یہ ترقی پسند تحریک کی عطا ہے جس نے ہمیں ایسے بے مثال شاعر، ادیب اور دانشور دیے جن کے افکار و اشعار سے آج کی نسل بھی اپنی راہوں میں چراغ جلاتی ہے اور آنے والی نسلیں بھی اس روشنی میں اپنے سفرکا تعین کریں گی۔
ان ترقی پسندوں میں ایک مخدوم محی الدین بھی ہیں۔ وہ حیدر آباد دکن کے ایک گائوں اندولے میں فروری 1908 کو ایک ایسے علاقے میں پیدا ہوئے جہاں نظام شاہی کا سکہ رواں تھا اور وہاں سانس لینے والے دہری غلامی میں زندہ تھے یا شاید یہ کہنا زیادہ درست ہوکہ سانس بھی مشکل سے لیتے تھے۔
ایک مذہبی گھرانے کی ابتدائی تعلیم و تربیت کے بعد مخدوم عثمانیہ یونیورسٹی پہنچے، وہاں سے ایم اے کر کے نکلے، موزوں طبعی انھیں شاعری کے سمن زار میں لے گئی اور ترقی پسند تحریک نے انھیں سیاست کے خار زار میں اترنے پر مجبورکیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب دنیا کے تمام نوجوانوں کی طرح ہندوستان کے نوجوان بھی فاشزم کے خلاف شدید رد عمل کا مظاہرہ کر رہے تھے۔
مخدوم نے انھی جذبات کو شاعری کا لباس پہنایا اور 1944 میں ان کا پہلا مجموعہ ’’ سرخ سویرا ‘‘ شائع ہوا جو پہلے دن سے انقلابی نوجوانوں میں مقبول ہوا اور ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔ وہ آندھرا پردیش کی انقلابی تلنگانہ تحریک سے وابستہ ہوئے اور آج بھی اس تحریک سے ان کی وابستگی ان کی ذات کا اہم حوالہ ہے۔ ان کا دوسرا مجموعہ ’’ گل تر ‘‘ 1961 میں شائع ہوا اور بعد میں ان کی کلیات ’’ بساط رقص‘‘ کے نام سے شائع ہوئی۔
40 کی دہائی میں ان کی نظم ’’ اندھیرا ‘‘ ہندوستان کے طول و عرض میں مشہور ہوئی اور بقول علی ظہیر یہ نظم 1935 میں ہسپانیہ میں ہونے والے عوامی احتجاج کو فاشسٹوں کی جانب سے کچلنے کے رد عمل کے طور پر لکھی گئی تھی ۔ لورکا جو ہسپانوی عوام کا ضمیر تھا اسے فاشسٹوں نے نہایت وحشیانہ طریقے سے قتل کیا تھا۔ ساری دنیا کے ادیب، دانشور اس کے خلاف اپنے اپنے انداز میں احتجاج کر رہے تھے۔ پکاسو نے اپنی مشہور پینٹنگ گوئرنیکا بھی اسی واقعے سے متاثر ہوکر بنائی تھی۔
الیکسی سوخا چیف کہتے ہیں کہ ’’ مخدوم کو اس ملک کی خانہ جنگی سے کتنی دلچسپی تھی اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان کے لکھنے پڑھنے کی میزکے سامنے پکاسوکی مشہور تصویرگوئر نیکا کی نقل آویزاں رہتی تھی اور نظم ’’ اندھیرا ‘‘ میں جو انھوں نے ’’ دھواں‘‘ کے کچھ عرصے بعد ہی لکھی تھی دراصل ان ہی خیالات کو الفاظ میں ظاہرکیا گیا ہے جنھوں نے پکاسو کے یہاں تصویر کا روپ دھارا ہے۔
