منتخب کردہ کالم

چچا سام کے نام پانچواں خط .. ظفر محمود

چچا سام کے نام پانچواں خط .. ظفر محمود

انکل سام! پاکستان کی سیاسی بساط پر ہلچل میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس ملک کی تاریخ پر نظر رکھنے والوں کو گمان ہوتا ہے کہ پسِ پردہ آپ ہی تار ہلا رہے ہوں گے۔ اِسی خیال کے پیش نظر، گزشتہ خط میں اندازہ لگانے کی کوشش کی تھی کہ کیا ہمارے حالات آپ کے پسندیدہ ”ون ونڈو آپریشن‘‘ کی طرف تو نہیں جا رہے؟ کیا اس پتلی تماشے کا انجام یہی ہو گا؟
انکل سام! آپ ایک بار پھر خواب میں تشریف لائے۔ ٹوہ لگانے اور ارادے بھانپنے کی کوشش کو آپ نے ایک نا سمجھ بھتیجے کی خواہش سمجھ کر نظر انداز کر دیا۔ شفقت سے میرے گال تھپتھپائے۔ تبسم فرمایا اور سرپرستانہ لہجے میں میرے خیالات کی تصحیح کی۔ آپ کا فرمان تھا کہ ہم غیر ضروری طور پر ملکوں کی اندرونی کشاکش میں حصہ نہیں لیتے۔ ہماری سیاست اپنے قومی مفاد پر مبنی ہوتی ہے۔ اگر آپ کے اداروں کی اندرونی کشمکش ازخود ہمارے مفاد کو آگے بڑھا رہی ہو تو ہم غیر جانبدار رہتے ہیں۔ البتہ ان تماشوں کے منطقی انجام تک پہنچنے کی نگرانی کرتے رہتے ہیں۔
انکل سام! آپ کی بات دُرست مگر آپ کی سیاست کے اگر کوئی اصول ہیں تو میری سمجھ سے بالاتر۔ آپ کے نئے صدر نے الیکشن کے دوران ازخود وعدہ کیا کہ اگر وہ جیت گئے تو ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ثالث کا کردار ادا کریں گے۔ ساری دُنیا خوش ہوئی۔ کیونکہ انہیں پتا ہے کہ ہم دونوں ملکوں کی جذباتیت مسائل کو ازخود حل نہیں کر سکتی۔ مگر کیا اب صدر ٹرمپ کا ارادہ بدل چکا ہے؟ میرے سوال پر آپ نے ایک بار پھر سرپرستانہ تبسم فرمایا اور اپنے کم عقل بھتیجے کی جسارت پر بُرا منائے بغیر ایک بار پھر سمجھانے کی کوشش کی۔ آپ نے پاکستان اور ہندوستان کے تعلقات پر روشنی ڈالتے ہوئے مجھے ایک لطیفہ سنایا‘ جو کچھ یوں تھا کہ ”ایک شخص کو الٰہ دین کا چراغ ملا۔ رگڑنے پر جو جن برآمد ہوا وہ ہر خواہش پوری کر سکتا تھا مگر اِس شرط پر کہ اُس شخص کو ملنے والی ہر چیز اُس کے ہمسائے کو دگنی تعداد میں ملے گی۔ یہ سُن کر چراغ کا مالک پریشان ہو گیا۔ پھر کچھ سوچ کر اُس کے چہرے پر مکارانہ مسکراہٹ آئی۔ اُس نے جن سے کہا کہ اُس کی ایک آنکھ نکال دی جائے۔‘‘ آپ نے یہ لطیفہ سُنا کر مجھے یاد دہانی کرائی کہ پاک و ہند تعلقات اسی لطیفے کے مطابق ہیں۔
