چینی سرمایہ‘ کرپشن کی نذر…نذیر ناجی
گزشتہ چند کالموں میں اقوام عالم میں چین کا بڑھتا ہوا اثرورسوخ اور نمبرون کی پوزیشن پر براجمان ہونے کی کوششوں کے بارے میں‘ قارئین کو آگاہ کرتا چلاآ رہا ہوں ۔ایشیا میں چین نے بھاری سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ شرق اوسط میں بھی اس کی بڑھتی ہوئی دلچسپی اسی وجہ سے ہے کہ نمبرون پوزیشن حاصل کی جا سکے اور اب مفلوک الحال افریقی ممالک میں بھی کثیر سرمایہ لگایا جا رہاہے۔سلیم سولومن اور کیسی فری چھیٹے ‘نے کچھ ایسی ہی منظر کشی کی ہے ۔
”1960ء کی دہائی سے چین‘ افریقہ بھر میں نوآبادیات اور نسلی عصبیت کے خلاف منظم ہونے والی تحریکوں کی حمایت کرتا رہا ہے۔ جب الجیریا‘ سوڈان اور جنوبی افریقہ جیسے ممالک آزادی کے حصول کے لئے جدوجہد کر رہے تھے تو اس وقت بیجنگ انہیں اقتصادی امداد اور لاجسٹک سپورٹ فراہم کرتا رہا تھا۔ اب‘ جبکہ ان معاملات کو دہائیاں بیت چکی ہیں‘ تو یہ آئیڈیالوجیکل تعلقات مشترکہ معاشی‘ سکیورٹی اور تزویراتی مفادات کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ جس کا نتیجہ دنیا کی پیچیدہ اور متنازعہ ترین بین الاقوامی شراکت داری کی شکل میں سامنے آیا ہے۔آج کچھ لوگ چین کو ایک ایسی نیو کالونیل طاقت کے طور پردیکھتے ہیں‘ جو افریقی اقوام کو قرضوں کے بوجھ تلے دبانے‘ ان کے وسائل پر ہاتھ صاف کرنے اور ان کی خود مختاری کو کم کرنے کے لئے تیار رہتی ہے۔ یہ لوگ اس معاملے میں بعض کیسز کا حوالہ دیتے ہیں‘ جیسے جبوتی‘ جہاں سرکاری طور پر حاصل کردہ قرضوں کا 80 فیصد چین کا فراہم کردہ ہے۔ یہ قرضے اس ملک کی کل قومی پیداوار کے 86 فیصد تک پہنچ چکے ہیں یا پھر زیمبیا‘جہاں قرضوں کا ناقابل برداشت بوجھ جلد ہی چینیوں کو اس قابل بنا دے گا کہ وہ سرکاری الیکٹرک کمپنی زیسکو کو اپنے قبضے میں لے سکتے ہیں۔ ابھی پچھلے دنوں ہی کچھ امریکی سینیٹرز نے سیکرٹری خزانہ‘ سٹیون منچن اور سیکرٹری آف سٹیٹ مائیک پومپیو کو لکھے گئے ایک خط میں اس امر پر تشویش کا اظہار کیا کہ چین ‘افریقہ میں سرمائے کو ہتھیاروں میں تبدیل کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔
خصوصی طور پر افریقی لیڈر‘ چین کو ایک لچکدار پارٹنر کے طور پر دیکھتے ہیں‘ جو ان شعبوں میں سب کے ساتھ مساوات اور نرمی سے معاملات طے کرتا ہے‘ جہاں باقی بڑے ممالک ایسا نہیں کرتے۔ انفراسٹرکچر کے منصوبے ‘ جو کہ مجموعی اقتصادی تعلقات کا اہم حصہ ہوتے ہیں‘ کے لئے چینی قرضے آئی ایم ایف (انٹر نیشنل مانیٹری فنڈ) اور دوسرے کثیر جہتی قرض دہندہ کی نسبت کم شرح سود پر فراہم کئے جاتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ بہت سے افریقی ممالک نے انہی سے زیادہ تر قرضہ حاصل کر رکھا ہے۔ چینی قرضوں ‘ تعمیرات اور پروجیکٹ مینجمنٹ کے ذریعے افریقہ نے پُل ‘ سڑکیں‘ ریلویز‘ ڈیم بنائے اور ہائیڈروپاور پروجیکٹ تعمیر کئے اور یہ ایسے بڑے بڑے پروجیکٹ ہیں جو آنے والے برسوں میں صنعتی شعبے کے عروج کا باعث بن سکتے ہیں۔ لیکن دو دہائیوں کے اقتصادی اعداد و شمار ‘ جو کاروباری اور ثقافتی تعلقات پر مبنی ہے‘ اور حال ہی میں اختتام پذیر ہونے والے چائنا افریقہ کوآپریشن فورم سے حاصل ہونے والی خبریں یہ پتہ دیتی ہیں کہ چین اور افریقہ کے تعلقات سادہ ترین خصوصیات کی بھی نفی کرتے ہیں۔ پالیسی افریقہ پر ایک محراب بنانے جیسی ہو سکتی ہے‘ لیکن زمینی صورتحال یہ ہے کہ چین دو طرفہ تعلقات میں الگ نوعیت کے معاملات میں مصروف ہے۔ افریقی ممالک کو فائدہ پہنچانے کا چین کا پیمانہ یہ ہے کہ کون سے لیڈر اپنے قومی مفادات کا بہتر طور پر دفاع کر رہے ہیں؟اور اس بارے میں متفکر ہونے کی بھی مناسب وجہ موجود ہے کہ آیا یہ مفادات پورے ہو رہے ہیں یا نہیں؟ غیر واضح ڈیلیں‘ بڑے پیمانے پر بد عنوانی اور بد انتظامی کی رپورٹیں ‘ پروجیکٹوں کی فیزیبلٹی کے بارے میں پائے جانے والے شکوک و شبہات اور قطعی تجارتی عدم توازن اس بارے میں سنجیدہ نوعیت کے سوالات اٹھاتے ہیں کہ جو مواقع افریقی لیڈروں کو حاصل ہو رہے ہیں‘ وہ ان سے کتنا فائدہ اٹھا رہے ہیں؟ اور ان کی جانب سے کتنے اچھے طریقے سے انتظام کاری ہو رہی ہے؟ 20 سال تک وسعت اختیار کرتے ہوئے تعاون کے بعد چین‘ افریقہ کے سب سے بڑے تجارتی شراکت دار کے طور پر سامنے آیا ہے‘ اور یہ افریقہ میں سب سے بڑی براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاریوں میں سے ایک ہے اور اس کے انفراسٹرکچر پروجیکٹس کا سب سے وسیع فنانسئر بھی۔ جانز ہاپکنز یونیورسٹی میں چائنا افریقہ ریسرچ انیشی ایٹو کے تحت اکٹھے کئے گئے اعداد و شمار‘ ان تعلقات کی حد کو ظاہر کرتے ہیں۔ 2016ء میں چین افریقہ تجارت کا حجم 128 بلین ڈالر تھا۔ چین نے پورے براعظم میں قرضوں کے حوالے سے فنانسنگ کے لئے 140 بلین ڈالر تک وسعت دی اور 2015ء میں اس کا افریقہ میں برا ہ راست انویسٹ منٹ سٹاک کم و بیش 35 بلین ڈالر تک پہنچ چکا تھا۔ بیجنگ نے چینی تاجروں کے لئے یہ مواقع بھی پیدا کئے تھے کہ وہ افریقہ میں اپنی دکان کھول سکتے ہیں۔