دوسری عالمی جنگ کے دوران تاجِ برطانیہ نے اپنی عظیم الشان سلطنت کو بچانے کے لیے ہمارے لاکھوں خاندانوں کو آنسو اور عمر بھرکا یہ غم دیا کہ وہ اپنے پیاروں کے آخری دیدار سے بھی محروم رہے۔ اُس زمانے میں ہمارے غریب اور بد حال لوگوں نے کس دل سے اپنے پیاروں کو موت کی طرف بڑھتے دیکھا ہوگا۔ صرف اس لیے کہ پیٹ کا جہنم بھرا جاسکے۔ اس موقع پر مخدوم محی الدین کی نظم کا ایک بند یاد آتا ہے کہ
جانے والے سپاہی سے پوچھو/ وہ کہاں جارہا ہے/ کون دکھیا ہے جو گا رہی ہے/بھوکے بچوں کو بہلا رہی ہے/ لاش جلنے کی بو آرہی ہے/زندگی ہے کہ چلا رہی ہے/ جانے والے سپاہی سے پوچھو/ وہ کہاں جارہا ہے۔
آندھرا پردیش والے ہر سال ان کی پیدائش کا جشن بڑے اہتمام سے مناتے ہیں۔ حیدرآباد اور گرد و نواح کے شاعر ، ادیب، سیاسی کارکن، کمیونسٹ پارٹی کے رہنما جلوس کی شکل میں ٹانک بند جاتے ہیں اور وہاں ان کے مجسمہ کے سامنے تقریریں ہوتی ہیں۔ پھول چڑھائے جاتے ہیں۔ شاعر انھیں منظوم خراج عقیدت پیش کرتے ہیں اور مخدوم کی نظمیں گائی جاتی ہیں۔ ان کی 94 ویں سالگرہ بھی بڑی دھوم دھام سے منائی گئی تھی اور آل انڈیا پروگریسیو رائٹرز سوسائٹی کے صدر نامور سنگھ نے اس تقریب کا افتتاح کیا تھا۔
اس جلسے میں تیلگو، ہندی، مراٹھی، کنٹر اور اردو کے بہت سے جانے پہچانے ادیب شامل ہوئے تھے۔ اس سے ایک برس پہلے مخدوم کی سالگرہ کا جشن ہندوستان کے عالمی شہرت یافتہ بزرگ مصور ایم ایف حسین کے سینما گھر میں منایا گیا تھا اس روز سینما گھر کے دروازے ہر اس شخص کے لیے کھلے ہوئے تھے، جو مخدوم سے اور ان کی شاعری میں دھڑکتے ہوئے انقلاب کی روح سے اپنا رشتہ جوڑنا چاہتا تھا۔ مخدوم کے مشہور شعر
حیات لے کے چلو،کائنات لے کے چلو
چلو تو سارے زمانے کو ساتھ لے کے چلو
میں جن خوابوں کی بات کی گئی ہے، ان کے بارے میں ایم ایف حسین نے اس رات لفظوں سے مصوری کی تھی اور اس رات حسین کی بنائی ہوئی بہت سی تصویریں بھی وہاں نمائش کے لیے رکھی گئی تھیں۔ ان روغنی تصویروں میں مخدوم کے خیالات اور احساسات کی جھلک دکھائی دیتی تھی۔ اس رات ایم ایف حسین اپنی اور مخدوم کی دوستی کے ان دنوں و یاد کر رہے تھے، جب ان دونوں نے 40 اور 50 کی دہائی میں چین کا اکٹھے سفرکیا تھا۔ انھوں نے ایک انقلاب و چین کی سر زمین پر ظہور پذیر ہوتے دیکھا تھا اور دونوں ترقی پسند شاعری میں اس انقلاب کے خدوخال ڈھونڈتے رہے تھے۔
شاید یہ حسین ہی تھے جنھوں نے کہا تھا کہ مسلح تلنگانہ تحریک کے سرگرم رہنما مخدوم ، شاعر مخدوم اورکمیونسٹ پارٹی کے رکن مخدوم نے اپنی تمام شاعری سیاسی سرگرمیوں کے دوران کی۔ انھوں نے بتایا تھا کہ فلم ’’ بازار‘‘ میں ان کے وہ اشعار جو زبان زد عام ہوئے ’’ پھر چھڑی رات، بات پھولوں کی ‘‘ انھوں نے اس گفتگو سے متاثر ہو کر لکھی تھی جو 1963 میں شکیلہ بانو بھوپالی، شاہد صدیقی اور خود مخدوم کے درمیان ہوئی تھی۔
