منتخب کردہ کالم

چھ ملی میٹر بارش!…الیاس شاکر

چھ ملی میٹر بارش!…الیاس شاکر

ان بارشوں سے دوستی اچھی نہیں فرازؔ
کچا تیرا مکان ہے کچھ تو خیال کر
لگتا ہے احمد فرازؔ صاحب نے یہ شعر کراچی والوں کے لئے کہا ہے جہاں سردی کی ایک بارش نے پورے شہر کو کیچڑ اور غلاظت کا ڈھیر بنا دیا… کراچی میں بارش سے کئی علاقوں میں نظام زندگی شدید متاثر ہوا۔ کئی علاقے زیرآب آ گئے۔ مختلف علاقوں میں بارش کا پانی سڑکوں پر جمع ہو گیا۔ کئی علاقوں میں بجلی کی فراہمی متاثر ہوئی۔ بعض علاقوں میں ژالہ باری بھی ہوئی۔ چھ ملی میٹر بارش نے کراچی کو ہلا کر رکھ دیا۔ حیرت انگیز بات یہ بھی ہے کہ محکمۂ موسمیات نے اس بارش کی پیش گوئی ہی نہیں کی تھی۔
بارش پوری دنیا میں ہوتی ہے۔ سردی ہو یا گرمی‘ لوگ انجوائے کرتے ہیں لیکن کراچی میں ایسا کوئی نظام نہیں کہ بارش کو انجوائے کیا جا سکے۔ یہاں تو گھروں سے پانی نکالنے‘ کیچڑ میں پیدل چلنے‘ پانی سے بچنے کے علاوہ اگر وقت مل جائے تو ٹریفک جام رہی سہی کسر پوری کر دیتا ہے۔ ہر بارش کے بعد بلدیاتی نمائندوں کو کھری کھری سنانے کا دل چاہتا ہے… لیکن چونکہ ان کے پاس مکمل اختیارات ہی نہیں ہیں اس لئے ”ناقابل اشاعت گفتگو‘‘ کا تیس سے چالیس فیصد سننے کے وہ حق دار ہیں۔ جبکہ کراچی کے اچھے برے کی ذمہ دار اور سیاہ وسفید کی مالک‘ سندھ حکومت وہ تمام جملے سننے کی ”لائق‘‘ ہے جو یہاں تحریر نہیں کئے جا سکتے۔ کراچی کی سڑکوں کی حالت ”سدھرنے‘‘ کا نام ہی نہیں لے رہی۔ اہم ترین شاہراہوں کا حشر دیکھ لیں تو گلی‘ محلے جنت لگنے لگتے ہیں ۔
مشہور لطیفہ ہے ”جنگل میں شیر کو بادشاہ بنا بنا کر تھک جانے والے جانوروں نے ایک بار بندر کو بادشاہ چن لیا۔ جانور اپنی شکایات لے کر جب بندر بادشاہ کے پاس گئے تو بندر ایک درخت سے اترکر دوسرے درخت پر چڑھ گیا، پھر دوسرے درخت سے اتر کر تیسرے پر چڑھ گیا۔ بندر درختوں پر چڑھتا اترتا رہا تو جانوروں نے پوچھ ہی لیا بادشاہ سلامت آپ کیا کر رہے ہیں؟ بندر نے جواب دیا: آپ کے لئے بھاگ دوڑ کررہا ہوں‘‘۔
