چند دن قبل میں نے اقتصادی شاہراہ پر سفر کیا۔ چلاس سے چند کلومیٹر بعد موٹروے سے مشابہ شاندار اور کارپٹڈ شاہراہ پر محوِ سفر تھے۔ گلگت کے بعد ہنزہ جیسی خوبصورت وادیوں کو طے کرنے کے بعد عطا آباد جھیل کا انتہائی خوبصورت منظر سامنے تھا اور آٹھ کلومیٹر کے قریب پہاڑ میں سے نکالی گئی سرنگ حیران اور خوش کر رہی تھی۔ اس سرنگ کے تین حصے ہیں، پہلے حصے سے گزرنے کے بعد کھلے آسمان تلے ایک پوائنٹ بنایا گیا ہے۔ یہاں گاڑیاں پارک کر کے جھیل کے صاف شفاف پانی کا نظارہ کیا جا سکتا ہے۔ ہم نے یہ نظارہ کیا اور پھر اگلی سرنگ میں داخل ہو گئے۔ سرنگوں سے نکلنے کے بعد خیبر، پاسو اور سوست جیسی حسین وادیوں سے ہو کر بالآخر درئہ خنجراب جا پہنچے۔ وہاں برف باری کا منظر تھا۔ میں چند قدم آگے بڑھ کر چین کی سرزمین پر کھڑا تھا۔ شہد سے میٹھے، پہاڑوں سے اونچے اور سمندروں سے گہرے دوستوں نے اپنی دوستی کا نقش اس شاہراہ پر قدم بقدم نقش کر دیا ہے اور یہ نقوش آنے والے وقتوں میں بڑھتے ہی جائیں گے (ان شاء اللہ)
تاہم ایک بات پر ہمیں نظر بھی رکھنا ہو گی اور وہ یہ ہے کہ ہمارے اس گہرے رشتے اور دوستی کے خلاف حاسد قوتیں بھی خاموش نہیں بیٹھیں اور ان کا پروپیگنڈا جاری رہتا ہے۔ اس زہریلے پروپیگنڈے کے بہت سارے پہلو ہیں۔ میرے سامنے اس وقت امریکہ، انڈیا اور دیگر حاسد قوتوں کے پروپیگنڈے کا وہ پرفریب پہلو ہے جس میں وہ چین کے مسلمانوں کے ہمدرد بنتے ہیں اور پھر پاکستان کی طرح دہشت گردوں کو چین کے خلاف بھی استعمال کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ میں نے اس حوالے سے چین کے مسلمانوں کے ماضی میں جھانکنے کی کوشش کی تو مجھے ایک چینی مسلمان کی کتاب مل گئی۔ یہ مسلمان نوجوان 1920ء میں چین سے ہندوستان آیا۔ سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ مجھے کلکتہ سے مولانا عبدالرزاق ملیح آبادی نے آگاہ کیا کہ ہمارے پاس ایک چینی مسلم نوجوان آیا ہے۔ اسے ندوہ میں داخل کر لیجئے چنانچہ اس نے بی اے کے ساتھ ساتھ اعلیٰ دینی تعلیمی حاصل کی۔ پھر جامعہ ازہر مصر سے فارغ ہو کر واپس آ گیا۔ میرے کہنے پر اس نے چین کے مسلمانوں پر ایک مستند کتاب تحریر کی۔ اس عالم کا نام بدرالدین چینی ہے۔ مولانا بدر الدین نے 20اکتوبر 1933ء کو کتاب لکھ کر شائع کر دی۔ قارئین کرام! میں نے اپنے حالیہ دورہ میں اس ضخیم کتاب کو پڑھ ڈالا۔
حضرت قتیبہ بن مسلم جیسے تابعی جرنیل کاشغر تک آئے اور ان کی قبر آج بھی یہاں موجود ہے۔ چین کی پہلی مسجد ”کنٹن‘‘ شہر میں معروف تاجر جناب سعدبن وقاص نے بنائی تھی۔(یہ معروف صحابی حضرت سعدؓ بن ابی وقاص کے علاوہ ہیں، وہ بقیع میں مدفون ہیں) یہ قبر آج بھی موجود ہے۔ یہ علاقہ جنوبی چین میں ہے۔ تانگ بادشاہوں کے دور میں چین کے مسلمانوں کے ساتھ روا سلوک کے بارے میں معروف چینی مؤرّخ تھون جیان لکھتے ہیں ”ہزاروں مسلمان دارالحکومت میں رہتے ہیں، یہ تاجر ہیں، بادشاہ نے ان کے لئے مہمان خانے تعمیر کر رکھے ہیں۔ ان کی وجہ سے شہر کی عظمت اور بازاروں کی شان کو چار چاند لگے ہوئے ہیں‘‘ مولانا بدر الدین مزید لکھتے ہیں: یوان بادشاہوں کے زمانے میں ”شیخ الہادی‘‘ کا عہدہ قائم کر دیا تھا کہ وہ دین کی دعوت کا کام کرے۔ قاضی القضاۃ بھی بنایا تھا جو مسلمانوں کے فیصلے کرتا تھا‘‘ منگ دور کے بادشاہوں نے سائنسی علوم کے لئے ایک رصدگاہ (لیبارٹری) بنائی تھی جس کا ڈائریکٹر جنرل علی نامی مسلمان سائنسدان تھا۔ علی نے اپنے سائنسی مرکز کا نام ”دارالمشاہدہ‘‘ رکھا تھا۔ مولانا بدر الدین چینی ایک چینی کتاب ”کنفیوشس کا ہمعصر‘‘ کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ چین کے بادشاہ چونگ نے کہا تھا ”کنفیوشس (صحیح نام اور تلفظ کنگ فوتوسی ہے) کے فلسفے سے معاشرے کو بنایا جا سکتا ہے لیکن اس سے روحانیت کی بنیاد نہیں ڈالی جا سکتی، گوتم بدھ اور لوٹز کے خیالات خیالی ہیں ان کے ذریعے سے حق تک نہیں پہنچا جا سکتا کیونکہ یہ دونوں ایک دوسرے سے انتہائی بعید دو انتہائوں پر کھڑے ہیں مگر اس کے برعکس اسلام نے خالق کو پہچاننے کا جو طریقہ بتلایا وہ حقیقت اور اعتدال پر مبنی ہے لہٰذا میرا خیال یہ ہے کہ جب تک دنیا فنا نہ ہو گی اس وقت تک یہ دین قائم رہے گا۔‘‘
قارئین کرام! ان حقائق کے ساتھ ساتھ مولانا بدر الدین چینی اپنے مسلمانوں کی بغاوتوں کا بھی ذکر کرتے ہیں اور نتیجہ یہی بتلاتے ہیں کہ ان بغاوتوں کی وجہ سے اگرچہ کسی ایک علاقے میں کچھ کچھ عرصہ تک ان کی حکومتیں بھی وجود میں آئیں مگر بالآخر ختم ہوتی رہیں اور اس سے مسلمان مصائب کا شکار ہوئے۔ اسلام کی دعوت کو بے حد نقصان بھی پہنچا۔ کہیں ان پر ظلم بھی ہوا اور یہ بھی حقیقت ہے کہ جہاں مسلمانوں نے غلبہ حاصل کیا، چینیوں پر انہوں نے بھی ظلم کیا۔ مولانا بدر الدین ایسے کئی واقعات لائے ہیں جن کی گنجائش کالم میں نہیں ہے۔
آخر میں مولانا بدر الدین مانچو خاندان کی حکومت کا تذکرہ کرتے ہیں اور اپنے زمانے کے مسلمانوں کو بتلاتے ہیں کہ اس خاندان نے مسلمانوں پر ظلم کیا ہے۔ اس کی حکومت ختم ہو گئی ہے۔ مسلمان ہلاکت کے کنارے پر تھے کہ 1911ء کے انقلاب نے ان کو بچا لیا ہے۔ اب جمہوری دور شروع ہو گیا ہے۔ چین کی پانچ قومیں جو قومیت کی بنیاد پر لڑتی رہتی تھیں، سب سے بڑی چینی قوم ہُوئی یا ہُن ہے، اب اس کو برتری نہیں بلکہ سب قوموں کو برابر قرار دے دیا گیا ہے لہٰذا اب قوم پرستی پر لڑنے کی سابقہ روش کو چھوڑنا ہو گا۔ ہندوستان کے مسلمانوں میں پانچ ارکان پر عمل کرنے کا بڑا جذبہ ہے۔ مشرق بعید میں بھی یہ جذبہ ہے۔ تم اس سے خالی ہو، سائنسی اور جدید علوم سے دور ہو۔ اب آگے بڑھو اور امن کے ساتھ چینی قوم کے ساتھ برادرانہ تعلقات قائم کر کے اپنا کردار ادا کرو۔ مئی 1933ء میں حکومت نانکینگ نے اسلامی تعلیمی کمیٹی بھی بنا دی ہے اس میں گیارہ مسلمان ممبر ہیں اور دو غیر مسلم چینی ہیں۔ اس سے فائدہ اٹھائو اور چینی ترکستان میں بھی حکومت نے مذہبی آزادی دے رکھی ہے لہٰذا اس اچھے رویے سے استفادہ کرو۔ اپنی برتری کے تصور کو جو قوم پرستی پر مبنی ہے باز آ جائو۔
