چھوٹی سوچ اور دل والے حکمران…خالد مسعود خان
الیکشن کے قریب آتے ہی سیاسی ڈرامے شروع ہو جاتے ہیں۔ صوبہ جنوبی پنجاب یا آپ اسے جو بھی نام دے دیں اب اس ایشو پر ڈرامہ شروع ہو گیا ہے۔ اسی ڈرامے کا پہلا ایپی سوڈ یعنی پہلی قسط گزشتہ دنوں مسلم لیگ ن کے قومی و صوبائی اسمبلی کے آٹھ ارکان کا استعفیٰ تھا۔ ان اراکین اسمبلی نے یہ کہتے ہوئے اجتماعی طور پر استعفیٰ دے دیا کہ وہ ایک پلیٹ فارم پر صوبہ جنوبی پنجاب کے قیام کیلئے کام کا بلکہ جدوجہد کا آغاز کر رہے ہیں۔ ان تمام آٹھ اراکین اسمبلی کو یکدم (اجتماعی طور پر) اس اہم معاملے کی یاد آنے پر مبارکباد‘ اور اس کے ساتھ ہی ان اسمبلیوں کے خاتمے سے محض پینتالیس دن پہلے تمام پارٹیوں کو اس معاملے پر ہوش آنے کی بھی مبارک۔
سچ تو یہ ہے کہ مذکورہ آٹھ اراکین قومی و صوبائی اسمبلی کو مشترکہ طور پر مستعفی ہونے سے دو دن پہلے تک جنوبی پنجاب کے مسئلے پر استعفیٰ دینا تو کجا اس کا خواب بھی نہیں آیا ہو گا کہ کم از کم ان آٹھ لوگوں نے اپنے تئیں ایسے خواب کا بھی خواب نہیں دیکھا ہوگا۔ یہ اس اوپر والے یعنی میرے وحدہ لاشریک مالک کا نہیں بلکہ اوپر والوں کا کرم ہے کہ یہ خیال بھی مسلم لیگ ن والوں کے دل میں آیا ہے۔ ابھی الیکشن تک دیکھیں اور کس کس کے دل میں یہ خیال آتا ہے۔
میں نے جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے کیلئے اٹھنے والی اس ”لہر‘‘ کو ڈرامہ اس لئے قرار دیا ہے کہ یہ گزشتہ پانچ چھ سال سے عین الیکشن سے قبل کیا جاتا ہے۔ یوسف رضا گیلانی قریب ساڑھے چار سال پاکستان کے وزیر اعظم رہے مگر مجال ہے ان کو کبھی صوبہ جنوبی پنجاب کا خیال بھی آیا ہو۔ جونہی ان کی وزارت عظمیٰ سے چھٹی ہوئی انہیں اس معاملے کا خیال آگیا۔ بلکہ انہوں نے تو دعویٰ بھی کر مارا کہ ان کو وزارت عظمیٰ سے اس لئے فارغ کیا گیا ہے کہ وہ جنوبی پنجاب کو ایک علیحدہ صوبہ بنانا چاہتے تھے۔ ممکن ہے انہوں نے اس بات کا اظہار اپنے ان تمام فرنٹ مینوں سے کیا ہو جو ان کے دائیں بائیں سے مال پانی اکٹھا کر رہے تھے یا پھر یہ بھی ممکن ہے کہ انہوں نے اس کا ذکر اپنے فنانسروں اور سپانسروں سے کیا ہو۔ وہ بھی بے شک ڈرامہ کرتے ہوئے صوبہ جنوبی پنجاب کی خاطر مستعفی ہوتے تو یہ عاجز ان کا ممنون ہوتا مگر اپنی حکمرانی کے دوران ان کی ”دیگر گوناگوں‘‘ مصروفیات ہی اتنی تھیں کہ ایسا بھولا بسرا خیال ان دنوں ان کے قریب سے بھی نہیں گزر سکتا تھا۔
