن اور پی آئی اےکی سروس کے شکرگزار تھے۔ جب پی آئی اے نے نیو یارک کے مشہور ففتھ ایونیو(5ایونیو) پر اپنا ریزرویشن آفس کھولا تو1975میں دور دور سے پاکستانی اپنے قومی فلیگ کیرئیر یعنی پی آئی اے کے اس آفس کو دیکھنے کیلئے آتے اور خوش ہوتے امریکہ کے پاکستانیوں نے بڑھ چڑھ کر تعاون بھی کیا اور ہفتہ وار پروازوں کی تعداد بھی بڑھا کر دوگنا بلکہ اس سے بھی زائد کردی گئیں پھر پی آئی اے امریکہ میں افسروں اور اسٹاف کا اضافہ، سفارشی تقرریاں،گرین کارڈز کے حصول کیلئے پی آئی اے کی ملازمت کا بے دریغ استعمال بھی شروع ہوگیا۔ پی آئی اے انویسٹمنٹ کے ہوٹل روزویلٹ کے بے رحمانہ استعمال اقرباپروری، بدانتظامی اور کرپشن کی کہانی ایک الگ باب ہے۔ پی آئی اے پروازوں کے امریکہ آپریشن میں مالی نقصانات کی داستان بھی خود پی آئی اے کے منتظمین اور ملازمین کے ہاتھوں لکھی گئی اور وہی اس کے ذمہ دار بھی ہیں کہ انہوں نے وقت کے حکمرانوں کی خواہشات کے مطابق پی آئی اے کو استعمال کرنے کی کھلی چھٹی دی ایک زمانے میں فوکر طیاروں سمیت48طیاروں کی پی آئی اے میں120جنرل منیجرز اور نہ جانے کتنے ڈائریکٹرز موجود تھے۔ بقیہ کئی ہزار ملازمین اور سفارشی تقرریوں کا ’’ اوور لوڈ‘‘ علیحدہ تھا۔ ایئرمارشل نورخان کی سربراہی کے دور سے ترقی کرنے والی پی آئی اے 63سالوں میں25سے زائد مینیجنگ ڈائریکٹرکی سربراہی میں نشیب وفراز سے گزرتی ہوئی اب اس حالت کو جا پہنچی ہے کہ کرپشن اور بدانتظامی کے ہاتھوں تباہی کی شکار اس قومی ایرلائن کو بیچنے کی کوششیںکی جارہی ہیں۔ محترم چیف جسٹس نے پی آئی اے کے گزشتہ دس سال کے آڈٹ شدہ اکائونٹس کی عدالت کو فراہمی اور منتظمین کی پیشی کا حکم دیا ہے۔ جو کہ پی آئی اے کی تباہی کے محض مالی اور کاغذی ثبوت جاننے میں مدد کریگا۔ پی آئی اے کی تنزلی کے اسباب میں دیگر عوامل بھی شامل ہیں جن کی نشاندہی اور ذمہ داروں کا احتساب ضروری ہے۔ مرحوم ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں پاکستان کے شمالی علاقوںمیں زلزلے کی تباہی سے لیکر پاکستان میں سیلابوں زلزلوں اور قدرتی آفات کا ریکارڈ دیکھ لیں ہرہر موقع پر اوور سیز پاکستانیوں نے اربوں ڈالرز کے امدادی سامان اپنے مصیبت زدہ ہم وطنوں کیلئےپی آئی اے کے حوالے کئے ہیں۔ تمام تر شکایات کے باوجود پی آئی اے کی سرپرستی کرنے کے جذبہ کے تحت پی آئی اے سے سفر کرکے پی آئی اے کو اربوں ڈالرز کی سالانہ آمدنی فراہم کی لیکن پی آئی اے کی اپنی بدانتظامی، غلط فیصلوں،،سیاسی استعمال اور کرپشن نے پی آئی اے کوتباہ کرڈالا ہے۔
محترم چیف جسٹس آف پاکستان سے درخواست ہے کہ وہ پاکستان کے نیشنل فلیگ کیریر کے محض مالی نقصانات پر سماعت کرکے فیصلہ کرنے کی بجائے اس کی تباہی وبدانتظامی کے دیگر پہلوئوں پربھی توجہ فرمائیں کہ 140ارب کے سالانہ مالی نقصانات کے ساتھ ساتھ پی آئی اے کی تباہی اور کرپشن کی کہانی نے پاکستانی وقار، پاکستانیوں کے پاکستان سے رابطوں، پاکستانی مفادات اور امیج کو کتنا نقصان پہنچایا ہے اور اس کے ذمہ دار کونسے سیاستدان، حکمران اور منتظمین ہیں؟ ان تمام ذمہ داروں کی وہ مراعات بھی بند کریں جواپنی بدانتظامی اور غلط فیصلوں سے تباہ کردہ پی آئی اے سے وہ آج حاصل کررہے ہیں۔
1۔ڈی سی10اوربوئنگ طیاروں کی لیز اور خریداری کے معاہدوں میں کرپشن اور ذاتی مفاد کا رول اور اسکے ذمہ داروں کی نشاندہی ہونا چاہئے بوئنگ کے777ساخت کے طیاروں کی خریداری کے مالی اور سیاسی حقائق اور اس کے ذمہ داروں کو قوم کے سامنے پیش کرکے سزا دینے سے تطہیر کا عمل طاقتور ہوگا۔
2۔پی آئی اے انویسٹمنٹ کے نیو یارک اور پیرس کے ہوٹلوں سمیت اسکی سرمایہ کاری، کرپشن اور بدانتظامی بارے تلخ حقائق اور ذمہ دار کرداروں کو بے نقاب کرنا چاہئے تاکہ عوام جان سکیں کہ عوامی توجہ سے دور اداروں میں خاموشی کے ساتھ قومی اثاثوں اور خزانے کے ساتھ اسکے اپنے ہی ملازمین کیا سلوک کرتے ہیں۔
3۔ 777ٹائپ کے لمبی اڑان والے بوئنگ طیاروں کی امریکہ اور پاکستان کے درمیان نان ا سٹاپ فلائٹ کی اجازت دلانے کے وعدوں کا انجام کیا ہوا اور پاکستانی سائڈ سے اس پر مصالحت کس نے اور کیوں کی؟
4۔ نیو یارک میں36ملین ڈالرز سے خرید کردہ ہوٹل روزویلٹ( موجودہ مالیت تقریباً330ملین ڈالرز) کی کرپشن کہانی، ناجائز استعمال اور اسےفروخت کرنے اور پی آئی اے کے مفاد کی حفاظت کی بجائے سازشوں اور کرپشن کے ذمہ دار پاکستانیوں کی نشاندہی بھی انصاف اور قوم کی بڑی خدمت ہوگی۔
پی آئی اے کے گزشتہ دس سال کے آڈٹ شدہ مالی گوشوارے بھی بہت سے اہم حقائق اور پی آئی اے کی تباہی کے اسباب سے پردہ اٹھادیں گے لیکن اس تباہی کے سماجی ،سیاسی، اور انسانی پہلوئوں کا احاطہ بھی ہوجائے تو اس کی تباہی کی داستان اور کرداروں کا قوم کو پتہ بھی چل سکے گا اور آئندہ کیلئے بہتر سوچ کی امید بھی جنم لے گی۔