اس وقت سندھ حکومت بھی کراچی کے لئے ایسی ہی ”بھاگ دوڑ‘‘ کر رہی ہے۔ کراچی کی اہم ترین سڑکیں اچانک کھود دی جاتی ہیں۔ ایک سے ڈیڑھ ماہ تک گاڑیوں کے ٹائر گھستے رہتے ہیں اور ٹائر والوں کی چاندی ہو جاتی ہے۔ پھر اچانک کسی رات سڑک بندکرکے کارپیٹنگ شروع کر دی جاتی ہے۔ اور دو چار روز بعد ایک عجیب و غریب سڑک تیار ہو جاتی ہے جس کا آدھا حصہ اونچا اور آدھا نیچا رہتا ہے۔ سڑک کے درمیان کا جوڑ تک نمایاں نظر آتا ہے۔ اور پھر یہی سلسلہ کسی اور سڑک کے ساتھ شروع کر دیا جاتا ہے۔ کسی مزاح نگار کے مطابق ”فلسفی اسے کہتے ہیں جو کسی مسئلے کا حل ایسا نکالے جسے دیکھ کر آپ یہ کہیں کہ اس سے مسئلہ اچھا تھا‘‘۔ سندھ حکومت بھی آج کل بالکل فلسفی جیسا کام کر رہی ہے جس کا حل کسی کو سمجھ نہیں آ رہا۔ سب کہہ رہے ہیں کہ اس سے تو مسئلہ اچھا تھا۔
چھ ملی میٹر بارش کے بعد بھی کراچی کی وہی حالت ہو گئی جو چند سال پہلے تھی۔ اہالیانِ کراچی سوچتے تھے کہ شاید پیپلز پارٹی کراچی کی سڑکوں کو سنگاپور‘ دبئی اور تھائی لینڈ جیسا بنا رہی ہے اور ان سڑکوں کے بدلے میں آئندہ الیکشن میں ووٹ مانگے جائیں گے۔ آئندہ الیکشن میں پیپلز پارٹی کی کراچی میں کامیابی کا تناسب دیکھنا ہو تو یہاں کی سڑکیں دیکھ لیں۔ آپ کو کسی تجزیہ کار سے پوچھنے کی بھی ضرورت باقی نہیں رہے گی۔ یہی حال گلیوں اور محلوں کا ہے، کچرا‘ غلاظت اور گندگی‘ علاقوں کی نشانیاں بنتی جا رہی ہیں۔ آپ کو کسی محلے کا سفرکرنا ہو‘ کسی کے گھر جانا ہو تو ایڈریس بھی اسی طرح سمجھنا ہو گا کہ ”جس گلی میں سیوریج کا زیادہ پانی ہو‘ وہاں سے سیدھے آئیں… آگے کچرے کا پہاڑ نظر آئے گا، جیسے ہی آگے آئیں گے… دو ڈھکن والے گٹروں کے بعد تیسرا گٹر کھلا ملے گا، اس سے آگے ٹوٹی ہوئی سڑک سے‘ اندر کی طرف مڑ جائیں۔ بس یہیں میرا گھر ہے‘‘۔ حیرت کی بات تو یہ ہے اس ایڈریس میں چھ آٹھ ماہ تک کوئی تبدیلی نہیں آتی اگر تھوڑا بہت ردّ و بدل ہوا بھی تو گٹر کے ڈھکن کی ترتیب کا یا پھر کچرے کے پہاڑوں کی تعداد بڑھ جائے گی۔
عالم اسلام کے سب سے بڑے شہر کراچی کونجانے کس کی نظر لگ گئی ۔ یہ وہ سوال ہے جو اہالیان کراچی کبھی خود سے اور کبھی حکمرانوں سے پوچھتے ہیں۔ وہ تو یہ بھی شکوہ کرتے ہیں کہ ہم نے ووٹ تو کسی اورکو دیئے تھے لیکن ہم پر حکومت کوئی اور کر رہا ہے۔ میئر کراچی‘چیئرمین ڈی ایم سیز‘ کونسلرز اور پورا بلدیاتی نظام اختیار مانگتے مانگتے تقریباً آدھی مدت پوری کرنے کو ہیں۔ لیکن مجال ہے جو جمہوریت کی چیمپئن حکومتوں کے کانوں پر جوں رینگ جائے۔ کراچی کی روشنیاں اندھیروں میں بدلنے والے کون ہیں؟ کراچی کی سڑکوں کے بخیے ادھیڑنے والے کون ہیں؟ کراچی کی سڑکوںپر سیوریج کاپانی اور گندگی اور غلاظت کے ڈھیر ڈالنے والے کون ہیں؟ ترقی کے نام پرصرف کھدائی اورچھلائی کیوں کی جاتی ہے؟ دبئی کو دبئی بنانے والا کراچی‘ تو اب لاہور سے مقابلے کے بھی قابل نہیں رہا۔ لاہور میں تو اورنج ٹرین کو بھی گرین سگنل مل چکا ہے لیکن کراچی سرکلر ریلوے کے دشوار راستوں پر‘ کے ڈی اے کی لیز یافتہ بلند و بالا عمارتیں چیخ چیخ کرکہہ رہی ہیں کہ ہمیں کیسے نکالو گے؟ کراچی کو اس کا حق کون دے گا‘ اس کا بھی کسی کو کچھ معلوم نہیں۔ کراچی کے شہری تو بس اب سپریم کورٹ اور آرمی چیف کو ہی آخری راستہ سمجھ رہے ہیں۔ اہالیان کراچی کو اب صرف آرمی چیف اور چیف جسٹس سپریم کورٹ سے ہی اپیل کرنی چاہیے تاکہ اس شہر کا بچاکھچا مستقبل بھی تاریکی کی نذر نہ ہوجائے ۔
دس سال پہلے کا لاہوردیکھ لیں‘ پھر آج کا دیکھیں اور کراچی سے موازنہ بھی کر لیں، فرق واضح نظر آئے گا۔ لاہور نے حالیہ پانچ سال میں وہ ترقی کی جو کراچی نے کبھی نعمت اللہ خان اور مصطفی کمال کے دور میں کی تھی۔ لاہور کو تو جمہوریت راس آ گئی لیکن کراچی کے لئے جمہوریت ایک ڈرائونا خواب بنتی جا رہی ہے۔ اب مایہ ناز تجزیہ کار اور دانشوران اس کا مطلب یہ بھی لیں گے کہ ”فوج کو دعوت دی جارہی ہے‘‘ لیکن کوئی یہ نہیں بتائے گا کہ جس شہر میں صفائی نہ ہو‘ اعلیٰ درجے کی سڑکیں تعمیر نہ ہوں، پولیس سیاسی ہو، سیوریج کا نظام کام ہی نہ کرتا ہو، ٹریفک جام کا مسئلہ دن دگنی رات چوگنی ترقی کر رہا ہو، مٹی اور دھول کا راج ہو، سٹریٹ کرائم عروج پر ہوں، پبلک ٹرانسپورٹ حالت نزع میں ہو، گلیوں اور محلوں کی حالت بھی دیہات جیسی ہو گئی ہو، ایک تباہ و برباد ہونے والا شہر اپنا ”علاج‘‘ کس کے پاس تلاش کرے؟ جمہوریت کے کرتا دھرتا تو یہ تک نہیں بتاتے کہ کراچی کی ”بیماری‘‘ کیا ہے؟ ایسی صورت میں صرف فوج ہی وہ امید نظر آتی ہے جو اس شہر کا کنٹرول سنبھال کر اس کی مکمل سرجری کرے۔ جس طرح ٹارگٹ کلنگ کا خاتمہ کیا گیا ہے اسی طرح کراچی کے ترقیاتی کاموں کی ”کڑی نگرانی‘‘ کی جائے۔ کراچی کے محکمے‘ کراچی کو واپس کئے جائیں۔ بلدیاتی اداروں کو بااختیار بنایا جائے۔ اور کراچی کے خرچے پر”سیاسی عیاشیاں‘‘مکمل طور پر ختم کرائی جائیں تاکہ آئندہ چھ ملی میٹر بارش اس شہر کا کچھ نہ بگاڑ سکے۔