مخدوم 61 برس جیے اور ایک ہنگامہ خیز زندگی گزاری، وہ مشاعرے پڑھتے رہے اور تلنگانہ کی مسلح جدوجہد کا حصہ رہے وہ ممبر پارلیمنٹ منتخب ہوئے اور انھوں نے زیر زمین ( انڈرگرائونڈ) رہ کر بھی زندگی بسرکی۔ ان کے دوستوں اور ساتھیوں میں جوش ملیح آبادی، علی سردار جعفری، کیفی اعظمی، مجاز، ایم ایف حسین اور حبیب تنویر تھے تو دوسری طرف راج بہادرگوڑ، اور بردھان، کے نرائن، اے کے ہنگل اور دوسرے کمیونسٹ رہنمائوں اور ترقی پسند ادیبوں سے ان کی گہری دوستی تھی۔ وہ بلبل ہند سروجنی نائیڈو کے چہیتے تھے۔
انھوں نے جب انتون چیخوف کا ڈرامہ Cherry Orchards اردو میں ’’ پھول بن‘‘ کے نام سے اسٹیج پر پیش کیا تو سروجنی نائیڈوکی بیٹی لیلا مانی نے اس میں کردار ادا کیا۔ یہ حیدرآباد جیسے قدامت پسند سماج میں ایک ہنگامہ خیز واقعہ تھا اس سے پہلے حیدر آباد کے اشراف اور اشرافیہ کی کوئی لڑکی کبھی اسٹیج پر نمودار نہیں ہوئی تھی۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مخدوم حیدرآباد دکن کے طبقہ اعلیٰ میں کس قدر محترم ومکرم تھے۔
کون یقین کرے گا کہ مخدوم نے اپنی موت سے پانچ برس پہلے ’’ چاچا ‘‘ نامی فلم کے گیت لکھے۔ اس فلم میں بیلا بوس، چندر شیکھر، ہیلن، مدن پوری اور ٹن ٹن نے کام کیا تھا۔ آشا بھوسلے اور محمد رفیق نے اس فلم کے لیے مخدوم کا لکھا ہوا گیت’’ اک چنبیلی کے منڈوے تلے ‘‘ گایا تھا۔ ’’آپ کی یاد آتی رہی رات بھر، چھایا گنگولی نے گایا تھا اور مخدو م کی رحلت کے کئی برس بعد فلم بازار میں ان کی غزل ’’ پھر چھڑی رات، بات پھولوں کی، کولتا منگیشکر اور طلعت محمود نے یادگار بنا دیا۔
مخدوم کیا کچھ تھے۔ ایک کمیونسٹ مفکر، تلنگانہ کی مسلح جدوجہد کے رہنما، دلآویز آتش بیاں شاعر، ایسی ہشت پہلو شخصیتیں کم کم پیدا ہوتی ہیں، اگر مخدوم نے اپنی شاعرانہ اور باغیانہ جدوجہد سے اپنے سماج کو مالا مال کیا تو ان کے لوگ بھی آج تک انھیں محبت اور عقیدت سے یادکرتے ہیں اور ان کا حق ادا کرتے ہیں۔
انھوں نے افریقہ کے مشہور انقلابی رہنما پیٹرک لوممبا کے سفاکانہ قتل پر ایک نظم ’’ چپ نہ رہو ‘‘ لکھی تھی۔ اس نظم کے آخری اشعار درج ذیل ہیں۔
شب کے سناٹے میں پھر خون کے دریا چمکے/ صبح دم جب مرے دروازے سے گزری ہے صبا/ اپنے چہرے پہ ملے خونِ سحرگزری ہے/ روز ہو جشن شہیدانِ وفا، چپ نہ رہو/ بار بارآتی ہے مقتل سے صدا چپ نہ رہو/ چپ نہ رہو۔
یہ نظم جو مخدوم نے پیٹرک لوممبا کے قتل پر لکھی تھی یہ ہم سے بھی یہی کہتی ہے کہ ’’ چپ نہ رہو ‘‘ ہمارے کانوں تک بھی مقتل سے یہی صدا آتی ہے کہ ’’چپ نہ رہو۔‘‘