پاکستان میں نیا صوبہ جلسوں میں کی گئی تقاریر‘ ٹی وی پر دیئے گئے بیانات، اخبارات کو جاری کئے گئے پریس ریلیز حتیٰ کہ اسمبلی کے فلور پر کی گئی تقریر سے نہیں بن سکتا۔ یہ ایک آئینی مسئلہ ہے اور آئین پاکستان میں دیئے گئے طریقہ کار کے مطابق ہی بن سکتا ہے۔ ایمانداری کی بات ہے کہ یہ کوئی آسان کام نہیں ہے اور یہ آسان اس لئے نہیں ہے کہ اسے جان بوجھ کر مشکل بلکہ مشکل تر بنانے کی کوشش کی گئی تھی۔ یہ کام مرحوم ذوالفقار علی بھٹو نے 1973 کا آئین بناتے وقت ارادی طور پر کیا تھا حالانکہ اس وقت صوبہ جنوبی پنجاب وغیرہ کسی کے خواب و خیال میں بھی نہیں تھا۔ یہ ساری مشکل مہاجر صوبے کی ممکنہ تشکیل کو روکنے کی غرض سے کی گئی تھی جسے اب ہم لوگ بھگت رہے ہیں۔
1973 کے آئین میں درج ہے کہ نیا صوبہ بنانے کیلئے پہلے اس صوبے کی صوبائی اسمبلی ایک قرار داد منظور کرے گی جس میں نئے صوبے کی منظوری دی جائے گی‘ پھر قومی اسمبلی دو تہائی اکثریت سے اسے منظور کرے گی تب جا کر کہیں نیا صوبے بنے گا۔ مقصد صاف ظاہر ہے ذوالفقار علی بھٹو نے بڑے ٹیکنیکل طریقے سے مہاجر صوبے کی تشکیل پر آئینی بند باندھ دیا۔ اس وقت سندھی مہاجر جھگڑے کے بعد جو اردو بولنے والوں اور سندھی بولنے والوں کے درمیان ہوا تھا سیاسی طور پر دور اندیش ذوالفقار علی بھٹو کو اندازہ ہوا کہ بات صرف سندھی اردو جھگڑے تک ہی نہیں رہے گی کل کلاں یہ تقسیم علیحدہ صوبے کے مطالبے تک جا سکتی ہے لہٰذا اس کے لیے ایسا طریقہ کار بنا دیا جائے کہ یہ بات ممکن ہی نہ رہے۔
اب آپ خود اندازہ لگائیں کہ اگر مہاجر صوبہ بنانے کی بات چل نکلے تو پہلے یہ قرار داد سندھ اسمبلی سے منظور ہونی چاہئے۔ آپ خود بتائیں کہ 130 ارکان پر مشتمل سندھ کی صوبائی اسمبلی میں مہاجروں کی یا اردو بولنے والوں کی زیادہ سے زیادہ کتنی سیٹیں ہو سکتی ہیں؟ کراچی، حیدر آباد اور سکھر کی تمام صوبائی نشستیں ملا کر بھی کل باون بنتی ہیں۔ یہ بھی اس صورت میں کہ مہاجر ان تینوں اضلاع کی سو فیصد نشستیں جیت لیں۔ اب بھلا ایک سو تیس کے ایوان میں سے باون سیٹوں والے اپنے قرار داد کس طرح منظور کروا سکتے ہیں؟ بات قومی اسمبلی تک تو بعد میں جائے گی پہلے تو صوبائی اسمبلی سے قرار داد پاس کروانے کا مرحلہ ہی طے نہیں ہوگا۔