چین نے افریقہ کی سب سے بڑی اور نمایاں عمارتیں بھی تعمیر کی ہیں۔ افریقہ بھر کے تمام بڑے شہروں کی سکائی لائنز پر ان کی موجودگی اس بات کے ثبوت کیلئے کافی ہے۔ ان میں سے زیادہ تر عمارتیں تحفے کے طور پر بنا کر دی گئی ہیں۔ مثال کے طور پر چین نے 2012ء میں ایتھوپیا کے شہر‘ عدیس ابابا میں 200 ملین ڈالر کی لاگت سے افریقن یونین ہیڈ کوارٹر بنا کر دیا۔ اسی سال چین نے اکنامک کمیونٹی آف ویسٹ افریقن سٹیٹس کو 31.6 ملین ڈالر کی بلا سود گرانٹ فراہم کی تاکہ وہ نائیجیریا میں اپنے نئے ہیڈ کوارٹرز تعمیر کر سکیں۔ افریقہ میں صرف ود شعبے ‘آفیشیل ڈویلپمنٹ ایڈ اور ایف ڈی آئی‘ ایسے ہیں جن میں امریکہ کی سرمایہ کاری چین سے زیادہ ہے‘ لیکن یہ توازن بھی جلد ہی تبدیل ہو سکتا ہے۔چائنا افریقہ ریسرچ انیشی ایٹو کے مرتب کردہ اعداد و شمار کا جائزہ لینے سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ چین پورے براعظم میں مساوی سرمایہ کاری نہیں کرتا ہے۔ اس خطے کے آٹھ ممالک ایسے ہیں‘ جن میں چین نے بالکل کوئی سرمایہ کاری نہیں کی۔ پھر دس مزید ممالک ایسے ہیں‘ جن میں 200 ملین ڈالر سے کم سرمایہ کاری کی گئی۔ جبکہ پانچ ممالک ایسے ہیں جن کو کل دئیے گئے قرضوں کے نصف سے بھی زیادہ فراہم کئے گئے‘ ان میں سوڈان‘ کانگو‘ کینیا‘ ایتھوپیا اور انگولا شامل تھے۔ اسی طرح چھ ممالک ایسے ہیں جن کو 2015ء میں ایف ڈی آئی کا پورا سٹاک مل گیا تھا‘ جبکہ 2016ء میں اس علاقے سے چین کو جتنی برآمدات کی گئیں‘ ان کا نصف سے بھی زیادہ صرف دو ممالک انگولا اور جنوبی افریقہ کو دیا گیا۔
ایسا بھی نہیں کہ چین نے اپنا ہر وعدہ پورا کیا ہو۔ جب چین کی جانب سے کئے گئے وعدوں اور ان پر عمل درآمد کے درمیان کوئی خلا پیدا ہوا تو عمومی طریقہ پھر اپنایا گیا کہ افریقی ممالک نے وہ ڈیل ختم کر دی ماہ رواں کے دوران پیش کی گئی برائٹ سمنز کی ایک رپورٹ کے مطابق‘ گھانا اور زمبابوے کو جتنی رقم فراہم کرنے کا وعدہ کیا گیا‘ اس کا صرف دس فیصد ہی فراہم کیا جا سکا۔ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ چین نے کچھ شرائط عائدکر دی تھیں‘ جیسے یہ کہ متعلقہ ملک نجی قرضے بھی حاصل کرے۔ لیکن اس کا ایک سبب فنڈز کے استعمال میں بد انتظامی بھی تھا۔ ایک مثال زمبابوے کے شہر ہرارے میں واٹر اینڈ سیور پروجیکٹ کی بھی ہے۔ حکام نے چین سے 144 ملین ڈالر کا قرضہ حاصل کیا تاکہ پبلک ورک سسٹم کو اپ گریڈ کیا جا سکے اور پینے کے پانی کو زیادہ صاف اور دستیاب بنایا جا سکے‘ لیکن چین نے آدھا قرضے فراہم کرنے سے انکار کر دیا ہے اور آزادانہ آڈٹ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ کک بیکس اور بجٹ کے حوالے سے بدمعاملگیوں کی وجہ سے ایسا ہوا ہے‘‘۔