قارئین کرام! یہ تھا مولانا بدر الدین چینی رحمہ اللہ کا اپنے دور تک کا تجزیہ اور ناصحانہ انداز جسے ہم نے اختصار کے ساتھ عرض کر دیا۔ اب ہم آگے چلتے ہیں تو چین میں کمیونزم کا انقلاب آتا ہے۔ چیئرمین مائوزے تنگ اور چواین لائی کا چین ہمارے سامنے آتا ہے۔ اس دور کے کچھ شکوے مسلمانوں کے بھی ہیں اور باقی اقوام کے بھی مگر یہ دور بھی گزر چکا ہے۔ اب چین کا جو جدید دور ہے یہ چین کے عظیم رہنما جن پنگ کا دور ہے۔ اب نہ تو یہ سابقہ ادوار کی طرح ڈکٹیٹر شپ کا دور ہے نہ اس میں سابق دور کی طرح کی گھٹن ہے۔ اب یہ معاشرہ کافی کھلا معاشرہ ہو چکا ہے۔ دنیا بھر سے تعلق قائم کر چکا ہے۔ چین دنیا کی دوسری بڑی سپرپاور بن چکا ہے۔ پاکستان کے ساتھ اقتصادی شاہراہ بنا رہا ہے۔ اب چین ایک مختلف ملک ہے جس میں انسانی حقوق کا خیال رکھا جا رہا ہے۔ دنیا بھر کے ساتھ معاشی اور علمی تعلق قائم کیا جا رہا ہے۔ ہمارے پاکستان میں چین کے لوگ آ رہے ہیں۔ ہم وہاں جا رہے ہیں۔ یہ تعلقات اور چین کا جدید نمایاں اور نکھرا ہوا چہرہ مودی جیسے حاسد کو ہضم نہیں ہو رہا۔ امریکہ اس حسد میں بہت آگے ہے۔ جس طرح وہ افغانستان میں بیٹھ کر وہاں سے اسلام کے نام پر دہشت گردوں کو پاکستان بھیج کر دہشت گردی کرواتے ہیں یہی پروگرام وہ چین کے خلاف رکھتے ہیں۔ چین کے مسلمانوں کو اور پاکستان کے مسلمانوں کو اس سازش کو سمجھنا ہو گا اور اسے ناکام کرنا ہو گا۔ مولانا بدرالدین چینی آج زندہ ہوتے تو یہی کچھ کہتے ان کی کتاب کے تسلسل کو آگے بڑھا کر آج میں امیر حمزہ یہی عرض کروں گا کہ مغرب اور انڈیا کے جھوٹے پروپیگنڈے پر ہم اپنے کان بند کر لیں۔ ہمارا چین سے براہ راست تعلق ہے اور وہ زمینی تعلق ہے۔ یہ سب سے مضبوط تعلق ہے۔
چین کے صدر جن پنگ چند ہفتے قبل ”زین چنگ‘‘ کی مسجد میں گئے، وہاں انہوں نے مسلمان رہنمائوں سے چین کی ترقی اور مضبوطی میں کردار ادا کرنے کی اپیل کی۔ انہوں نے گفتگو کرتے ہوئے کہا، چین میں اسلام ایک بڑا مذہب ہے۔ ساتھ ساتھ انہوں نے یقین دلایا کہ چینی حکومت مسلمانوں کو تمام اسلامی سہولتیں فراہم کرے گی۔ اسی طرح صدر جن پنگ نے ”عالمی مسلم مدینہ‘‘ کے نام سے چار ارب ڈالر کی لاگت سے ایک بہت بڑا اسلامی ثقافتی مرکز بنانے کا اعلان کر دیا ہے۔ چوآن شہر میں یہ تھیم پارک اپنی مثال آپ ہو گا۔ چین نے مزید یہ کام کیا ہے کہ چینی مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم ”اسلامک ایسوسی ایشن آف چین‘‘ کے سربراہ کو وزیر کا پروٹوکول اور سہولیات فراہم کر دی ہیں۔ چین کی حکومت نے ایک اور کام کیا ہے کہ منگ بادشاہت کے دور میں چینی بحریہ کے چیف جو مسلمان تھے، ان کا نام چینگ ہو تھا، وہ 1405ء سے لے کر 1433ء تک چینی بحریہ کے سربراہ رہے، ان کی تصاویر کو چوکوں میں آویزاں کر کے ان کی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔ جی ہاں یہ ہیں وہ نئے حالات۔ چنانچہ انڈیا جو امریکہ کی آشیرباد سے چین اور پاکستان کے ساتھ دشمنی کر رہا ہے۔ چین کے مسلمانوں کو پاکستان اور اہل پاکستان کا یہی پیغام ہے کہ وہ چین کی مضبوطی، ترقی اور امن میں بھرپور کردار ادا کریں۔ میں سمجھتا ہوں مولانا بدر الدین چینی کا دیکھا ہوا خواب پورا ہو رہا ہے۔ خنجراب کے پاس چینی علاقے میں کھڑے ہو کر میں نے مستقبل کو ایسا ہی دیکھا ہے۔
پاکستان زندہ باد، چین پائندہ باد
پاک چین دوستی شاد باد