جنوبی پنجاب کو علیحدہ صوبہ بنانے کا کام ق لیگ کے دور میں ہو سکتا تھا کہ وہ پنجاب میں بھی حکمران تھے اور مرکز میں بھی۔ یا یہ کام موجودہ حکمران کر سکتے تھے کہ پنجاب میں بھی مسلم لیگ ن کی اکثریت تھی اور وہ پنجاب اسمبلی سے یہ قرار داد منظور کروا کر اسے قومی اسمبلی میں لے جاتے جہاں اس کیلئے دو تہائی اکثریت لینا مشکل نہ ہوتا کہ شاید کوئی بڑی سیاسی جماعت اس کیخلاف ووٹ نہ دیتی مگر تخت لاہور والے بھلا ایسا کیوں کرتے؟ میاں شہباز شریف اپنی حکمرانی کو جو کوٹ سبزل سے لیکر ضلع اٹک کے گائوں جھاری کس تک پھیلی ہوئی ہے آدھی کیسے کر لیتے ؟ اس ملک میں پٹواری اپنے حلقہ پٹوار کو کم کرنے پر راضی نہیں ہوتا بھلا تخت لاہور پر بیٹھے حکمران اپنی وسیع و عریض سلطنت کو آدھا کیسے کر لیتے ؟
پنجاب کی آبادی فی الوقت ایک اندازے کے مطابق گیارہ کروڑ سے زائد ہے۔ یہ آبادی دنیا کے دو سو تنتیس ممالک میں سے دو سوبائیس ممالک سے زیادہ ہے۔ پنجاب سے زیادہ آبادی والے دنیا میں محض گیارہ ممالک ہیں۔ صوبوں کی تو بات ہی نہ کریں۔ ایران کا اس لسٹ میں اٹھارہواں نمبر ہے اور اس میں صوبوں کی تعداد 31 ہے۔ ترکی انیسویں نمبر پر ہے اور وہاں 81 صوبے ہیں۔ باقی چھوڑیں افغانستان کا اس لسٹ میں چالیسواں نمبر ہے اور اس کے 34 صوبے ہیں۔ یعنی آٹھ کروڑ گیارہ لاکھ آبادی والے ایران میں اکتیس صوبے، آٹھ کروڑ آبادی والے ترکی میں اکاسی صوبے، تین کروڑ چھیاسی لاکھ والے افغانستان کے چونتیس صوبے اور بائیس کروڑ آبادی والے پاکستان کے چار صوبے اور ان میں سے ایک پنجاب جس کی اپنی آبادی گیارہ کروڑ سے زائد ہے اور وہ دنیا کے دو سو بائیس ممالک سے زیادہ آبادی والا ”صوبہ‘‘ ہے۔ یہ صوبہ اب آبادی کے لحاظ سے اتنا بڑا ہے کہ بطور صوبہ لاہور سے چلایا ہی نہیں جا سکتا جبکہ تخت لاہور اسے بلکہ پورے صوبے کو اپنی ماتحت رکھ کر چلانا چاہتا ہے جو عملی طور پر ممکن نہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہر چوتھے روز خادم اعلیٰ کسی نہ کسی گھر جاتے ہیں اور پانچ لاکھ روپے کا چیک تھما آتے ہیں۔ صوبے انتظامی طور پر چلائے جاتے ہیں نہ کہ ظلم کے بعد مظلوم کو پانچ لاکھ کا چیک پکڑا کر۔
اس صوبے کی اب انتظامی تقسیم ناگزیر ہے مگر کس طرح؟ اس کیلئے سب سے آسان اور قابل عمل طریقہ کار یہ ہے کہ آئین میں نئے صوبے بنانے کا طریقہ کار ایک آئینی ترمیم کے ذریعے طے کیا جائے اور اسے قابل عمل حد تک آسان کیا جائے۔ بھارت کی طرز پر ایک کمیشن بنایا جائے جو ملک بھر میں نئے صوبوں کے قیام کا جائزہ لے اور ملک کی از سر نو صوبائی تقسیم کی جائے۔ ملک زیادہ صوبے بنانے سے کمزور نہیں مضبوط ہوتے ہیں لیکن یہ بات حکمرانوں کو سمجھانی مشکل ہوتی ہے کہ اپنی سلطنت کو تقسیم کرنا چھوٹے دل والوں کا کام نہیں۔ بد قسمتی سے ہمارے حکمرانوں کی سوچ بھی چھوٹی ہے اور دل تو اس سے بھی چھوٹے ہیں۔