منتخب کردہ کالم

چیمپئنز ٹرافی ختم، اصل کھیل شروع .. ابراہیم راجا

چیمپئنز ٹرافی ختم، اصل کھیل شروع .. ابراہیم راجا

میدان معجزوں سے نہیں ، محنت سے مارے جاتے ہیں۔ رب مدد کرتا ہے، صرف اُن کی جو خود اپنی مدد کرتے ہیں۔ بھارتیوں کا غرور خاک ہوا، برسوں وہ یہ زخم چاٹیں گے ، چیمپئنز ٹرافی ختم ہوئی، اصل کھیل مگر اب شروع ہوا ہے۔
بھارت سے ہم ہارے زیادہ، جیتے کم، پچھلے دس برس میں۔ اس کا بھید کیا تھا، چیمپئنز ٹرافی میں کھل گیا۔ نام نہاد سینئر کھلاڑیوں کی اجارہ داری۔ سفارشی، بد دیانت اور ٹیم میں دھڑے بندیوں کے بانی۔ کرکٹ کم، ذاتی مفادات کا کھیل جو زیادہ کھیلتے رہے۔ باتوں کے شیر، میدان میں مگر ڈھیر۔ جونکوں کی طرح جو ٹیم سے چمٹے رہے، بیچارے نئے کھلاڑی موقع ملنے کو ترستے رہے۔ گزشتہ برس شاہد آفریدی کے فرمان نے اپنوں کو پریشان، غیروں تک کو حیران کر دیا۔ فرمایا ”پاکستان میں نیا ٹیلنٹ موجود ہی نہیں، اس لیے میں کرکٹ کھیلنا جاری رکھنا چاہتا ہوں، میں اب بھی بیشتر کھلاڑیوں سے بہتر ہوں‘‘۔ یہ وہی آفریدی ہیں، کُل ملا کر چار سو چھیانوے ون ڈے اور ٹی ٹونٹی میچز جنہوں نے کھیلے، ون ڈے میں بیٹنگ ایوریج 23، ٹی ٹونٹی میں 18رنز۔ بیس برس ٹیم کے سر پر سوار رہے، انہیں ابھی مزید کھیلنے کی حسرت ہے۔ بھارتی سپنر روندرا جدیجا کی ون ڈے بیٹنگ ایوریج 31 جبکہ ایشون کی ٹی ٹونٹی ایوریج 28 رنز ہے، ان کی بائولنگ بھی کس معیار کی ہے، کاش آفریدی یہ سوال خود سے پوچھیں۔ محمد حفیظ تقریباً 37 برس کے ہو چکے ہیں، 190 ون ڈے اور 78 ٹی ٹونٹی میچ انہوں نے کھیلے، ہمیشہ اوپننگ اور ون ڈائون کی پوزیشن پر بیٹنگ کی، پھر بھی ون ڈے میں ایوریج بمشکل 33 جبکہ ٹی ٹونٹی میں 22 رنز۔ اپنی ایوریج بڑھانے کے لیے بیس برس شاید انہیں مزید درکار ہیں۔ خود کو وہ ہیرو، شائقین مگر انہیں زیرو سمجھتے ہیں، ٹیم کی جان چھوڑنے کا البتہ ان کا دور دور تک کوئی ارادہ نہیں۔ 32 سالہ وہاب ریاض بدترین کارکردگی میں اپنی مثال آپ ہیں، کرکٹ ریکارڈز اگر خوردبین سے بھی چھان ماریں، تو ان کا کوئی کارنامہ نظر نہیں آتا۔ موصوف 79 ون ڈے میچ کھیل چکے، صرف ایک مرتبہ مین آف دا میچ کا ایوارڈ جیتے، وہ بھی زمبابوے کے خلاف۔ ہاں ان کے پاس ایک ”اعزاز‘‘ اور بھی ہے ، ون ڈے تاریخ کا دوسرا مہنگا ترین بائولر ہونے کا، دس اوورز میں ایک سو دس رنز کھا کر۔ چیمپئنز ٹرافی میں اپنا ہی ریکارڈ وہ
توڑتے توڑتے رہ گئے، بھارت سے 8.4 اوورز میں 87 رنز بنوا کر۔ اگر وہ ان فٹ نہ ہوتے تو کیا ہو سکتا تھا، جاننے والے جانتے ہیں۔ یہ تمام شرم ناک ریکارڈز ایک طرف، کوئی خاص گیدڑ سنگھی بھی وہاب ریاض کے پاس ضرور ہے، ایسی گیدڑ سنگھی جو انہیں ٹیم کے ساتھ چپکائے رکھتی ہے۔ ٹیم میں دھڑے بندی کے حوالے سے شعیب ملک کا کردار کیا رہا، 2010 میں ان پر پابندی کیوں لگی ، یہ سب کوئی راز نہیں۔ 35 سالہ شعیب ملک نے چیمپئنز ٹرافی میں کُل ملا کر 54 رنز بنائے۔ کیا ٹیم میں اسپیشلسٹ بیٹسمین کے طور پر ان کی جگہ بنتی ہے؟ احمد شہزاد بَلا چلانے کے کم، موبائل کیمرہ چلانے کے زیادہ ماہر ہیں۔ کہنے والے انہیں سیلفی ماسٹر کہتے ہیں، ان کی سیلفیوں پر نہیں، پرفارمنس پر انگلیاں ضرور اٹھتی ہیں، غیر ذمہ دار اور لاابالی۔ چانس پر چانس انہیں ملے، نتیجہ لیکن مایوس کن۔ بڑے میچوں میں اکثر وہ چھوٹے کھلاڑی ثابت ہوئے۔ اظہر علی مخالف کھلاڑیوں پر بھاری ہیں لیکن وزن کے لحاظ سے۔ ایک بال پر دوسرا رن اگر انہیں لینا پڑ جائے تو سانس پھول جاتی ہے، اتنی زیادہ کہ بمشکل ہی بحال ہو پاتی ہے۔ چیمپئنز ٹرافی میں اگرچہ ان کی کارکردگی مناسب رہی، ایک بات لیکن واضح ہو گئی، ون ڈے اور ٹی ٹونٹی کی رفتار بہت زیادہ، ان کی بہت کم ہے، ہاں ٹیسٹ میچوں کے وہ بہترین کھلاڑیوں میں شامل ہیں۔
چیمپئنز ٹرافی میں با دِل نخواستہ نئے کھلاڑی آزمانے پڑے، یہ زحمت اصل میں رحمت بن گئی، انہی نوجوانوں نے اصل کرشمہ دکھایا۔ محنت اور جذبے سے وقت کا دھارا موڑ دیا۔ کتنے ہی سال وہ محلوں، کلبوں اور مقامی میدانوں میں اپنے جوہر دکھاتے رہے، برسہا برس بعد انہیں ایک موقع ملا، فرش سے عرش پر جس نے انہیں پہنچا دیا۔ خدا انہیں سینئرز کے ”اثرات‘‘ سے محفوظ رکھے، دعائیں کرنے والے یہ دعا کرتے ہیں۔ چیمپئنز ٹرافی جیت لی، اصل منزل مگر ابھی دور ہے، 2019 کے ورلڈ کپ کی منزل۔ فخر، حسن، شاداب، بابر اعظم، رومان رئیس، عامر، جنید اور سرفراز پاکستانی کرکٹ کا مستقبل ہیں۔ ان کے علاوہ اور بھی ستارے ہیں، پی ایس ایل میں جو جگمگاتے رہے، بس ایک موقع ملنے کا انہیں بے تابی سے انتظار ہے۔ نوجوان کھلاڑیوں پر ابھی بہت کام ہونا باقی ہے، ذہنی اور تکنیکی طور پر، ان کی قدرتی صلاحیتوں کو نکھارنے کے لیے۔ سرفراز کی محنت، صلاحیت اور جذبے پر کسی کو شک نہیں، بطور کپتان مگر انہیں ابھی بہت کچھ سیکھنا ہے۔ بھارت کے ساتھ پہلے میچ میں، پھر فائنل میں بھی ایک موقع پر سرفراز کی کپتانی ناقص رہی۔ 72 رنز پر بھارت کے چھ کھلاڑی آوٹ ہو چکے تھے، اس موقع پر مزید جارحانہ حکمت عملی کی ضرورت تھی، بھارت کو جلد از جلد آل آوٹ کرنے کے لیے، یہ صرف شائقین نہیں ماہرین کی بھی رائے ہے۔ بھارتی بلے باز پانڈیا اسپنرز کو باآسانی چھکے جڑ رہے تھے، سرفراز نے مگر مرکزی فاسٹ بائولرز عامر، حسن اور جنید سے اگلے آٹھ اوورز تک بالنگ نہیں کروائی، شاید ان کے اوورز آخر تک بچانے کے لیے، دفاعی حکمت عملی کے تحت۔ بہرحال میچوں میں غلطیاں ہوتی رہتی ہیں، اگرچہ غلطیاں سبق سیکھنے کے لیے ہوتی ہیں، دہرانے کے لیے نہیں۔ کھلاڑیوں کی تربیت کے علاوہ، کرکٹ کا بنیادی ڈھانچہ بہتر بنانا بھی ازحد ضروری ہے۔ دنیائے کرکٹ کے ماہرین حیران ہیں، ایک ایسا ملک جہاں کرکٹ کا کوئی خاص انفراسٹرکچر نہیں، جہاں کوچنگ اور ٹریننگ کا کوئی موثر نظام نہیں، جہاں آٹھ برس سے بین الاقوامی کرکٹ نہیں کھیلی گئی، اسی ملک سے کیسے باصلاحیت نوجوان کھلاڑی ابھرے، چیمپئنز ٹرافی میں آئے اور فتح کے جھنڈے گاڑ گئے۔ ایسا ایک مرتبہ تو ہو گیا، بار بار شاید یہ ممکن نہ ہو، جب تک کرکٹ کا پورا ڈھانچہ جدید بنیادوں پر نہ کھڑا کیا جائے۔ اس کے علاوہ ”بزرگوار سینئرز‘‘ سے جان چھڑانا اور قومی ٹیم کو اندرونی ماحول خراب کرنے والے ”اکملوں، شہزادوں اور مَلکوں‘‘ سے بچانا بھی ضروری ہے۔ ورلڈ کپ تک ہمارے نوجوان ہی تجربہ کار اور مایہ ناز کھلاڑی بن چکے ہوں گے۔ چیمپئنز ٹرافی کے بعد یہی اصل میچ ہے جو ہم نے کھیلنا ہے، پیشہ ورانہ دیانت داری ، لگن اور جذبے کے ساتھ۔ ایسا اگر ہم کر گزرے تو بڑے بڑے میدان، پاکستان کے نام ہوں گے۔