انکل سام! مجھے آپ کی بات سے اتفاق ہے اور اسی لئے ہم آپ کی ثالثی چاہتے ہیں۔ کیونکہ ہم کرۂ ارض کے ”کوچۂ بے عقلاں‘‘ کے لوگ اپنے مفاد کو پہچان نہیں پاتے۔ جواب میں آپ نے وضاحت کی۔ آپ کے مطابق نریندر مودی اور سشما سوراج کا کہنا ہے کہ شملہ معاہدے کے تحت پاکستان اور ہندوستان اپنے اختلافات صرف باہمی مشاورت سے حل کرنے کا اختیار رکھتے ہیں۔ کسی تیسرے فریق کی ثالثی قبول نہیں۔ انکل سام! آپ اُن سے پوچھیں کہ شملہ معاہدے کو پنتالیس سال گزر گئے۔ اس دوران کئی دفعہ بات چیت ہوئی مگر کیا کسی مسئلے کو حل کیا جا سکا۔ کیا کشمیر جیسے انسانی مسئلے پر کوئی پیش رفت ہوئی؟ کیا سیاچن کے غیر ضروری محاذ سے فوجیں واپس آئیں؟ کیا سرکریک کا اقتصادی مسئلہ طے ہو سکا؟ کیا دو طرفہ آزادانہ تجارت کے دروازے کھلے؟ کیا دونوں طرف کے لوگوں کو ایک دوسرے کے ملک جانے کی آزادی میسر ہوئی؟ کیا سرحد پار آئے دن کی گولہ باری ختم کی گئی؟ اگر میرے ہر سوال کا جواب نفی میں ہے تو انکل سام! جنگی حکمت عملی کا ”کولڈ سٹارٹ‘‘ ازخود تو باہمی تعلقات کا ”گولڈ سٹارٹ‘‘ نہیں بن سکتا۔ ہمیں اپنے مسائل حل کرنے کے لئے بیرونی امداد کی ضرورت ہے۔ اگر صدر ٹرمپ آج کل اندرونی مسائل میں الجھے ہوئے ہیں تو کم از کم یورپی یونین سے کچھ عقلمند لوگوں کی خدمات فراہم کرنے میں ہماری مدد کریں۔ یورپی یونین کی بات میں نے اس لئے کی کہ صدیوں تک یورپی ملک آپس میں برسر پیکار رہے۔ مگر آخرکار آپ کی مدد سے یورپ نے باہمی مسئلے طے کر لئے۔ آج یورپ عوامی رابطے کے حوالے سے ایک ملک بن چکا ہے۔ مگر ہماری دفعہ مودی اور سشما سوراج کی ہٹ دھرمی آڑے آ رہی ہے۔ آپ کا کام ہے کہ اُنہیں سمجھائیں۔
انکل سام! آپ ہندوستان کو یہ بھی یاد دلائیے کہ کشمیر اور سیاچن کے مسائل سے بھی زیادہ اہم مسئلہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان پانی کی تقسیم کا تھا۔ تاریخ گواہ ہے کہ دونوں ملک اس مسئلے کو طے کرنے میں ناکام رہے۔ آپ نے شروع دن سے مدد فرمائی ورنہ پاکستان میں بہنے والے دریائوں کے ہیڈ ورکس ہندوستان میں ہونے کی وجہ سے اُنھوں نے یک طرفہ طور پر 1948ء میں ہمارا پانی روک لیا تھا۔ اُس سال فصل خریف کی کاشت پاکستانی پنجاب کے لوگوں کے لئے قیامت صغریٰ بن گئی۔ آپ نے ہی اس مسئلے کے مستقل حل کی خاطر Tennessee Valley Authority کے سابق سربراہ ڈیوڈ للی این تھال کو دونوں ملکوں کے درمیان مصالحت کے لئے روانہ کیا۔ ہارورڈ یونیورسٹی کا تعلیم یافتہ یہ یہودی النسل شخص بہت قابل تھا۔ Tennessee Valley Authority میں تعیناتی کے دوران اُس نے امریکہ کی مختلف ریاستوں کے درمیان آبی وسائل کی منصفانہ تقسیم، زراعت کی ترقی اور سیاحت کی ترویج کے لئے جو اعلیٰ کام کئے، اس بنا پر پورا امریکہ اس کا معترف تھا۔ وہ یہاں آیا اور ہندوستان میں پنڈت نہرو اور پاکستان میں لیاقت علی خان سے کئی روز تک ملتا رہا۔ اُس کا خیال تھا کہ دریا تقسیم نہیں ہونے چاہئیں بلکہ سندھ طاس کے آبی وسائل کو دونوں ملک باہمی اشتراک سے ترقی دیں۔ امریکہ واپس جا کر اُس نے ایک رسالے (Collier Magazine) میں تفصیلی مضمون لکھا۔ دونوں ملکوں کے نقطۂ نظر کو غیر جانبدارانہ انداز میں پیش کرتے ہوئے، اُس نے نتیجہ اخذ کیا کہ کشمیر کا مسئلہ طے بھی ہو جائے تب بھی پاکستان اور ہندوستان کے درمیان آبی وسائل پر جنگ ضرور ہو گی۔ اُس کا تجزیہ تھا کہ انگریز نے دریائوں سے جو بنجر زمین قابل کاشت بنائی، اُس کا بیشتر حصہ مغربی پاکستان میں ہے۔ ہندوستان میں بھی بہت سے قابل کاشت اراضی موجود ہے‘ جو زرخیز بنائی جا سکتی ہے۔ اس ضمن میں ہندوستان بڑے آبی منصوبے شروع کر چکا ہے۔ ڈیوڈ للی این تھال کے الفاظ میں پاک و ہند کی تقسیم کے نتیجے میں ہندوستان کے حصے میں بیراج تو آئے مگر نہ اُسے مناسب آبی وسائل ملے اور نہ اُن کی تقسیم کا نظام۔ آزادی کے وقت ان دریائوں کے تحت بائیس ملین ایکڑ اراضی سیراب ہوتی تھی جس میں اٹھارہ ملین ایکڑ اراضی پاکستان میں واقع ہے۔ ہندوستان کے پاس بھی ابھی پینتیس ملین ایکڑ قابل کاشت اراضی موجود ہے جو آبی وسائل ملنے پر زرخیز بن سکتی ہے۔ ہندوستان کا کہنا ہے کہ اُسے اِس اراضی کو آبپاشی کا نظام دینا ہو گا کیونکہ اُس کے لوگوں کو بھی خوراک چاہیے۔ اُس نے لکھا کہ ہندوستان بہت تیزی سے پانی کا رُخ موڑنے کے منصوبے بنا رہا ہے۔ اُس کے مطابق دونوں ملک بارُود کے ڈھیر پر بیٹھے ہیں اور اِن کے پاس سندھ طاس کے دریائوں کو مشترکہ طور پر زیرِ انتظام لانے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں۔ ڈیوڈ للی این تھال کا یہ مضمون اس وارننگ کے ساتھ چھپا کہ اگر اس مسئلے کو حل کرنے کے فوری اقدامات نہ کئے گئے تو پاکستان اور ہندوستان کے درمیان کوریا کی طرز پر جنگ چھڑ جائے گی۔
انکل سام! یہ آپ کی کوشش تھی کہ ورلڈ بنک نے فریقین کو صلح پر آمادہ کیا جس کے نتیجے میں 1960ء میں سندھ طاس معاہدہ وجود میں آیا۔ یہ واحد معاہدہ ہے جس میں ورلڈ بنک تیسرا فریق ہے۔ اگرچہ دونوں ممالک کے درمیان مخاصمت اس معاہدے کی وجہ سے کم نہیں ہوئی اور دونوں ممالک میں ایک طبقۂ فکر اسے قومی مفاد کے خلاف تصور کرتا ہے۔ مگر یہ معاہدہ آج تک قائم ہے۔ آپ کی مدد اور حمایت سے معرضِ وجود میں آنے والا یہ سمجھوتہ پائیدار ثابت ہوا۔ اِس کی مضبوطی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ چند ماہ پیشتر ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی نے اِس معاہدے کا جائزہ لیا۔ بھارتی وزیر اعظم کے ارادے نیک نہیں تھے۔ پاکستان کی طرف بہنے والے دریائوں کا پانی روکنے کے امکان کا جائزہ لیا گیا۔ مگر بھارت کے قانونی ماہرین نے خبردار کیا کہ اِس بین الاقوامی معاہدے کو، جس کی گارنٹی ورلڈ بنک نے دی ہوئی ہے یکطرفہ طور پر تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔
انکل سام! اگر آپ کی مدد سے آبی وسائل کا یہ معاہدہ طے پا سکتا ہے تو صدر ٹرمپ کی تھوڑی سی ہمت اس ”کوچۂ بے عقلاں‘‘ میں امن کا پیغام بھی لا سکتی ہے۔ دُنیا کی نظر آپ پر ہے۔